کم عمری کی شادی اور سوشل میڈیا کا ہنگامہ

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعـء 18 فروری 2022
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

آج کل سوشل میڈیا پر ایک کم عمری کی شادی پر اس قدر اظہار رائے کیا گیا کہ ایک برطانوی نشریاتی ادارے نے اس پر خبر بھی پیش کردی جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس شادی پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔ اس شادی پر کچھ رائے پیش کرنے سے قبل ضروری ہے کہ بعض بنیادی باتوں اور حقیقتوں کو جانا جائے۔ میڈیکل سائنس کے مطابق تقریباً گیارہ ، بارہ برس کی عمر میں ایک انسان میں جسمانی تبدیلی واقع ہوتی ہے یعنی وہ عام الفاظ میں بالغ ہوجاتا ہے۔

مغرب میں سولہویں صدی کے بعد روشن خیالی کی تحریک اور دیگر سیکولر قسم کے نظریات کے ساتھ جب صنعتی انقلاب رونما ہوا تو سیکولر نظام تعلیم اور صنعتوں میں کام کرنے کا ایک ایسا کلچر آیا کہ مرد اور خواتین سب اس کا حصہ بن گئے۔ یوں اسکولوں سے لے کر ملازمتوں کے اداروں تک سب جگہ خواتین مردوں کے ساتھ کام کرنے لگیں۔

مساوات اور آزادی کے نظریے نے نکاح کے مذہبی تصورکو بھی لازمی سے اختیاری بنا دیا۔ یعنی نکاح کی شکل میں قائم حدود کی مذہبی حیثیت ہی ثانوی ہوگئی۔ چنانچہ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے جب بالغ ہوئے تو کوئی مذہبی یا اخلاقی پابندی نہ ہونے کے سبب انھیں کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ یعنی اگر اعلیٰ تعلیم تک پڑھنا ہے اور نکاح بھی نہیں کرنا چاہتے تو کوئی مذہبی اور معاشرتی رکاوٹ بھی نہیں۔

دوسری طرف وہ معاشرے جیسا کہ ہمارا معاشرہ ہے ( خواہ آپ اس کو نام نہاد اسلامی معاشرہ کہیں) اس میں ابھی تک مغرب والا مساوات اور آزادی کا نظریہ لوگوں کی بھاری اکثریت نے اپنایا نہیں، لیکن مغرب کا سیکولر اور مخلوط طرز تعلیم و ملازمت ضرور اپنایا۔ ایسی صورتحال میں اب ہمارے پاس مغرب والا سیکولر اور مخلوط تعلیمی نظام تو ہے مگر جوان ہونے کے بعد مغرب والا اختیار یعنی نظریہ نہیں۔ یعنی ایسی صورتحال میں دو بڑے مسائل سامنے آرہے ہیں، ایک یہ کہ بچے چونکہ اسکول ہی کی عمر میں جوان ہو رہے ہیں اور وہ میڈیا سے صبح و شام پیار، محبت اور عشق کی جذباتی تعلیم بھی وصول کر رہے ہیں۔

ایسے میں کوئی ایک دوسرے کو پسند کر لے تو سب سے بڑا مسئلہ کہ (شہروں میں) گریجویشن یا ماسٹر سے پہلے شادی کیسے کردی جائے؟ ایک مسئلہ اورکہ قانوناً اٹھارہ سال سے پہلے نکاح نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ہماری نئی نسل اس بڑے مسئلے سے دوچار ہے کیونکہ اٹھارہ سال سے پہلے قانون شادی کی اجازت نہیں دیتا حالانکہ عدالت میں دس سال کے بچے کی گواہی تسلیم کرلی جاتی ہے گویا وہ باشعور ہے۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کراچی شہر میں جب ایک اسکول کے جوڑے نے نکاح کرنا چاہا تو ان ہی مسئلے مسائل کے سبب وہ ناکام ہوئے اور خود کشی کر بیٹھے حالانکہ یہ ان کا حق بھی تھا اور مذہب بھی ان کے راستے کی رکاوٹ نہ تھا۔ گویا ہماری معاشرے کی یہ باتیں کہ کم عمری کی شادی درست نہیں، شادی سے پہلے تعلیم اورکیریئر حاصل کریں وغیرہ کے نتائج اچھے نہیں نکل رہے ہیں۔

مذہب نے تو ہمیں اس مسئلے کا حل بہت آسان دے دیا کہ رات کو اولاد جوان ہو تو صبح سے اس کے نکاح کی فکر کرو۔ مطلب مذہب انسان کی اس ضرورت اور خواہش میں ایک لمحے کے لیے بھی رکاوٹ نہیں، بس اس کا ایک مطالبہ ہے کہ نکاح کرو، تاکہ لڑکی کی ذمے داری بھی اٹھاؤ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بالغ ہوتے ہی شادی کرنے سے لڑکے یا لڑکی کا کیریئر نہیں بن سکتا۔

ایسے گھرانوں کے بچے جو کیریئر بنانے کی دوڑ میں لگتے ہیں ، ان کے ساتھ بھی کئی طرح کے مسائل سامنے آتے ہیں۔ سب سے زیادہ مسائل لڑکی کے حصے میں آتے ہیں۔ شادی دفتر چلانے والی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ ان کے پاس سب سے زیادہ مشکل کام لڑکیوں کے لیے اچھے رشتوں کی فراہمی ہے کیونکہ آج کل لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے کرتے عمر کا بڑا حصہ اس کی نذر کردیتی ہیں اور پھر کچھ ملازمت کے حصول میں چنانچہ اس مرحلے کے بعد وہ عمر کے اس حصے میں پہنچ جاتی ہیں کہ انھیں ان کی مرضی کا اچھا یا مناسب رشتہ نہیں ملتا کیونکہ لڑکے والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ لڑکی کم عمر اور حسین ہو۔

ان خاتون کی بات میں وزن ہے کیونکہ ایک بیس، بائیس سال اور تیس سال سے اوپر کی لڑکی میں کشش اور حسن کا نمایاں فرق ہوتا ہے جب کہ ہمارے ہاں لڑکا ہی نہیں اس کی ماں بھی چاہتی ہے کہ اس کی آنے والی بہو چاند سی ہو، باوجود اس کے کہ خود اس کی اپنی بیٹی کیسی کیوں نہ ہو۔بات سیدھی سی ہے کہ دیگر اہم ترین بنیادی ضروریات کی طرح شادی بھی انسان کے بالغ ہوتے ہی ضرورت بن جاتی ہے،مناسب عمر میں شادی نہ ہونے سے طرح طرح کے مسائل سامنے آتے ہیں جس میں صرف مذہبی نہیں، جسمانی اور معاشرتی مسائل بھی ہیں، جو لوگ جلد شادی کر لیتے ہیں۔

ان کی اولادیں بھی ان کی صحت مند زندگی میں جوان ہو کر ان کا سہارا بن جاتی ہیں، جو دیر سے شادی کرتے ہیں بعض اوقات ان کے ہاں اولاد ہی نہیں ہوتی اور ان کا بڑھاپا تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے۔ میڈیکل سائنس کے مطابق بہت دیر سے شادی کرنے والوں کے ہاں پیدا ہونے والے بچے صحت کے خطرناک مسائل سے بھی دوچار ہو سکتے ہیں۔ شادی نہ کرنے یا بہت دیر سے کرنے پر اولاد کی کمی بھی تنہائی کا سبب بنتی ہے۔ تنہائی بھی بہت بڑا مسئلہ ہوتی ہے، جاپان اور برطانیہ میں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے باقاعدہ وزارت بنائی گئی ہے۔

ہمارے ہاں بہت سے والدین اپنی اکلوتی اولاد کا بھی کیریئر بنانے کے لیے تعلیم اور ملازمت کے لیے بیرون ملک بھیج دیتے ہیں اور خود بڑھاپے میں تنہا رہ جاتے ہیں جب کہ بعض والدین اپنے بچوں کی مناسب وقت پر شادی کرکے اپنے پوتی پوتوں کے ساتھ گھر میں وقت گزارتے ہیں۔

ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ کیریئر بنانے کا معاملہ ایک بھوت کی شکل اختیار کر چکا ہے کہ جس کے لیے بہت سے لوگ پیسہ، پیسہ اور پیسہ کمانے کے چکر میں لگے رہتے ہیں یہ بھول جاتے ہیں کہ زندگی میں ہر شے کی اپنی اہمیت ہوتی ہے، بہت سے لوگ اپنی پوری جوانی کیریئر بنانے یا پیسہ کمانے میں گزار دیتے ہیں مگر وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔

جوانی اور صحت ایک خاص وقت تک ہوتی ہے اور ایک خاص وقت کے بعد ان میں جسمانی مسائل آنے لگتے ہیں۔ واضح رہے کہ الاسکا اور ساؤتھ کیرولینا میں بارہ سال کی عمر میں شادی کرنا عام بات ہے، فلوریڈا میں ہر روز ایک شادی سولہ برس کی عمر میں ہوتی ہے، امریکا کی ستائیس ریاستوں میں کم عمری میں شادی کرنے کے خلاف کوئی قانون نہیں۔ حالانکہ ان معاشروں میں بغیر نکاح کے تعلق رکھنا بھی کوئی معیوب بات نہیں۔

زندگی میں ہم جو بھی فیصلہ کریں، اگر ٹھنڈے دماغ سے ایک مرتبہ اس کے نتائج سوچ لیں تو بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں۔ گیارہ ، بارہ برس کی عمر میں بالغ ہونے والے بچوں کی شادی اگر ہم تیس برس کے بعد کرتے ہیں تو ان پندرہ برس سے زائد عرصے میں آنے والے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آئیے، کچھ دیر سوچتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔