شریعت کے تین درجے

جاوید چوہدری  جمعرات 20 فروری 2014
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

شریعت کے تین اسٹیپس (درجے) ہیں۔

پہلا اسٹیپ اسلامی اخلاقیات ہے‘ وحی کا آغاز چالیس سال کی عمر میں ہوا‘ اللہ تعالیٰ نے چالیس سال کی عمر میں آخری نبی ہونے کا پیغام دیا لیکن آپؐ صادق اور امین برسوں پہلے اسٹیبلش ہو چکے تھے‘ مکہ کا ایک ایک شخص گواہی دیتا تھا‘ آپؐ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا‘ خیانت نہیں کی‘ بے انصافی نہیں کی‘ کسی کا حق نہیں مارا‘ گواہی نہیں چھپائی‘ وقت ضایع نہیں کیا‘ اونچی آواز میں تکلم نہیں کیا‘ کسی سے نفرت نہیں کی‘ غیر محرم کو نہیں دیکھا‘ غلط فہمی اور افواہ نہیں پھیلائی‘ دوسروں کے عقائد پر تنقید نہیں کی‘ معاشرے کی کوئی روایت‘ کوئی قانون نہیں توڑا‘ وعدہ خلافی نہیں کی‘ منافرت نہیں پھیلائی‘ کسی فساد کا حصہ نہیں بنے‘ کام چوری نہیں کی اور کسی پر ظلم نہیں کیا‘ ہمارے رسولؐ اعلان نبوت سے قبل اخلاقیات کے اس اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہو چکے تھے جس پر کفار بھی حجر اسود نصب کرنے کے لیے آپؐ  کو ثالث مقرر کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے

قریش کے بدترین دشمن بھی امانتیں رکھوانے کے لیے آپؐ کے گھر آتے تھے‘ تجارت کے قافلے روانہ ہوتے تھے تو لوگ اپنا سرمایہ آپؐ کے حوالے کرنا چاہتے تھے‘ آپؐ  کی شرافت کا عالم یہ تھا ‘آپؐ  مکہ کی متمول ترین خاتون حضرت خدیجہؓ کے لیے کام کرتے تھے‘ وہ آپؐ کی ایمانداری اور شرافت سے اتنا متاثر ہوئیں کہ انھوں نے خود نکاح کا پیغام بھجوا دیا‘ آپؐ کی شرافت کا یہ عالم تھا‘ آپؐ نے اس وقت تک دوسرا نکاح نہیں فرمایا‘ جب تک حضرت خدیجہؓ دنیا میں موجود رہیں‘ حضرت خدیجہ ؓ  کا انتقال64 سال اور چھ ماہ کی عمر میں ہوا ‘ آپؓ اس وقت تک بہت ضعیف ہو چکی تھیں مگر نبی اکرمؐ نے دوسری شادی نہیں فرمائی اور یہ روایت اس معاشرے میں قائم کی جس میں کثرت ازدواج قانون بھی تھا اور رسم بھی۔ کنیزیں اور لونڈیاں بھی ہوتی تھیں اور آقاؤں کو ان پر پورا اختیار بھی ہوتا تھا‘ آپ ؐ  کی اخلاقی برتری کی یہ حالت تھی مکہ اور اس کے قرب و جوار میں کوئی ایک ایسا شخص موجود نہیں تھا جو یہ کہہ سکتا‘ محمدؐ نے میرے ساتھ فلاں زیادتی کی‘ فلاں وعدہ توڑا یا فلاں وقت میرے ساتھ ترشی کے ساتھ پیش آئے‘ پورے مکہ میں کوئی شخص آپؐ پر جھوٹ بولنے تک کا الزام نہیں لگا سکا‘ رسول اللہ  ﷺ  نے اعلان نبوت فرمایا تو صحابہ کرام ؓ  بھی اخلاقیات کے اعلیٰ معیارات پر متمکن ہو گئے‘ برداشت کیا تو زمین کو دہلا دیا‘ صبر کیا تو آسمان کی پلکیں گیلی ہو گئیں‘ وعدے نبھائے تو کفار کے دل نرم پڑ گئے اور سزائیں بھگتیں تو مشرکوں کو بھی پریشان کر دیا‘ یہ اخلاقیات شریعت کا پہلا اسٹیپ ہے‘ میرا ایمان ہے‘ ہم اس وقت تک سچے مسلمان نہیں ہو سکتے ہم جب تک شریعت کے اخلاقی درجے پر فائز نہیں ہو جاتے‘ ہمارے ہاتھ اور ہماری زبان سے جب تک دوسرے لوگ محفوظ نہیں ہوجاتے۔

شریعت کا دوسرا اسٹیپ (درجہ) عبادات ہیں‘ حضرت جبرائیل امین ؑ نے تیسری وحی کے دوران نبی اکرم ؐ  کو وضو کا طریقہ سکھایا تھا‘ معراج کے دوران پانچ نمازیں فرض ہوئیں‘ تیس روزوں کا حکم‘ حج اور زکوٰۃ کا حکم بھی مختلف اوقات میں آیا‘ یہ تمام عبادات مسلمانوں پر فرض ہیں‘ ہم ان میں سے کسی عبادت کا انکار نہیں کر سکتے‘ یہ عبادات بندے اور خدا کے درمیان رابطہ ہیں‘ عبادات کے معاملے میں کوئی تیسرا شخص انسان اور خدا کے درمیان حائل نہیں ہو سکتا‘ میری نماز‘ میرا حج‘ میری زکوٰۃ اور میرا روزہ قبول ہوا یا نہیں ہوا؟ یہ فیصلہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ نے کرنا ہے‘ میں کتنا بڑا مسلمان ہوں‘ میرے درجات کیا ہیں اور عبادت اور ریاضت کے باوجود میرا ٹھکانہ دوزخ ہو گا یا پھر میں کلین شیو اور بھرپور دنیا داری کے باوجود جنت میں جاؤں گا؟ یہ فیصلہ بھی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کرے گا‘ میری عقیدت‘ میری نسبت اور رسول اللہ ﷺ کے اصحابؓ کے ساتھ میری محبت، ہو سکتا ہے میری بخشش میں کوئی حصہ ڈال دے لیکن اس کا فیصلہ بھی اللہ تعالیٰ ہی فرمائیں گے‘ دنیا کا کوئی شخص یہ ذمے داری نہیں اٹھا سکتا۔

انسان کی عبادت اس کا پرائیویٹ یا نجی معاملہ ہوتا ہے‘ یہ پوری پیشانی زمین پر ٹیکتا ہے‘ اس کے پنجے زمین کے ساتھ چپکتے یا پھر ہوا میں معلق رہتے ہیں‘ یہ تین سیکنڈ کا سجدہ کرتا ہے یا پھر ڈیڑھ منٹ کا‘ نماز میں اس کے دونوں پاؤں کے درمیان کتنا فاصلہ ہوتا ہے‘ یہ مسواک استعمال کرتا ہے یا منجن سے دانت صاف کرتا ہے‘ یہ پتلون پہن کر نماز پڑھتا ہے یا پھر شلوار یا تہبند باندھ کر‘ یہ نماز کے دوران کس سورت کی تلاوت کرتا ہے‘ یہ سحری اور افطار میں کیا کھاتا ہے‘ یہ زکوٰۃ کس کو دیتا ہے اور زندگی کے کس حصے میں حج کے لیے روانہ ہوتا ہے‘ یہ تمام معاملے اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ہیں اور کوئی شخص اس معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتا‘ دنیا کے کسی بھی خطے میں اور کسی بھی دور میں عبادت قانون نہیں رہی‘ یہ تعزیرات کی شکل اختیار نہیں کر سکی‘ ریاست یا حکومت کا کام شہری کو عبادت کی سہولت فراہم کرنا ہے‘ اسلامی ریاست کا کام مساجد بنانا‘ رمضان کا اعلان کرنا‘ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے سہولت فراہم کرنا اور حج کے سفر کو آسان بنانا ہے‘ لوگوں کو عبادت پر مجبور کرنا نہیں‘ یہ انسان کا اپنا فیصلہ‘اپنا اختیار ہے‘ ہاں البتہ جو شخص ان عبادات کا منکر ہو جائے یا جو انھیں اسلام سے خارج کرنے کی کوشش کرے اسلامی ریاست پر اس کا احتساب فرض ہو جاتا ہے مگر عبادت کرنا یا نہ کرنا یا کس طریقے سے کرنا یہ انفرادی فعل ہے اور حکومت اور ریاست کے پاس اس معاملے میں مداخلت کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔

عبادت فرض ہے‘ یہ اہلیت نہیں ہے‘ ہم کسی شخص کو صرف تقویٰ کی بنیاد پر نیو کلیئر سائنس دان نہیں مان سکتے‘ ہم کسی شخص کو صرف عبادات کی بنیاد پر وزیر خزانہ بھی نہیں بنا سکتے اور ہم صرف نوافل اور روزوں کی کثرت کی بنیاد پر کسی کو چیف جسٹس بھی قرار نہیں دے سکتے‘عہدوں کے لیے اہلیت درکار ہوتی ہے‘ عبادت اہلیت میں اضافے کا باعث تو بن سکتی ہے لیکن یہ اہلیت نہیں بن سکتی‘ عبادات شریعت کا دوسرا اسٹیپ ہے۔

شریعت کا تیسرا اسٹیپ اسلامی سزائیں ہیں‘ اللہ تعالیٰ نے قاتل کی سزا موت‘ چور کی سزا ہاتھ کاٹنا اور زنا کی سزا سنگساری طے فرمائی‘ اسلام میں ان تینوں سزاؤں کی کنڈیشنز بھی موجود ہیں‘مثلاً اگر مقتول کے لواحقین اللہ کے نام پر یا خون بہا لے کر معافی پر تیار ہو جائیں تو قاتل کو قتل نہیں کیا جاتا‘ چوری کے پیچھے اگر انتہائی مجبوری ہو اور قاضی اس مجبوری کو مجبوری مان لے تو یہ سزا بھی معاف ہو سکتی ہے‘ معطل ہو سکتی ہے یا پھر تبدیل ہو سکتی ہے‘ آپ نے تاریخ میں پڑھا ہو گا‘ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں حجاز اور شام میں قحط پڑا تو آپؓ نے چوری کی سزا معطل کر دی تھی‘کیوں؟ کیونکہ حضرت عمر فاروقؓ انسانی مجبوریوں سے آگاہ تھے‘ وہ جانتے تھے لوگ قحط میں رشتہ حیات قائم رکھنے کے لیے خوراک کی چوری پر مجبور ہوسکتے ہیں اور مجبوروں کے ہاتھ کاٹنا انصاف نہیں ہو گا‘ حضرت عمرؓ  کا دور صحابہ کرامؓ  کا زمانہ تھا‘ مستقبل کے دو خلیفہ راشد بھی اس وقت دنیا میں موجود تھے اور قرآن اور احادیث کے گواہ بھی لیکن وہ لوگ جو حضرت عمرؓ  کی دوسری چادر کو معاف نہیں کرتے تھے‘ انھوں نے بھی سزا معطل کرنے کا یہ فیصلہ قبول کر لیا۔

یہ واقعہ ثابت کرتا ہے‘ بعض حالتوں میں چوری کی سزا بھی معطل ہو سکتی ہے اور رہ گئی زنا کی سزا تو اس میں بھی بے شمار کنڈیشنز ہیں اور یہ کنڈیشنز جب تک پوری نہیں ہوتیں‘ کسی ملزم‘ کسی مجرم کو سزا نہیں دی جا سکتی لیکن اس کے باوجود یہ سزائیں ہماری شریعت کا حصہ ہیں اور ہم اس وقت تک مسلمان نہیں ہو سکتے جب تک یہ سزائیں ہمارے ایمان کا حصہ نہ بن جائیں‘ یہ اللہ کے احکامات ہیں اور ہم ان سے سرتابی نہیں کر سکتے‘ یہ حقیقت ہے لیکن اس حقیقت سے قبل چند دوسری حقیقتیں بھی آتی ہیں‘ شریعت کا پہلا اسٹیپ اخلاقیات ہے‘ اسلام شروع ہی اخلاقیات سے ہوتا ہے‘ نبی اکرمؐ پر اترنے والی پہلی دونوں وحی اخلاقیات پر مبنی تھیں‘ علم حاصل کریں‘ اللہ کے کرم کو تسلیم کریں‘ اللہ کی بڑائی بیان کریں‘ صفائی اختیار کریں‘ احسان کریں اور صبر کریں‘ یہ اللہ کے ابتدائی پیغامات تھے‘ عبادات ان پیغامات کے بعد آئیں ‘ اللہ کے رسولؐ نے عبادت کی خطا پر کسی کو سزا نہیں دی تھی اور سزائیں تیسرے اسٹیپ میں اس وقت آئیں جب اسلامی ریاست قائم ہو چکی تھی اور مسلمان پہلے دو درجے طے کر چکے تھے اور اخلاقیات اور عبادات مسلمانوں کی زندگی کا حصہ بن چکی تھیں اورکسی مسلمان پر وعدہ خلافی‘ ناانصافی‘ جھوٹ‘ ظلم‘ زیادتی‘ ناشائستگی‘ اکھڑ پن‘ سستی‘ لاقانونیت اور حکم عدولی کا الزام نہیں لگ سکتا تھا اور مدینہ میں کوئی شخص بے نماز اور بے روزہ نہیں رہا تھا اور مدینہ میں کوئی ایسا شخص نہیں بچا تھا جو صاحب نصاب بھی ہو اور زکوٰۃ بھی نہ دے اور کوئی ایسا شخص بھی نہیں تھا جو حج کا فریضہ ادا نہ کرنا چاہتا ہو‘ شریعت کے تیسرے درجے سے قبل شریعت کے پہلے دونوں اسٹیپس پورے ہو چکے ہیں لیکن ہم لوگ اسلام کو تیسرے درجے سے شروع کرنا چاہتے ہیں‘ ہم اسلام کو سزاؤں سے اسٹارٹ کرنا چاہتے ہیں۔

آپ اس کا عملی مظاہرہ لورا لائی میں دیکھ لیجیے‘لورا لائی کے علاقے کلی منزکئی میں چند مقامی علماء کے حکم پرشک کی بنیاد پر لوگوں نے ایک خاتون اور ایک مرد دراز خان کو پتھر مار کر ہلاک کر دیا‘ ہم اس سزا کے خلاف نہیں ہیں‘ یہ قرآن کی سزا ہے لیکن ہم طریقہ کار پر اختلاف کر سکتے ہیں‘ لورا لائی کے جن لوگوں نے یہ سزا سنائی‘ کیا وہ ایمان کے اس اسٹینڈرڈ پر پورے اترتے ہیں جس کی بنیاد اسلام نے رکھی تھی‘ اگر ہاں تو بھی سوال پیدا ہوتا ہے‘ کیا ہم نے شریعت کے پہلے دو درجے طے کر لیے ہیں‘ کیا دنیا ہماری صداقت اور امانت کی قسم کھا سکتی ہے‘ کیا ہمارے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہو چکے ہیں اور کیا ہم نے عبادت کے اس معیار کو چھو لیا ہے جس میں خدا بندے سے خود پوچھتا ہے بتا تیری رضا کیا ہے؟ اگر نہیں توہمیں کس نے دوسرے شخص کو گنہگار ڈکلیئر کرنے اور اسے پتھروں کے ذریعے ہلاک کرنے کا اختیار دیا؟ اسلام صداقت اور امانت سے شروع ہوا تھا‘ خدا کے لیے اسے صداقت اور امانت سے شروع کریں‘ اس کا آغاز پتھروں سے نہ کریں‘ ایمان چاہتے ہو تو پہلے ایماندار بنو‘ اسلام چاہتے ہو تو پہلے سلامتی کے راستے پر چلو‘ تمہیں اسلام بھی ملے گا‘ ایمان بھی اور اللہ بھی۔

 

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔