پٹرول کی قیمتوں میں بڑھوتری کا کھیل

سالار سلیمان  پير 21 فروری 2022
وزیراعظم نے پٹرول ایک بار پھر مزید مہنگا کردیا۔ (فوٹو: فائل)

وزیراعظم نے پٹرول ایک بار پھر مزید مہنگا کردیا۔ (فوٹو: فائل)

حکومت نے ایک مرتبہ پھر سے عوام پر پٹرول بم گرا دیا ہے۔ ظاہر ہے، اب ہر جانب سے آہ و بکا سننے کو مل رہی ہے۔ کیا حکومت بالکل ہی احمقوں کا ٹولہ ہے یا اس کو اعتماد حد سے زیادہ ہے؟ آخر یہ ظالمانہ اضافہ کیوں ہوا ہے؟

اس سے پہلے ہمیں دو ممکنات بھی نظر میں رکھنے ہوں گے۔ پہلی بات تو یہ کہ شاید ایک پیج اب بھی ایک ہی ہے اور حکومت کو علم ہے کہ وہ جو بھی کرلے، اس کا کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم بہت سکون سے یوٹرن بھی لیتے ہیں اور سمری سے زائد پٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ بھی کر دیتے ہیں۔ آئی ایم ایف کو خوش کرنے کےلیے حکومت عوام کی ہڈیوں سے گودا نکال چکی ہے اور اب جو ہڈیوں سے جڑی چکنائی رہ گئی ہے، مزید مہنگائی کرکے اس کو بھی نکالا جارہا ہے۔

دوسرا امکان یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ہاتھوں یہ غلامی کی حد تک مجبور ہیں لیکن پھر بھی یہ رسک لینا پڑا ہے۔ ان کو علم ہے کہ مہنگائی ان کی حکومت کے تابوت کی کیل ہے لیکن ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔

پہلے امکان میں سے ایک پیج کا عنصر نکال دیں تو صورتحال وہاں بھی خراب ہے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ حکومت اور اس کے وزیر کس جنت میں ہیں؟ اپوزیشن فائنل راونڈ کےلیے صف بندی کرچکی ہے، ن لیگ نے بھی ق لیگ سے ملاقات کرلی ہے، سب کو نظر آرہا ہے کہ کیا ہورہا ہے، کیا ہونے جارہا ہے، کیا ہو سکتا ہے اور جب احتیاط کا تقاضا تھا کہ اول تو آپ اضافہ ہی نہ کرتے اور اگر مجبوری تھی تو ایک یا دو روپے کا اضافہ کرتے، آپ نے بیک جنبش قلم پورے 12 روپے کا اضافہ کردیا۔ کمال ہے بھئی!

یہاں پٹرول مہنگا ہوا ہے تو وہی ہر وہ چیز جس کا پہیہ پٹرول سے گھومتا تھا، وہ بھی مہنگی ہوگئی ہے۔ ابھی بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہونا ہے۔ اسی لیے کراچی سے خیبر تک کے عوام رو رہے ہیں۔ اتحادی بھی حیران ہیں کہ ایک جانب عدم اعتماد کی تلوار لٹک رہی ہے، پہلے ہی بیڈ گورننس اور مہنگائی نے حکومت کی مقبولیت برباد کردی ہے اور وزیراعظم نے پٹرول پھر مہنگا کردیا، یعنی پاکستانی معیشت کی 90 فیصد سے زائد اشیا مہنگی ہوگئیں۔

جب معاملات کی فہم نہ ہو، رائٹ پرسن فار دی رائٹ جاب نہ ہو تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ پٹرول کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا اتنا مشکل کام نہیں ہے لیکن اس کےلیے آپ کو پہلے ڈالر کو کنٹرول کرنا ہوگا اور اس کےلیے ہمیں ایک ایسی ٹیم چاہیے جو آئی ایم ایف کے سامنے نہ لیٹے اور اگر آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری بھی ہے تو مذاکرات میں چارپائی اپنی نہ لے کر جائے۔ اس کے بعد ہوشربا قسم کی لیوی ڈیوٹی اور ٹیکس وغیرہ ہیں، ان کو بمطابق حقائق ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ سال مئی 2021 میں پٹرول پر 24 روپے 11 پیسے کا ٹیکس شامل تھا اور تب پٹرول کی قیمت 108 روپے 56 پیسے تھی۔ اس وقت ڈالر 154 روپے تھا۔ آج ہم 159 روپے 86 پیسے پر 29 روپے ٹیکس ادا کررہے ہیں جبکہ ڈالر کی قیمت 176 روپے سے متجاوز ہے۔ اگر یہی ڈالر کنٹرول ہو، ٹیکس کی شرح کم ہو تو پٹرول کتنے روپے لیٹر میں مل سکتا ہے؟ اب یہ کس نے کرنا ہے؟

صرف پٹرول وہ سیکٹر نہیں ہے کہ جہاں سے ٹیکس اکٹھا کیا جاسکتا ہے، اس کے علاوہ بھی طریقے ہیں جن سے ٹیکس اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔ اس کا آسان حل تو یہی ہے کہ ٹیکس کی شرح میں خاطر خواہ کمی لائی جائے اور اس کا دائرہ کار بڑھا دیا جائے۔ اس کے علاوہ ایسی خدمات جن پر ٹیکس نہیں ہے، ان پر معمولی سہولیات دے کر انہیں ٹیکس کے دائرہ کار میں لایا جائے۔ حکومت اپنے اخراجات کم کرکے کئی کروڑ کا ٹیکس بچا سکتی ہے۔ لیکن، بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ حکومت صرف عوام کو نچوڑنے میں مصروف ہے۔ وہ خود قربانی دینا نہیں چاہتی لیکن عوام سے قربانی لینا چاہتی ہے۔

اس وقت خون زیادہ کھولنا شروع ہوجاتا ہے جب ہم وزرا کو ایسے اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ یہ اگرچہ ان کی جاب کا حصہ ہوگا لیکن کیا یہ ضروری ہے کہ حکومتی ظالمانہ اقدامات کا دفاع بھی بھونڈے اور بے حس طریقے سے کیا جائے؟ ایسے حل دیے جائیں کہ سننے والے کا دماغ خراب ہو کر رہ جائے۔ یہ لیکچرز دینے سے پہلے یہ ہی دیکھ لیں کہ ان کےلیے ماہانہ سیکڑوں لیٹر کا پٹرول تو مفت ہے، یعنی عوام پیسے بھریں گے، ان کےلیے علاج، گھر بھی مفت ہے، ان کے ملازمین کی تنخواہیں بھی ٹیکس پیئرز کی جیب دیتی ہے، یعنی ہم عوام ہی ٹیکس دیں گے تو یہ اللے تللے پورے ہوں گے، ہم پیٹ کاٹ کر ان کا اسٹینڈرڈ پورا کریں اور یہ ہماری تکلیف پر ہمیں ہی بے حسی دکھائیں؟ کیوں؟ کیا انہوں نے کل عوام میں نہیں آنا ہے؟ جس کرسی پر انہیں مان ہے، ذرا پشت پر موجود بورڈ پر بھی نظر دوڑا لیں، اس پر کندہ ناموں کو بھی اتنا ہی مان تھا۔

چلیے، سب چھوڑیئے، آپ ایک کام کیجیے۔ بھیس بدل کر کسی بازار کا چکر لگا آئیں، اگر غیرت مند ہوں گے تو صبح ہی مستعفی ہوجائیں گے۔

مہنگائی، بے روزگاری نے ہمارا مجموعی معاشرتی رویہ ٹینشن اور ڈپریشن والا کردیا ہے لیکن بجائے اس کے ان دونوں مسائل کو دیکھا جائے، الٹا عوام کا قصور نکالنا دانشمندی نہیں ہے۔ عوامی مقبولیت آپ کی ختم ہو چکی ہے اور مجھے خطرہ ہے کہ کہیں یہ اب نفرت میں بدلنا نہ شروع ہوجائے۔ اپوزیشن سے کیا گلہ کرنا؟ یہ ایسے ہی بیانات داغیں گے اور سوجائیں گے۔ ظاہر ہے، یہ بھی عوام تھوڑی ہیں، یہ بھی خواص ہیں۔ اگر اس موجودہ حکومت کی جگہ کوئی اور حکومت ہوتی تو کب کا گھر جاچکی ہوتی لیکن اس حکومت کی قسمت اچھی تھی کہ پیج ایک تھا اور اپوزیشن بزدل تھی۔ اب دیکھنا بس یہی ہے کہ ایک پیج کب تک ایک رہے گا؟ آخر کب تک؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔