لاپروائی کا شاخسانہ

شیریں حیدر  اتوار 20 فروری 2022
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

گھر سے اسپتال جاتے ہوئے جی ٹی روڈ سے گزر ہوتا ہے، جمعے کے دن جاتے ہوئے میں بالخصوص اطراف میں دیکھ رہی تھی کیونکہ اپنی کالونی کے رہائشیوں کے فورم پر رات کو دیکھا تھا کہ جی ٹی روڈ پر ایک بہت برا ایکسیڈنٹ ہوا تھا، کسی ٹرک ڈرائیور کے ٹرک کی بریک غالباً فیل ہو گئی تھیں او ر ٹی ۔چوک (جہاں سے روات سے ذرا آگے آ کر ایک سڑک اسلام آباد کو مڑتی ہے اور دوسری راولپنڈی کی طرف) سے اینٹوں سے بھرا ہوا وہ ٹرک انتہائی تیزی سے سڑک پر کئی گاڑیوں کو روندتا، کئی موٹر سا ئیکلوں کو لپیٹ میں لیتا ہوا بالآخر سڑک پر الٹ گیا۔

اس روز، یعنی چوبیس گھنٹے کے بعد جمعے کو بھی وہ ٹرک وہاں الٹا ہوا تھا اور راستے میں ایک گاڑی اس سے ٹکرا کر فٹ پاتھ پر چڑھی ہوئی اس وقت تک بھی موجود تھی۔

عینی شاہدین لکھتے ہیں کہ وہ اتنا خوفناک منظر تھا کہ اس ٹرک سے ٹکرانے اور پس جانے کے خوف سے کئی گاڑیاں بچنے کی کوشش میں آپس میں ٹکرا گئی تھیں ۔ بہت سی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا نقصان ہوا تھا اور اس وقت تک دو اموات کی تصدیق بھی ہو چکی تھی۔ ایک موٹر سائیکل سوار عین اس وقت لپیٹ میں آیا تھا جب وہ ٹرک الٹا تھا اور اینٹوں کا ڈھیر اسے موقع پر ہی لے گیا تھا۔

معلوم نہیں کہ اس حادثے کو ٹیلی وژن پر کوریج ملی یا نہیں مگرسوشل میڈیا پر تصاویر اور وڈیو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اس ٹرک کے صرف بریک ہی فیل نہ ہوئے تھے بلکہ اس ڈرائیور کے ساتھ بھی کوئی مسئلہ تھا ورنہ وہ صورت حال کو بھانپ کر رش والے علاقے میں پہنچنے سے پہلے ٹرک کو کہیں کسی دیوار پر دے مارتا، کسی ویران جگہ پر ٹرک کواسی رفتار پر موڑتا اور وہاں ٹرک الٹ جاتا تو کئی لوگوں کا نقصان ہونے سے بچ جاتا۔ اب وہ ڈرائیور کہاں ہے، کس حال میں ہے، اس کی پکڑ ہو گی یا نہیں، اس کی غفلت کو کس عوضانے پر معاف کر دیا جائے گا اور ان لوگوں کے نقصان اور بالخصوص جن کا ناقابل تلافی جانی نقصان ہوا ہے، کوئی ازالہ نہیں ہو پائے گا۔

ہمارے ملک میں بہت سے حادثات کے پس منظر میں ایسی ایسی غفلت کارفرما ہے کہ جسے کبھی چیک نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اس کی روک تھام کی کوشش کی جاتی ہے۔ جو ڈرائیور اس وقت ٹرک، بس، ویگن، لوڈر وین یا رکشہ چلا رہا ہو گا، اس کا لائسنس چیک کر لیں یا اس کا ڈرائیونگ کے تجربے کا بیک گراؤنڈ چیک کر لیں۔ انھوں نے نہ تو باقاعدہ ڈرائیونگ سیکھی ہوتی ہے نہ اتنی بڑی گاڑی کو چلانے کا کوئی کورس کر کے لائسنس لیا ہوتا ہے۔ جس ملک میں ہر وہ بچہ گاڑی چلاتا ہے کہ جس کی ٹانگیں اتنی لمبی ہیں کہ پاؤں ریس اور بریک تک پہنچ جاتے ہوں، باقی کیا لوازمات اور ضروریات ہیں، اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی ، جب تک کوئی حادثہ نہ ہو جائے اورایسا ناقابل تلافی نقصان نہ ہو جائے۔

ہمارے ہاں نظام کس طرح چلتا ہے، اس کے لیے میں ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتی ہوں ۔ میںنے سال بھر پہلے اپنے گاؤں میں ان لوگوں کو، جو کہ مجھ سے کسی ضرورت مند کے لیے رابطہ کرتے ہیں اور میں ان کی حتی الامکان کوشش کرتی ہوں کہ مدد کر سکوں، جو توفیق ہوتی ہے، اللہ کے دیے میں سے دینا ہوتا ہے۔

مجھے اندازہ ہوا کہ لوگوں کو بوقت ضرورت مانگنے کی عادت سی ہو گئی ہے تو اس عادت کا سد باب کرنے کے لیے میںنے کہا کہ اس کے بعد جو بھی کوئی ضرورت مند ہے، میں اس کی نقد رقم یا سامان دے کر مدد نہیں کروں گی بلکہ میں چاہوں گی کہ جس کی مدد کی جائے وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہو جائے، اس حد تک کہ اسے دوبارہ کسی کی مدد کی ضرورت نہ پڑے۔ اسی ضمن میں مجھ سے ایک قریبی گاؤں کے ایک نوجوان نے کسی کے توسط سے رابطہ کیا اور دریافت کیا کہ میں اس کی کس حد تک مدد کر سکتی ہوں۔

میںنے جواباً کہلایا کہ وہ جو کچھ بھی کرنا چاہتا ہے یا کر سکتا ہے تو اس کے بارے میں مجھے ساری تفصیل چیک کر کے بتائے۔ اس نے چند دن کے بعد بتایا کہ اس کے گاؤں میں لوڈر رکشہ چلانے کا اسکوپ ہے اور وہ اسے ایک محفوظ انوسٹمنٹ سمجھتا ہے۔ میں نے اس کے لیے رکشوں کی قیمتیں چیک کرنے کا کام کسی کو سونپا اور اسے کہلایا کہ وہ چند دن تک کسی اور کا رکشہ چلاکر اپنی ڈرائیونگ کی پریکٹس کر لے۔ میں سمجھی کہ وہ ڈرائیونگ جانتا ہوگا۔ اس نے بتایا کہ اسے باقاعدہ ڈرائیونگ تو نہیں آتی، ایسے ہی کوئی بائیک وغیرہ چلا کر یا کسی کا رکشہ وغیرہ چلا کر اسے کچھ آئیڈیا ہے۔

میںنے انتہائی سختی سے کہا کہ وہ پہلے ڈرائیونگ کی کلاسیں لے، اس کے لیے بھی میں اسے رقم دوں گی، پھر لائسنس لے ، اس کی فیس بھی میں ہی دوں گی اور پھر اسے لوڈر رکشہ مل جائے گا۔ میںنے چند دن انتظار کر کے چیک کرنے کو کال کی کہ اگر وہ لڑکا ڈرائیونگ کی کلاسز لے رہا تھا کہ نہیں۔ معلوم ہوا کہ وہ ابھی تک کلاسز لینے نہیں گیا تھا کیونکہ اسے کسی نے مشورہ دیا تھا کہ وہ ہر روز کھاریاں یاگجرات جائے گا، وقت بھی ضایع ہو گا اوراس کا اتنا خرچہ ہو گا تو اس سے بہتر ہے کہ وہ آدمی اس کی مدد کرے گا تو اسے بغیر ٹسٹ دیے ڈرائیونگ لائسنس مل جائے گا۔ میں نے مزید استفسار کیا تو اس نے بتایا کہ اگر وہ دس پندرہ ہزار کی ڈرائیونگ کلاسز لے اور آنے جانے کا مزید خرچہ پانچ چھ ہزار اور ہو جائے گا تو اس سے بہتر ہے کہ وہ بیس ہزار دے کر بغیر ڈرائیونگ سیکھے لائسنس حاصل کر سکتا ہے۔

بغیر ڈرائیونگ سیکھے اور ٹسٹ دیے کوئی کیسے لائسنس حاصل کر سکتا ہے؟ کسی سرکاری محکمے میں اس طرح کے کھاتے کھلے ہوں تو پھر کہاں سے کسی کو بہتری کی امید ہو سکتی ہے۔ میںنے اسے بڑا اصرار بھرا پیغام بھجوایا کہ میں صرف اسی صورت اس کی مدد کروں گی اگر وہ پہلے ڈرائیونگ سیکھے، ٹسٹ پاس کرے اور پھر لائسنس حاصل کرے۔ میںنے اس کا آنے جانے کا خرچہ اٹھانے کا بھی وعدہ کیا مگر اس کے جواب میں اس نے کہا کہ اس طرح تو اس کا بہت سا وقت ضایع ہو جائے گا اور اگر میں اسے بیس ہزار نقد دے دوں تو وہ فوراً لائسنس حاصل کر کے کام شروع کر سکتا ہے۔ اس طرح کی منفی حرکتوں کو میں بالکل بھی مناسب نہیں سمجھتی اور اپنی زکوۃ کی رقم کو میں کس طرح حرام کام کے لیے استعمال کر سکتی ہوں۔

میرے اصرار کے باوجود بھی اس نے نہ ڈرائیونگ سیکھی، نہ پریکٹس کی اور نہ ہی ٹسٹ دے کر لائسنس لینے کو تیار ہوا نہ ہی اس نے مجھے اس شخص کا رابطہ نمبر دیا جو اسے رشوت دے کر لائسنس حاصل کرنے کا مشورہ اور سہولت دے رہا تھا۔ یقیناً وہ میری ہٹ دھرمی کی وجہ سے مجھ سے نالاں ہو گا کہ میں نے اس کی مدد نہیں کی مگر مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں اس طرح کے غلط کاموں اور غلط لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی۔

اسی طرح کے نا سمجھ لوگوں کی وجہ سے کئی معصوم لوگوںکی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔