خاموشی کی برکات

مولانا محمد الیاس گھمن  جمعـء 25 فروری 2022
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

اﷲ تعالیٰ نے ہمارے جسم میں ایک عضو ایسا بنایا ہے جس سے ہم اپنے دل کی بات کا اظہار کر سکتے ہیں، اپنے محسوسات، مشاہدات اور تجربات کو بتلا سکتے ہیں اور وہ عضو زبان ہے۔

اس عضو کو اگر قابو میں رکھا جائے اور اس کا درست استعمال کیا جائے تو انسان دنیا و آخرت میں کام یاب ہوتا ہے اور اگر اس کو لایعنی، فضول، جھوٹ، غیبت، چغلی، فحش گوئی، بدعہدی، گالم گلوچ، طنز و تشنیع، تمسخر وغیرہ میں استعمال کیا گیا تو اسی کی وجہ سے انسان کا وقار، اعتماد اور ذاتی حیثیت معاشرے سے ختم ہوجاتی ہے اور وہ جہنّم کا ایندھن بن جاتا ہے۔

رسول اﷲ ﷺ نے یہ نصیحت ارشاد فرمائی، مفہوم: ’’زیادہ خاموش رہا کرو کیوں کہ یہی چیز شیطانی حملوں سے بچانے والی ہے اور دینی امور میں تمہاری مددگار ہوگی۔‘‘

اﷲ تعالیٰ نے شیطان کو انسان کا کھلم کھلا دشمن قرار دے کر اس سے بچنے کا تاکیدی حکم دیا ہے اور خاموشی ایسی چیز ہے جو انسان کو شیطانی حملوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ کیوں کہ جب بندہ اپنی زبان کو خاموش رکھے گا تو ان تمام گناہوں سے بچ جائے گا جو زبان کے غلط استعمال سے سرزد ہوتے ہیں ایسے انسان سے شیطان مایوس ہوگا اور وہ اس کے مکر و فریب اور وساوس سے بچ جائے گا۔ دینی امور میں خاموشی معاون و مددگار بنتی ہے اس لیے کہ جب شیطان سے حفاظت ہوگی تو ذکر اﷲ، تلاوت، وعظ و نصیحت، درود پاک، امر بالمعروف، نہی عن المنکر وغیرہ ال غرض تمام دینی امور کی ادائیگی میں آسانی ہوگی۔

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہو کہ وہ سلامتی کے ساتھ زندگی گزارے تو خاموش رہنے کا خوب اہتمام کرے۔‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانی)

حضرت ابوالدرداءؓ سے مروی ہے کہ خاموشی حکمت ہے اور اس کو اختیار کرنے والے بہت ہی کم لوگ ہیں۔
(جامع بیان العلم و فضلہ)

ہر وقت فضول بولتے ہی رہنا بے وقوفی اور کم عقلی کی علامت ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں موقع محل کے مطابق سنجیدگی سے گفت گُو کرنا حکمت و دانائی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ حکمت و دانائی والے لوگ بہت کم پائے جاتے ہیں۔

حَیْوہ بن شُرَیْح کہتے ہیں کہ میں نے یزید بن ابی حبیبؒ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: (بلاوجہ) بولنے والے کو آزمائش کا منتظر رہنا چاہیے اور خاموش رہنے والے کو رحمت کا منتظر رہنا چاہیے۔ (جامع بیان العلم و فضلہ)

غیر ضروری باتیں کرنا انسان کو آزمائش اور ابتلاء میں ڈال دیتا ہے اور یہ چیز باعث زحمت ہے جب کہ ان آزمائشوں سے چھٹکارا پانے کے لیے غیر ضروری باتوں سے خاموشی اختیار کرنا باعث رحمت ہے۔

حضرت عبداﷲ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص خاموش رہا وہ نجات پا گیا۔‘‘
(جامع الترمذی)

زبان کو قابو میں رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ زبان سے ہونے والے گناہوں مثلاً: جھوٹ، غیبت، گالم گلوچ، فحش گوئی، فضول گوئی وغیرہ سے زبان کو بچایا جائے۔

حضرت عمران بن حطانؒ کہتے ہیں کہ میں ایک دن مسجد میں گیا تو وہاں پر حضرت ابُوذرؓ کالے رنگ کی چادر اوڑھے اکیلے تشریف فرما تھے۔ میں نے عرض کیا: اے ابُوذرؓ! یہ تنہائی کیوں اختیار کی ہوئی ہے؟ حضرت ابُوذرؓ نے فرمایا: میں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بُرے دوستوں کی صحبت سے تنہائی بہتر ہے اور نیک لوگوں کی صحبت تنہائی سے بہتر ہے اور اچھی بات کہنا خاموشی سے بہتر جب کہ بُری بات کرنے سے خاموش رہنا بہتر ہے۔ (شعب الایمان للبیہقی)

اس حدیث میں جلوت و خلوت اور خاموشی و گفت گُو کے معیار کی نشان دہی فرما دی گئی ہے۔ لوگوں کے ساتھ بیٹھنے اور ان سے گفت گُو کرنے کو منع نہیں کیا جا رہا بل کہ غیر ضروری اور غیر شرعی گفت گُو اور لوگوں سے ساتھ فضول مجلس لگانے سے منع کیا گیا ہے۔

حضرت ابُوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جب تم کسی ایسے شخص کو دیکھو جسے دنیا سے بے رغبتی عطا کی گئی ہے اور کم سے کم بولنے کی نعمت عطا کی گئی ہے تو تم اس کے قریب رہو اس لیے کہ وہ دانائی اور حکمت کی باتیں دل میں ڈالے گا۔‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانی)

خاموشی اختیار کرنے اور بہ وقت ضرورت بولنے والے کو اﷲ تعالیٰ حکمت کی نعمت سے مالا مال فرماتے ہیں اس لیے ایسے شخص کے ساتھ رہنے کی ترغیب دی جا رہی ہے تاکہ اس کی صحبت کے آثار اس پر بھی اثرانداز ہوں۔ گویا اس حدیث مبارک میں حکمت و دانائی حاصل کرنے کا طریقہ بتایا جا رہا ہے۔

حضرت علی بن حسینؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: اسلام کی خوبی میں یہ بات بنیادی طور پر شامل ہے کہ انسان فضول باتوں اور فضول کاموں کو چھوڑ دے۔ (الترمذی)

حضرت ابُوسعید خدریؓ سے مرفوعاً مروی ہے یعنی رسول اﷲ ﷺ فرماتے ہیں کہ روزانہ جب انسان بیدار ہوتا ہے تو اس کے جسم کے تمام اعضاء اس کی زبان سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں: اے زبان! ہمارے معاملے میں اﷲ سے ڈرنا، بے شک ہمارا تیرے ساتھ تعلق ہے اس لیے کہ اگر تو درست رہی تو ہم سے صادر ہونے والے اعمال بھی درست رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھے پن اور کج روی کا شکار ہو گئی تو ہم سے صادر ہونے والے اعمال بھی گناہ بن جائیں گے۔
(جامع الترمذی، باب ماجاء فی حفظ اللسان)

حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ سے مروی ایک طویل حدیث میں ہے کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا، مفہوم: ’’انسان کے زیادہ تر گناہ زبان کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ‘‘
(شعب الایمان للبیہقی)

جب تک زبان کا رخ درست نہیں ہوتا انسان گناہوں میں مبتلا رہتا ہے اور جب زبان کا رخ درست ہوتا ہے تو بندہ گناہوں سے باہر نکلتا آتا ہے۔

حضرت ابُوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص اﷲ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اچھی باتیں کہے یا پھر خاموش رہے۔‘‘
(صحیح البخاری، باب حفظ اللسان)

جب تک انسان اچھی باتیں کرتا رہے شریعت اسے بولنے سے نہیں روکتی اور جب اس کے پاس کہنے کے لیے اچھی باتیں ختم ہو جائیں تو اب شریعت اسے خاموش رہنے کا حکم دیتی ہے۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں: ’’کاش! میں اﷲ کے ذکر کے علاوہ کچھ نہ بول سکتا، گونگا ہوتا۔‘‘
(المرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح)

اس لیے شریعت میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ بولنے میں ازحد احتیاط سے کام لیں بغیر سوچے سمجھے کوئی بات منہ سے نہ نکالیں اور اگر کبھی بولنے میں کوئی بات خلاف شریعت منہ سے نکل جائے تو فوراً اس پر توبہ کریں اگر کسی کو گالی دی ہو، چغل خوری کی ہو، غیبت کی ہو یا کسی کا تمسخر کیا ہو ان صورتوں میں توبہ کے ساتھ اس متعلقہ شخص سے بھی معافی مانگنا ضروری ہے اور جن لوگوں کے سامنے اس کی غیبت یا چغلی کی تھی انہی لوگوں کے سامنے اس بندے کی تعریف اور اچھائی بیان کریں۔ اور اگر کسی وجہ سے معاف کرانا مشکل ہو تو اس شخص کے لیے اور اپنے لیے استغفار کریں اور یوں دعا مانگیں: ’’اے اﷲ! ہماری اور اس کی مغفرت فرما۔‘‘

ہم سب کو چاہیے کہ روزانہ ایک وقت مقرر کر کے دن بھر کی اپنی باتوں کا حساب لگائیں کہ ہم نے کتنی مفید باتیں کی ہیں اور کتنی فضول باتیں؟ ہم خود اس نتیجے تک پہنچیں گے کہ خاموشی میں کتنے فوائد ہیں۔

اﷲ کریم ہمیں زبان کی حفاظت کرنے کی اور مفید باتیں کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔