- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
- کراچی میں سیشن جج کے بیٹے قتل کی تحقیقات مکمل،متقول کا دوست قصوروار قرار
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبروں نے اقوام متحدہ کو بھی خوفزدہ کردیا
- ایکس کی اسمارٹ ٹی وی ایپ متعارف کرانے کی تیاری
- جوائن کرنے کے چند ماہ بعد ہی اکثر لوگ ملازمت کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟
- لڑکی کا پیار جنون میں تبدیل، بوائے فرینڈ نے خوف کے مارے پولیس کو مطلع کردیا
- تاجروں کی وزیراعظم کو عمران خان سے بات چیت کرنے کی تجویز
- سندھ میں میٹرک اور انٹر کے امتحانات مئی میں ہونگے، موبائل فون لانے پر ضبط کرنے کا فیصلہ
- امریکی یونیورسٹیز میں اسرائیل کیخلاف ہزاروں طلبہ کا مظاہرہ، درجنوں گرفتار
دنیا کسی نئی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی
’’روس نے یوکرین پر حملہ کردیا‘‘۔ بین الاقوامی میڈیا پر آج یہ خبر ٹاپ ٹرینڈنگ میں ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان جو چپقلش جاری تھی، اس پر مبصرین پہلے ہی جنگ چھڑنے کے خدشات ظاہر کرچکے تھے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اکیسویں صدی میں دنیا جنگ کی متحمل ہوسکتی ہے؟ آخر وہ کیا وجوہ ہیں جو دونوں ممالک کو اس انتہائی اقدام کی طرف لے آئیں۔
بین الاقوامی تعلقات میں جنگیں صرف دو ریاستوں کے درمیان نہیں ہوتیں بلکہ ان تنازعات کے لامحالہ اثرات پوری دنیا پر پڑتے ہیں، اور جنگ کے یہ اثرات کسی بھی صورت مثبت نہیں ہوتے۔ جنگوں میں انسانی جانوں کا نقصان تو ہوتا ہی ہے، اس کے ساتھ معاشی زوال جنگوں میں ملوث ریاستوں کے ساتھ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ یوکرین پر روسی حملے کے بعد عالمی کاروبار و تجارت پر منفی اثرات تیزی سے ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
روسی حملے کے فوری بعد عالمی اسٹاکس مارکیٹیں کریش ہوگئیں۔ انڈیکس نفسیاتی حد تک نیچے گرگئے اور عالمی منڈی میں پہلے سے جاری تیل کا بحران مزید شدید ہوگیا جس کے نتیجے میں خام تیل کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ اقتصادی ماہرین نے یہ بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر روس اور یوکرین میں مسلح تنازع فوری طور پر ختم نہ ہوا تو خام تیل کی عالمی قیمتیں بھی مسلسل بڑھتی رہیں گی جس سے عالمی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
روس اور یوکرین تنازعے کی جڑیں بہت پرانی ہیں لیکن معاملات کبھی اس نہج پر نہیں پہنچے تھے کہ دونوں ممالک کو جنگ جیسے انتہائی اقدام کی طرف آنا پڑتا۔ اور اب بھی بظاہر ایسا لگتا ہے کہ معاملات کو اس سنگین موڑ پر پہنچانے کی ذمے دار روس کی غیر دانشمندانہ سوچ ہے۔
1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روس نے اپنی سابقہ یونین کے کئی علاقوں میں اپنے فوجی دستے بھیجے تھے، جہاں کئی دہائیوں تک باقاعدہ جنگ کا ماحول رہا۔ 2014 میں مغربی ممالک کے حمایت یافتہ گروہوں نے یوکرین کے دارالحکومت کیف سے روسی حمایت یافتہ صدر وکٹریانوکوچ کی حکومت ختم کردی۔ ایسے میں روس کے بعض حامیوں نے مشرقی یوکرائن کے کچھ علاقے اپنے قبضے میں لے لیے۔ بعد ازاں روس اور یوکرین کے تعلقات تناؤ کا شکار رہے اور بڑے پیمانے پر جھڑپیں بھی ہوئیں لیکن 2015 میں قیدیوں کے تبادلے کے بعد جنگ بندی کا اعلان کردیا گیا۔
سات سال قبل ان خونی جھڑپوں میں 14 ہزار کے قریب لوگ مارے گئے تھے۔ روس کا یوکرین پر حملہ سراسر غیر دانشمندانہ ہے کیونکہ آج کی دنیا کسی بھی بڑی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی اور بین الاقوامی تعلقات میں دیگر ریاستوں کا اس جنگ سے چشم پوشی کرنا یا غیر جانبدار رہنا ممکن نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کو یہ انتباہ دینا پڑا کہ روس کی فوجی کارروائی میں کسی نے مداخلت کی تو نتیجہ انتہائی سنگین ہوگا۔ جبکہ یوکرینی صدر بھی یہ خدشہ ظاہر کرچکے ہیں کہ روس کا حملہ یورپ میں بڑی جنگ کا آغاز بن سکتا ہے۔
واضح رہے کہ یوکرین اب تک ’’نیٹو‘‘ کا رکن نہیں بن سکا ہے لیکن پھر بھی مغربی ممالک روس کے خلاف یوکرین کی مدد اور حمایت کرسکتے ہیں۔ روس کے حملے کے بعد نیٹو نے یوکرین کی حمایت کا باقاعدہ اعلان کردیا ہے۔ امریکا اور روس کی چپقلش بھی سب کے سامنے ہے۔ ایسے نازک موقع پر اگر امریکا بھی متحرک ہوگیا تو نتائج تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ دنیا ابھی تک جنگ عظیم اول اور دوم کی خونریزی کو فراموش نہیں کرپائی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔