حکومت اور ریلیف کے ڈرامے

میمونہ حسین  منگل 1 مارچ 2022
پہلے قیمت دس روپے بڑھا دو، پھر دو روپے کا ریلیف دے دو، حکومت کے یہی ڈرامے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

پہلے قیمت دس روپے بڑھا دو، پھر دو روپے کا ریلیف دے دو، حکومت کے یہی ڈرامے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

وہ قصہ تو اب سب کو ازبر ہوچکا ہے کہ ایک ریاست میں نانبائی کو روٹی مہنگی کرنی تھی۔ اس نے بادشاہ سے روٹی 15 روپے کرنے کی فرمائش کی۔ لیکن بادشاہ نے اسے روٹی 30 روپے فروخت کرنے کا حکم دیا۔ جب مہنگائی سے تنگ عوام بادشاہ کے در پر شکایت لے کر پہنچے تو بادشاہ نے روٹی کی قیمت آدھی کرنے کا حکم نامہ جاری کردیا۔ یوں نانبائی کی فرمائش بھی پوری ہوگئی اور رعایا بھی بادشاہ کے انصاف سے مطمئن ہوگئی۔

ذرا سوچیے! جو کام نانبائی نے کیا وہی کام ہمارے ملک میں بڑے بڑے وزیر کرتے ہیں۔ عوام جب بلبلا کر شور مچاتے ہیں تو بادشاہ سلامت پھر یونہی ایکشن لیتے ہیں اور ایسے ہی پہلے نانبائی کی کلاس ہوتی ہے اور پھر عوام کو بھی اسی طرح لوٹ کر رعایا کی نظروں میں اچھا بن جایا جاتا ہے۔

وزیراعظم کے حالیہ بیان کہ اگلے بجٹ تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہوگا، کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں اقتدار حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل تمام سیاستدان اسی سوچ کے حامل ہیں۔

اقتدار کی یہ طاقت حاصل کرنے کےلیے کس کو لوٹا، کون مارا گیا، اس کی فکر کیوں ہوگی کسی کو بھلا۔ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو بادشاہ جہانگیر نے اکبر کے خلاف بغاوتیں کیں لیکن جب وہ بادشاہ بنا تو اُس کی جانب سے عوام کےلیے کوئی اصلاحات نہیں کی گئیں۔ اورنگ زیب نے جب اپنے بھائیوں کے خلاف جنگیں لڑیں جن میں ہزارہا لوگ مارے گئے تو اس کا صلہ اورنگ زیب کو ملا۔ عوام نے ان جنگوں میں تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہ دیکھا۔

یہ باتیں کرنے کا یہاں خاص مقصد ہے۔ پہلی بات میں اس ملک کی طرز سیاست کا رنگ چھپا ہوا ہے اور بادشاہوں نے ماضی میں جو جنگیں لڑیں اُس وقت کے حساب سے رعایا کو بہت کچھ سہنا پڑا۔ اگر آج ہم ماضی سے موازنہ کریں تو آج بھی اقتدار کی جنگ بادشاہوں میں دکھائی دے رہی ہے صرف ایک ہی تبدیلی آئی ہے، پہلے تخت و تاج کہا جاتا تھا آج اس کو لفظ جمہوریت سے بدل دیا گیا ہے۔ مگر ہر طرف سے ہر جمہوری دور میں پستے عوام ہی ہیں۔

آج عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں مگر ہم جمہوریت کو دیکھیں کہ ایک طرف پچھلے ماہ سے عدم اعتماد کی باتیں گردش کررہی ہیں۔ اپوزیشن پریشان ہے کہ اس موجودہ حکومت نے عوام کو مہنگائی سے مار دیا، اور ہم عوام کے بہت ہمدرد ہیں۔ اپوزیشن کا یہ کہنا کسی لطیفے سے کم نہیں کیونکہ ان کے دور میں انہوں نے کیا الگ کیا؟ انہوں نے بھی بینک بیلنس بنانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ اپوزیشن بھی انتظار میں ہے کہ کہیں سے غداری ہو۔ آج پی ڈی ایم کے نام پر جو جماعتیں اکٹھی ہیں، کل کو پھر ان کی ہانڈی بیچ چوراہے پھوٹے گی۔ اسی طرح عمران خان نے بھی بڑی بڑی باتیں کیں۔ بڑے بڑے مگرمچھوں کو چور چور کہہ کر پہلے پکڑا اور پھر بڑی پلاننگ کے ساتھ چھوڑا۔ عوام کو خوشحالی کے خواب دکھائے اور مہنگائی کی دلدل میں دھکا دے کر بڑی آسانی سے یہ کہہ کر بری الذمہ ہوکر یہ کہنے لگے کہ مجھ سے پہلے جماعتوں نے اس ملک کو کھوکھلا کردیا۔

اسی طرح آج ایک طرف لانگ مارچ پی ٹی آئی کررہی ہے، جس کی قیادت شاہ محمود قریشی کر رہے ہیں تو دوسری طرف بلاول بھٹو زرداری اپنی جماعت کی قیادت کرتے ہوئے لانگ مارچ کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اب دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی برائیاں تو خوب گنوائیں گی، کیونکہ ان کو عوام کی بہت فکر ہے۔ شاہ محمود قریشی بھی دل کھول کر اپنی تقاریر میں بلاول بھٹو اور اُن کی جماعت کو خوب لتاڑ رہے ہیں۔ مگر میں قارئین اور شاہ صاحب کو بھی یاد کروانا چاہوں گی کہ آپ بھی کبھی اُسی جماعت میں ہم نوالہ تھے۔ اب اگر بات کریں پی ٹی آئی کی کہ وہ ڈھٹائی کی ہر حد کو پار کرتے ہوئے عوام کو مشکلات میں جھونک کر نئی باتوں اور نئے الفاظ سے دوبارہ کرتب دکھانے نکل رہے ہیں، کیونکہ ان سب کو عوام کی بہت فکر ہوتی ہے۔

اگر ہم ن لیگ کی بات کریں تو یہاں ان کی بادشاہوں جیسی شان و شوکت، پروٹوکول ہی پورا نہیں ہوتا مگر جب لندن میں ہوتے ہیں تو پیدل بھی چلتے ہیں، قطاروں میں بھی کھڑے ہوتے ہیں اور عام ٹرانسپورٹ میں سفر بھی کرتے ہیں۔ اگر یہی رنگ ڈھنگ اپنے ملک میں بھی رکھتے تو آج ملک اور عوام کی صورتحال مختلف ہوتی۔ یہی بات عمران خان نے بھی کہی تھی کہ اس ملک سے پروٹوکول کو ختم کیا جائے مگر آج سب سے زیادہ اس جماعت نے ہی پروٹوکول پر خرچ کیا۔

آج ہر کوئی عوام کا ہمدرد بن کر نکل تو رہا ہے لیکن کل کو جب یہی پی پی پی اقتدار میں آئی یا ن لیگ، تو یاد رکھیے ان کے بھی یہی الفاط ہوں گے کہ ہم سے پہلے پی ٹی آئی نے ہی ملک کو قرضوں تلے دبا دیا اور آج ملک کی یہ صورتحال ہے۔ یہی الزامات دھرتے ہوئے کئی جمہوری ادوار گزر گئے مگر کبھی کوئی کل سیدھی نہیں ہوسکی۔ نہ جانے کب ان سیاستدانوں کے درمیان کوئی لیڈر پیدا ہوگا؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔