چیخیں نکل گئی ہیں اب تو!!

شیریں حیدر  اتوار 27 فروری 2022
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

کورونا کی وبا نے دنیا بھر کو متاثر کیا ہے اور ہر طرح سے، وائرس سے متاثر ہونا، اس کے باعث کئیوں کا اس حد تک متاثر ہونا کہ جان کی بازی ہار جانا۔

زندگیوں میں خلا سے بن گئے ہیں، اس کے خوف سے گھروں میں مہینوں تک محصور ہو کر رہنے سے بہت سے لوگ مختلف نفسیاتی بیماریوں اور خوف میں مبتلا ہو گئے۔ جن کے کاروبار تھے، وہ بھی بہت بری طرح متاثر ہوئے کہ لاک ڈاؤن کے باعث ان کے کاروبار نقصان میںگئے یا مکمل طور پر ٹھپ ہو گئے۔

ہرملک نے اس کے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے مختلف نوعیت کی حکمت عملی اختیار کیں۔ چند ترقی یافتہ ممالک نے اپنے عوام کو اس کے اثرات سے محفوظ رکھنے اور ان کے مالی نقصانات کا ازالہ کرنے کے لیے ان کی مالی امداد کی، ان کی تنخواہوں کے برابر رقوم انھیں بطور امداد گھر بیٹھے ، بغیر کام کیے ملتی رہیں۔

ان ممالک میںلوگوں کے پاس ایسی سہولیات اور حقوق اس لیے موجود ہیں کہ وہ سب باشعور لوگ ہیں، ان فلاحی ریاستوں میں انھیں یہ سب اس لیے حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے ٹیکس ادا کرتے ہیں، انھیں اپنی ریاست کی طرف سے مفت طبی، تعلیمی سہولیات میسر ہیں اور رہائش بھی کم نرخوں پر دستیاب ہو جاتی ہیں۔

بچوں کی پیدائش کے بعد والدین کو بچوں کی پرورش کے لیے وظائف بھی ملتے ہیں۔ اس سے اگر کوئی مالدار نہیں ہو جاتاتو کم از کم بھیک مانگنے پر بھی مجبور نہیں ہوتا بلکہ سفید پوشی سے گزارا کر لیتا ہے۔ جہاں تمام حکومتیں ان مسائل سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف رہیں اور تمام کاوشوں کے باوجود بھی مختلف اجناس کی قیمتوں پر قابو نہیں پایا جا سکا، اسی طرح سے ہمارے ملک میں بھی ہمیں اسی مسئلے کا سامنا رہا۔

کورونا کے آغاز سے لے کر اب تک کی قیمتوں کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت مہنگائی بلند ترین شرح کو چھو رہی ہے۔ اس وقت ایک اندازے کے مطابق مہنگائی کی شرح لگ بھگ 12.3 فیصد ہے۔ ایک پٹرول کی قیمت بڑھتی ہے تو چیخیں نکل جاتی ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں سبزی دالوں سمیت ہر چیز، پٹرول کی قیمت بڑھنے کے ساتھ ہی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ بسوں، ویگنوں کے کرائے، ادویات ، اسکولوں کی فیسیں تک اس سے متاثر ہوتی ہیں۔

لگتا ہے کہ اس ملک میں ہر چیز پٹرول سے چلتی ہے۔ پہلے پہل یہ قیمتیں مہینے کے آغاز میں بڑھتی تھیں مگر اب یہ دھچکا ایک ماہ میں دو دو دفعہ لگنا شروع ہو گیا ہے۔ اگلے روز ایک دکاندار سے ایک کپڑے کا بھاؤ پوچھا، دو ہزار والے کا نرخ اس نے پانچ ہزار بتایاتو میری حیرت دیدنی تھی کہ فقط چند ماہ پہلے ہی تو وہ کپڑا میں نے اس ریٹ پر لیا تھا۔ ’’ یہ تو بہت زیادہ بتا رہے ہو آپ بیٹا! ‘‘ میںنے سفید داڑھی والے بابے سے کہا کہ شاید بھاؤ تاؤ کی کوئی گنجائش نکل آتی۔

’’ ابھی لے لیں، بلکہ کچھ فالتو لے کر رکھ لیں، خان صاحب کو اللہ سلامت رکھے، اگر وہ رہ گئے تو آپ کو دس ہزار میں بھی یہ چار پانچ ماہ میں نہیں ملے گا! ‘‘ اس نے مجھے قبل از وقت خبردار کر دیا کہ بعد میں نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی۔

’’ خان صاحب کے رہنے یا نہ رہنے کا اس سے کیا تعلق ہے بیٹا؟ ‘‘

’’ باجی!!!‘‘ اپنے مخصوص انداز میں اس نے کہا، ’’ جب ہر دوہفتے کے بعد وہ پٹرول مہنگا کر دے گا تو ہم ماڑا دکاندار اور کیا کرے گا، سامان لانے لے جانے پر پٹرول لگتا ہے، ہمیں ہر روز آنے جانے پر گاڑی میں پٹرول بھروانا پڑتا ہے، ہمارے جنریٹر بھی پٹرول پر چلتے ہیں، بجلی کے بل بھی بھرتے ہیں، ہم اور کہاں سے اپنے خرچے پورے کریں ، سال بھر کاروبار بند رہے اور ہمارا کتنا نقصان ہوا! ‘‘ اس کے بیان سے یہی اندازہ ہوا کہ سال بھر کاروبار بند رہنے سے جو نقصان ہوا تھا، اب اس کا ازالہ اس نے ہماری جیبوں میں سے زیادہ رقوم نکال کر ہی کرنا ہے۔

’ کیا آپ کو لگتا ہے کہ خریداروں کا کوئی نقصان نہیں ہوا، کیا ہم بجلی اور پٹرول نہیں استعمال کرتے اور ان کا بل بھرتے، آپ تو ایک کپڑے کی قیمت بڑھاتے ہیں اور خرچہ پورا کر لیتے ہیں، ہم تنخواہ دار طبقے کی تنخواہیں یا پنشن والوں کی پنشن تو سال میں ایک دفعہ بڑھتی ہے اور کبھی وہ بھی نہیں بڑھتی۔ جو اضافہ کیا جاتا ہے، وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق ہوتا ہے۔ کیا صرف بیوپاری اور کاروباری لوگ ہی مہنگائی اور کورونا سے متاثر ہوئے ہیں۔

ان میں سے تو ایک بہت بڑا طبقہ وہ ہے جو ٹیکس کے نام پر ایک دھیلا نہیں دیتا، ان کی دکان سے آپ کو پکی تو کیا کچی رسید بھی نہیں ملتی۔ ان کی آمدنی کا نہ کوئی حساب کتاب ہے ، نہ ان کو چیک کرنے کا کوئی طریقہ۔ یہ تمام وہ دکاندار ہیں جنھوں نے خواتین اور حضرات کے کپڑوں کی مارکیٹوں میں پہلے چھوٹے چھوٹے ڈبہ نما دکانوں سے کام شروع کر کے، اس وقت بڑے بڑے کاروباری مراکز بنا لیے ہیں جن میں دن رات چکا چوند رہتی ہے۔

کپڑوں کے علاوہ ہمارے ہاں بر لب سڑک آپ کو ہر شہر میں پہلے ریڑھی، پھر ٹھیلا اور پھر سائبان پر کچی چھت پر بنا لیے جانے والے سیکڑوں دکاندار نظر آئیں گے، جو کہ پھل، سبزی اور خشک میوہ جات وغیرہ بیچتے ہیں۔ ان کے نرخ بھی اونچے ہوتے ہیں اور ان سے بھی بل کے نام پر آپ کو کچھ نہیں ملتا۔ ایک ایک دن میں ہزاروں لاکھوں کمانے والے اس ملک کو ٹیکس نہیں ادا کرتے اور نہ ہی ان کی آمدنی رجسٹرڈ ہوتی ہے۔

یہ لوگ، یہ دکاندار کوئی زیر زمین رہنے والی مخلوقات نہیں ہیں بلکہ انھیں پولیس والے، ہم، آپ، انتظامی محکموں والے، ٹیکس والے اور حکومت کے سرکردہ افراد … سب دیکھتے ہیں، ان سے خریداری بھی کرتے ہیں ، ہر چار روپے کی چیز کے دام پندرہ بتا کر ہمیں بارہ پر بیچتے اور اس پر بھی آٹھ روپے منافع کما لیتے ہیں۔

اگر میں اپنے ہی علاقے کی مثال دوں تو یہاں دو مختلف دکانوں پر، جن کے بیچ نصف کلو میٹر کا فاصلہ بھی نہیں ہوتا، ایک ہی چیز کے دام اتنے مختلف ہوتے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنا تضاد کیوں ہے۔ نوے فیصد اشیاء ہمارے ہاں ان اسٹورز پر ایسی ہیں کہ جن پر کوئی قیمت پرنٹ نہیں ہوئی ہوتی اور ان کے دام ہر دکاندار نے اپنی مرضی سے لگائے ہوتے ہیں۔

کیا اس ملک میں یکساں قیمتوں کا کوئی نظام نہیں ہو سکتا، اگر نہیں تو ایسا لازمی قرار نہیں دیا جا سکتا کہ ہر چھوٹا بڑا دکاندار اپنی دکان پر ہر چیز کے نرخ لکھے، سبزیوں اور پھلوں کے جو نرخ روزانہ ہوتے ہیں، انھیں ایک بورڈ پر نمایاں لکھیں ۔ منافع کمائیں لیکن اس منافع میں سے ٹیکس بھی تو دیں ، اتنی بڑی بڑی دکانیں سجا کر بیٹھے ہیں لیکن اگر آپ بینک کا کارڈ دیں تو کہتے ہیں کہ کارڈ نہیں لیتے، جن کے پاس کارڈ والی مشین ہوتی ہے ان کی مشین بھی سال میں بارہ مہینے خراب ہی ہوتی ہے… اور تو اور، وہ آپ کو یہ بھی پیش کش کرتے ہیں کہ اگرآپ نقد دیں تو وہ آپ کو دس فیصد کی کٹوتی بل میں کر دیتے ہیں۔ بل دینے کی صورت میں ، سترہ فیصد ٹیکس دیں گے تو گاہک کو دس فیصد کا لالچ دے کر وہ پھر بھی نہ صرف بچت کر لیتے ہیں بلکہ ان کی سیل بھی کسی ریکارڈ پر نہیں آتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔