نہ سنبھلو گے تو۔۔۔

نجمہ عالم  جمعرات 20 فروری 2014

دل تھا کہ مچل مچل جاتا بس بہت ہو چکا اب کچھ کرنا پڑے گا۔ مگر کیا؟ دماغ نے دل سے پوچھا۔ بھئی اتنے بڑے بڑے واقعات رونما ہو رہے ہیں ہمارے عوام اور جوان خاک و خون میں غلطاں کیے جا رہے ہیں۔ آخر ہماری بھی ایک منتخب حکومت ہے، ہمارے فوجی جوان بہادر اور ملک و قوم کے محافظ ہیں۔ پھر آخر ان کے خلاف کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا جاتا؟ کیا قدم اٹھایا جائے؟ عقل نے دل سے پھر سوال کیا۔ آخر آپریشن کیوں شروع نہیں کیا جاتا؟ دماغ نے سنجیدگی سے جواب دیا کہ معاملہ جذبات سے نہیں عقل و دانش سے حل کیا جانا چاہیے تمہیں تو سوائے جذباتی ہونے کے اور کچھ آتا ہی نہیں۔ دماغ نے دل کو پہلے اچھی طرح سمجھایا تمام نشیب و فراز سے آگاہ کیا مگر دل تو دل ہی ہوتا ہے، اپنی رٹ لگائے رہا۔ آپریشن آپریشن… آخر دماغ نے تنگ آ کر اچھی خاصی جھاڑ پلا دی کیا بکواس ہے۔ طاقت، مقابلے یا معرکے سے کبھی مسائل حل ہوئے ہیں سوائے جانی نقصان (چاہے ادھر کے ہوں یا ادھر کے انسان تو انسان ہوتے ہیں) نفرت، عداوت اور کبھی نہ پورا ہونے والے نقصان کے کچھ ہاتھ نہیں آیا۔

جو نتائج بات چیت، گفتگو اور مکالمے سے حاصل ہو سکتے ہیں ان کے لیے بھلا ہتھیار اٹھانے کا کیا فائدہ؟ اب تم چپ بیٹھو اور مجھے کچھ کرنے دو۔ اور یوں آخر دماغ نے مذاکرات کا فیصلہ کر کے عقلمندی کا مظاہرہ کیا۔ پھر مذاکرات کا آغاز بھی ہو گیا، حکومتی کمیٹی اور دوسرے فریق کی کمیٹی میں شامل لوگوں کا اعلان ہوا اور کچھ ابتدائی مطالبات کا تبادلہ بھی ہوا شاید کچھ اصول بھی طے پا گئے۔ بہرحال مذاکرات کی گاڑی چل نکلی، مگر اچانک رک گئی۔ اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔ عرصے سے دہشت گردی کے شکار، خوف کی چکی میں پستے ہوئے عوام نے کچھ دیر سکھ کا سانس لیا اور اب بھی پرامید ہیں کہ ملک میں بدامنی ختم ہو جائے، سر پر سے خوف کے سائے ٹل جائیں۔ مگر ایسے سر پھروں کی بھی کمی نہیں جو کسی صورت چین سے رہ نہیں سکتے۔ پہلے جس بات پر خود آواز بلند کریں گے جب وہی ہونے لگے تو فوراً صف مخالف میں جا کھڑے ہوں گے اور ہر بات پر تنقید کرنا تو گویا ان کا پیدائشی حق ہے۔ مجال ہے کہ کسی بھی بات کا مثبت پہلو مدنظر رکھ لیں مگر کرنے والے جب کچھ کرنے پر کمر کس لیں تو پھر وہ نہ کسی تنقید کو نہ کسی کے منفی رویے کو خاطر میں لاتے ہیں۔ ذرا مذاکرات کا باقاعدہ آغاز تو ہو جائے پھر ہی ان کی کامیابی یا ناکامی پر اظہار خیال کیا جائے۔

ہمارے ایک معتبر کالم نگار نے گزشتہ سے پیوستہ بڑے مثبت انداز میں پرامید رہتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر حکومت مذاکرات میں خلوص کا مظاہرہ کرتی ہے (جو کہ وہ کر بھی رہی ہے) اور فریق ثانی پاکستان کی خودمختاری حکومتی رٹ اور آئین پاکستان کو تسلیم کرتے ہوئے قومی دھارے میں شامل ہونے پر رضامند ہوگیا تو ظاہر ہے کہ وہ آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک سیاسی جماعت کے طور پر خود کو پیش (رجسٹرڈ) کرے گی تو اس کو یہ حق بھی حاصل ہو گا کہ وہ اپنا سیاسی لائحہ عمل ترتیب دے کر باقاعدہ کام کا آغاز کرے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اپنے ایجنڈے یعنی مقاصد سے دستبردار ہو جائیں گے۔ بلکہ اب وہ سب کچھ آئین کی حدود میں رہتے ہوئے اپنے مقاصد کے حصول کی جدوجہد کرتی رہیں گی۔

ملک کے طول و عرض میں سیکڑوں مدارس ان کے نظریاتی ہمنوا بنانے میں پہلے ہی مصروف ہیں وہ چاہیں تو مزید ایسی یا کسی دوسری قسم کی کوشش کر کے اپنے ہم خیال افراد کی تعداد میں اضافہ کر سکتے ہیں یہ ان کا آئینی حق بھی ہو گا۔ ایسی صورت میں جب کہ ملک میں شرح خواندگی افسوسناک حد تک کم ہے بلکہ جو پڑھے لکھے کہلاتے ہیں وہ بھی صرف ڈگری یافتہ جاہل ہی ہیں چھوٹے چھوٹے گاؤں، دیہاتوں میں اسکول ہوں یا نہ ہوں مدرسے بھی نہ ہوں مگر مساجد تو ضرور ہیں اور ان میں ایک عدد موذن اور پیش امام بھی ضرور ہوتا ہے لوگ چاہے اسلامی شریعت سے مکمل طور پر واقف ہوں یا نہ ہوں مگر ماشا اللہ نماز ادا کرنے مساجد میں تو ضرور جاتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں اس نئی جماعت کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے کافی مواقع اور سہولتیں حاصل ہیں اور انھیں کم محنت سے ہی خاصے بہتر نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ ہر گاؤں، علاقے اور محلے کی مساجد کے امام صاحب کو تھوڑی سی مشق کے بعد پورے علاقے کے افراد کو خطبات کے ذریعے اپنا ہم خیال بنایا جا سکتا ہے۔

اب ہمارا سوال ان سیاسی جماعتوں سے ہے جو آج ببانگ دہل کہہ رہی ہیں کہ کسی کو اس کی مرضی کی شریعت نافذ نہیں کرنے دی جائے گی، کسی کو اسلام متعصبانہ شکل میں رائج نہیں کرنے دیا جائے گا کہ آخر وہ اس سلسلے میں خود کیا کوشش کر رہی ہیں؟ ایسے افراد جو دین کی عام سوجھ بوجھ بھی نہ رکھتے ہوں ان کو اللہ اور رسولؐ، جنت و دوزخ کے بارے میں جو بتا دیا جائے وہ فوراً اس کو قبول کر لیں گے ان تک اپنے غیر متعصبانہ خیالات اور روشن خیالی کو پہنچانے کے لیے آپ نے کیا پروگرام ترتیب دیا ؟ یا ہمیشہ کی طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نتائج کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا؟ یعنی خود کچھ کریں نہ کریں تو کیا دوسرا بھی کچھ نہ کرے گا۔ مگر یہ ممکن نہیں جو لوگ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ملک کو اس نہج تک لاسکتے ہیں وہ دوسرے طریقوں سے بھی اپنے مقاصد حاصل کرنا جانتے ہیں۔ اب باقی سیاسی جماعتوں کو سوچنا ہے کہ وہ اب بھی اپنے اختلافات پس پشت ڈال کر اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرتی ہیں یا نہیں۔ کیونکہ اگر کچھ حاصل کرنا ہے تو وہ کسی کوشش، کسی لائحہ عمل سے ہی حاصل ہو گا از خود کچھ نہیں ہونے لگا، تو گزارش یہ ہے کہ وقت کم ہے اور مقابلہ سخت لہٰذا اپنی اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کیجیے۔ اپنے مخالف کو کمزور اور بے وقوف سمجھنا ترک کیجیے۔ صرف بیانات اور تقاریر کے علاوہ کچھ عملی کوشش بھی ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔