جبرکی داستان

زبیر رحمٰن  پير 21 فروری 2022
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

جاپان، مشرق بعید میں کوریا اور منچوریا میں انارکسٹوں کی جانب سے تشکیل دی ہوئی کمیون کو تباہ کرتا ہے تو انقلاب روس سے قبل ماسکو کے مغرب میں ٹالسٹائی کی جانب سے تشکیل شدہ کمیون کو لینن نے تباہ کیا اور یوکرائن کی انڈیپنڈنٹ انارکسٹ ٹیسری ٹوری اور ساؤتھ یوکرائن کو ٹراٹسکی نے نیست و نابود کیا، جب کہ 1918 میں جب زار شاہی کی سفید فوج ماسکو سے صرف 72 کلومیٹر کے فاصلے پر پہنچ گئی تھی تو لینن نے یوکرائن کی بلیک آرمی یا کسان آرمی کے رہنما نیسترمیخانو سے درخواست کی تھی کہ آپ زار شاہی کی فوج جو ماسکو پر قبضہ کرنے آ رہی ہے ، اس سے بچانے میں مدد کریں۔

نیستر میخانو نے اثبات میں جواب دیا اور زار شاہی کے 4000 فوجیوں کو گرفتار کر کے ماسکو کو بچا لیا۔ اس کے بعد روسی حکومت نے نیسترمیخانو کو ’’سیور آف ماسکو‘‘ کا لقب دیا۔ ان پرکئی کتابیں لکھی گئیں اور فلمیں بنیں۔

بعدازاں ٹراٹسکی نے ریڈ آرمی کے ذریعے یوکرائن پر چڑھائی کی تو بلیک آرمی نے ناقابل شکست ریڈ آرمی کے 20,000 روسی فوجیوں کو گرفتار کر لیا۔ بعد میں ایک معاہدہ طے پایا کہ نیستر میخانو 20,000 ریڈ آرمی کو رہا کریں گے اور ٹراٹسکی 15,000 انارکسٹ جوکہ روسی قید میں ہیں انھیں رہا کریں گے۔

نیستر میخانو نے قید روسی فوجیوں کو رہا کردیا مگر ٹراٹسکی نے مقید انارکسٹوں کو رہا کرنے سے مکر گئے۔ اسٹالن نے منگولیا کی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکریٹری جو دو مرتبہ منگولیا کے وزیر اعظم بھی رہ چکے تھے کو کریملن محل میں ماسکو میں بلایا اور نام نہاد مقدمہ چلا کر انھیں گولی مار کر ہلاک کردیا۔

اسپین کی عوامی جنگ میں اسٹالن، اسپین میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے اتحادی کے طور پر روس نواز کمیونسٹ پارٹی کے اسپین کے جنرل سیکریٹری وزیر انصاف مقررکیے گئے تھے۔ جب روسی فوج سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی اپیل پر اسپین آئی تو اسپین کے وزیر انصاف کے عہدے سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا۔ نہ دینے پر اپنے ہی ہم خیال ساتھی کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔

1939 میں جرمنی اور روسی حکمرانوں میں ایک خفیہ معاہدہ ہوا جو اب خفیہ نہ رہا، میں طے پایا کہ جرمنی پولینڈ اور رومانیہ پر قبضہ کرلے اور روس بالٹک ریاستوں پر قبضہ جما لے ، جب کہ 1941 میں جرمنی نے بالٹک ریاستوں پر بھی خود قبضہ کرلیا۔

اس کے بعد روس کے اسٹالن، امریکا کے روز بیلٹ اور برطانیہ کے چرچل نے ایک معاہدہ کیا کہ جرمنی کے خلاف اب دنیا بھر کے ممالک کے حصے بخرے کیے جائیں، روس کے حصے میں برصغیر (پاکستان والا علاقہ) بھی آیا۔ اس پر امریکا اور برطانیہ کا موقف تھا کہ گاندھی دھوتی باندھتا ہے، نہرو سر پر ٹوپی رکھتا ہے جب کہ محمد علی جناح ٹائی لگاتا ہے اور پینٹ کورٹ پہنتا ہے، اس لیے وہ ترقی پسند ہے۔

اسٹالن نے دنیا بھر کی خاص کر انڈیا کی کمیونسٹ پارٹی کو ہدایت دی کہ کمیونسٹ مسلم لیگ میں چلے جائیں، یہ ترقی پسند ہیں ، چونکہ پنجاب پاکستان میں شامل نہیں ہونا چاہتا تھا اس لیے انڈیا کے دیگر حصوں سے 700 کمیونسٹ پارٹی کے کارکنان کو پنجاب بھیجا گیا تاکہ وہ پاکستان میں شامل ہو جائیں۔ یہ ہیں ریاستوں کے کردار۔اب خود غورکریں کہ ان ریاستی عوامل میں عوام کو فائدہ ہوا یا حکمرانوں کو۔

لینن کے پاس وہ تمام اختیارات موجود تھے جو زار شاہی کے پاس تھے۔ جہاں تک سرمایہ دارانہ ریاست کی بات ہے تو وہ صدیوں سے ریاستی مدد سے کروڑوں انسانوں کا قتل عام کرتے آ رہے ہیں ، صرف دوسری عالمی جنگ میں ریاستوں کی چھینا جھپٹی میں 5 کروڑ انسان مارے گئے۔ بقول پروفیسر نوم چومسکی کے، امریکا اب تک 88 ملکوں میں بالواسطہ اور بلاواسطہ مداخلت کرچکا ہے جسکے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسانوں کا قتل ہوا۔ اس کے علاوہ جن ریاستوں میں سوشلسٹ برسر اقتدار تھے یا آسکتے تھے ان پر براہ راست ریاستی جابرانہ حملہ کیا۔

جیساکہ جنوبی افریقہ، انڈونیشیا، چلی، موزنبیق، انڈو چائنا، عراق، لیبیا، ایران، افغانستان وغیرہ میں انتہا کردی۔ ویتنام، جنوبی افریقہ اور انڈونیشیا میں تو کروڑوں انسانوں کا قتل کیا۔ پندرہویں صدی کے اختتام پر مغربی سامراجیوں نے جنوبی، شمالی امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ کی کروڑوں مقامی آبادی کو نیست و نابود کیا۔ اب وہاں مقامی آبادی بہ مشکل 2 تا 4 فیصد رہ گئی۔

یہ ریاستوں کا کارنامہ ہے اور کیوں نہ ایسا کریں، اس لیے کہ ریاست کا وجود ہی صاحب جائیداد طبقات کی رکھوالی اور ان کے مال و دولت و منافع میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ جب دنیا ایک تھی، کوئی ریاستی سرحدوں کا وجود نہ تھا، سارے لوگ دنیا میں جہاں چاہیں جاسکتے تھے، اس وقت اسلحہ بردار ہوکر عوام کا قتل کرتے تھے اور نہ قبضہ۔ جب نجی ملکیت کا وجود ہوا تو ریاست بھی وجود میں آئی اور اسے اس کے تحفظ کے لیے اسلحہ برداروں کو پالنا پوسنا پڑا۔

ایمازون کے جنگل میں بسنے والے آدمی باسی کی کوئی ملکی سرحدیں نہیں ہیں، اس لیے کہ ان کے پاس نجی ملکیت اور جائیداد کا تصور بھی نہیں ہے۔ (اتھائیرین)، اقتدار اور حکومت کے مالکان کا یہ کہنا کہ ریاست مشنری کو استعمال کرکے استحصالی قوتوں کا خاتمہ کرکے پھر کمیونزم قائم کریں گے۔

اب ریاست کے ذریعے استحصالی قوتوں کا خاتمہ کرنے کے بجائے خود تہس نہس ہوگئے۔ کم ازکم اس بات پر ہوش کے ناخن لینا چاہیے کہ 46 ملکوں کی سوشلسٹ ریاستیں کیوں کر ختم ہوگئیں اور 150 سال قبل قائم کیے گئے، کمیون، نظام تا حال کیوں چل رہا ہے۔

ریاست کے بغیر دنیا بھر میں 8 گھنٹے کی ڈیوٹی کیوں کر دنیا کی پیداواری قوتوں اور شہریوں نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر منظور کروایا۔ فرانس کے عوام یعنی محنت کش عوام (مزدوروں) نے ہفتے میں 36 گھنٹے کی ڈیوٹی کیسے کروالی۔

ڈونلڈ ٹرمپ حلف برداری کے موقع پر کیوں بیک ڈور سے صدارتی محل میں داخل ہو پائے۔ عراق، ویتنام اور افغانستان سے امریکی فوج کیوں کر دم دبا کر فرار ہوئی۔ امریکا اور روس کے پاس 50 ہزار ایٹمی ہتھیار تھے جو اب 7 ہزار تک کیوں محدود ہوئے۔ یہ سارے کارنامے ریاست نے انجام نہیں دیے بلکہ دنیا بھر کے عوام، احتجاج اور قوتوں کی یلغار نے انجام دیے۔

آئیے اس ریاستی فطور کو ذہن سے نکال دیں اور کہیں بھی، کسی بھی خطے، خود مختار علاقوں پر قبضہ کرکے یا آپس میں فنڈنگ کرکے خودمختار بلا ریاستی مداخلت کے دنیا بھر میں ’’کمیون‘‘ قائم کرتے چلیں۔ پھر دیکھیں گے کہ یہ ایک ایسی دنیا تشکیل پاتی چلی جائے گی جس کا ہم نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ اس لیے بھی کہ انسان کا بنیادی مسئلہ ہے آزادی کا۔ پھر وہ رہائش، کھانے، پڑھنے، روزگار کرنے، علاج معالجے یعنی ہر شعبہ جات میں آزادی سے زندگی بسر کرنے کا خواہش مند ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔