میرے والد، میرے دوست

شاہد کاظمی  منگل 1 مارچ 2022
آپ جاتے جاتے اپنے لاپرواہ بیٹے کو سمجھدار بنا گئے۔ (فوٹو: فائل)

آپ جاتے جاتے اپنے لاپرواہ بیٹے کو سمجھدار بنا گئے۔ (فوٹو: فائل)

مجھے آج بھی یاد ہے کہ آپ نے کیسے توقعات کے برعکس مجھے شہر کے اسکول میں داخل کروایا۔ مجھے ذہن نشین ہے کہ کس طرح آپ نے زمانے کے سرد و گرم کو خود تو برداشت کیا لیکن مجھے کوئی کمی نہ ہونے دی۔ میں اکیلا تھا لیکن آپ نے مجھے میرا اکیلا پن کبھی محسوس نہ ہونے دیا اور آپ نے جہاں بطور سایہ دار درخت مجھے ضرورت تھی وہاں وہ کردار نبھایا اور جہاں مجھے کسی دوست کی ضرورت تھی آپ میرے ساتھ اسی رویے میں موجود تھے۔

مجھے ایسے کئی مواقع یاد ہیں جب آپ نے مجھ میں اعتماد لانے کےلیے مجھے یار کہہ کر مخاطب کیا۔ اور مجھے بخوبی علم ہے کہ کیسے آپ نے مجھے زمانے کا کوئی رنگ سکھانے کےلیے بیٹا کہہ کر بلایا۔ میں اگر بطور بیٹا آپ سے ڈرتا تھا تو بطور دوست آپ سے ہر بات بیان کردیتا تھا۔ آپ نے جب مجھے شہر کے بڑے اسکول میں داخل کروایا تو اپنے سینے پہ سوار کرکے مجھے میرا نام، میرے والد کا نام، اپنے شہر کا نام، اپنے گاؤں کا نام صرف اس لیے یاد کروایا تھا کہ میں کہیں کھو جاؤں تو مجھے اپنے گھر کا راستہ نہ بھولے۔

میں نے آپ کو تنگ بھی بہت کیا۔ لیکن آپ کے لاڈ بھی سب سے زیادہ میرا نصیب ہوئے۔ بہنوں کے پیار بھرے شکوے کہ آپ اسے بہت زیادہ چاہتے ہیں، ہم سے بھی زیادہ۔ تو آپ کا مسکرا کر کہنا ’’میرا تو یہی سب کچھ ہے‘‘ مجھے آج بھی کانوں میں سنائی دیتا ہے تو بے ساختہ آپ کو چومنے کا دل کرتا ہے۔ کہانیوں میں لاڈلا ہونا لوگوں نے پڑھا ہوگا، میں نے تو حقیقت میں لاڈ اٹھوائے ہیں، اور ایسے اٹھوائے آپ سے کہ لوگ حسرت کرتے ہیں۔ میرا پہلا قدم اٹھا تو نقشں پا آپ کا تھا جہاں اُٹھا۔ میں نے پہلا لفظ بولا، تو ماخذ آپ کے الفاظ تھے میرے لیے۔ آپ کچھ دیر کےلیے جاتے تو ماہی بے آب کی سی کیفیت طاری ہوجاتی۔ میری لاپرواہی پر آپ کا مصنوعی غصہ جیسے میرا قیمتی اثاثہ ہو۔ وہ آپ کا اونچی آواز میں بول کر بتانا کہ آپ غصہ ہیں، اس اونچی آواز کے پیش منظر میں آپ کا پیار تو ایسی مٹھاس لیے ہوئے تھا کہ آج تک اس سے میٹھا کچھ ملا ہی نہیں۔ کسی کو بھی ہاتھ اٹھاتے دیکھتا تو مجھے حیرانی گھیر لیتی کہ یہ بھلا ہاتھ کیسے باپ اٹھا لیتے ہیں اولاد پر کہ آپ نے ہاتھ اٹھانا تو دور، کبھی حقیقی معنوں میں مجھ سے ناراض بھی نہیں ہوئے۔

مجھے یاد ہے وہ اسکول میں پہلے تین درجوں میں آنے پر کریم ہوٹل کے سموسے اور چاند یونیفارم ہاؤس سے نیا یونیفارم دلوانا۔ جب جب کسی جماعت میں پہلے تین درجوں میں آؤں، تو آپ کا فخر سے بتانا کہ دیکھو میرا شہر کے اسکول اسے بھیجنا اچھا فیصلہ تھا۔ میرا غرور تھا وہ ہر لمحہ۔ روزگارِ زندگی سے فراغت پانے کے بعد جس لمحے خانۂ مہرباں میں آپ آئے تو آپ کے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے کتنا اچھا لگا یہ کہنا کہ اب آپ مزیدار ریٹائرڈ زندگی گزاریں۔ لیکن جنہوں نے دلوں کو جیتنا ہو وہ بھلا آرام خود پر کیسے حاوی ہونے دے سکتے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرا، جب ہماری فلاح آپ کا مقصود نہ ہو۔ کوئی شب ایسی نہ گزری، جب آپ نے ہمارے لیے بہتر کل کی کوئی تدبیر نہ کی ہو۔ کوئی موسم ایسا نہیں بیتا، جس میں آپ نے خوشحالی کے موسم کے اسباب پیدا کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔ مجھے آپ کی ہر سعی ازبر ہے۔ مجھے آپ کا اٹھایا گیا ہر قدم دل کی دھڑکن پہ کندہ محسوس ہوتا ہے۔ آپ نے کس قدر جانفشانی سے ہمارے لیے اس تنگیٔ دوراں میں بھی مسکراہٹ سجائے رکھی۔

ہمیں کہاں خبر ہوتی تھی کہ آپ کے دامن میں تندگدستی ہے یا خوشحالی۔ ہمیں تو آپ نے ہمیشہ خوشحالی اور آسودگی سے یاری کروائی تھی۔ لیکن ہمیں خوشحالی اور آسودگی دینے میں آپ زندگی کے کن کن مراحل سے گزرے مجھے احساس ہے۔ کیوں کہ جب آپ ماں سے رازو نیاز کرتے ہوئے سرگوشیوں میں زمانے کی سختیاں بیاں کرتے تھے تو آپ کا لاڈلا میں، اور آپ کی شہزادیاں چپکے چپکے شاید سب سمجھنا شروع کردیتے تھے۔ زندگی میں آسانیاں میسر ہوں تو بھی بھلا کب آپ نے اپنے اوپر نچھاور کیں۔ آپ کا تو بس نہیں چلتا تھا کہ اپنے حصے کی بھی تمام آسانیاں ہماری راہ میں بچھا دیں۔ بلکہ آپ کی خوشحالی، آسودگی اور آسانیاں تو شاید بس ہمارے چہروں پر مسکراہٹ لانا تھیں۔

منوں مٹی کے حوالے کردیا۔ لیکن آج بھی آپ کے چہرے پر ہلکی سی شیو مجھے محسوس ہوتی ہے۔ آج بھی اسی طرح آپ کی شیو پہ لاڈ سے جیسے میں ہاتھ پھیر رہا ہوں، جیسے کبھی آپ کے گلے میں بانہیں ڈال کر محسوس کرتا تھا۔ میرے الفاظ میری انگلیوں کی پوروں، اور میرے قلم کی نوک پر آنے سے گھبرا رہے ہیں کہ اس شخصیت کی ذات کا احاطہ بھلا کیسے ممکن ہے کہ جس نے خود کو صحرا کی تپتی ہوا کے سامنے لا کھڑا کیا لیکن ہمارے لیے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کا بندوبست کیے رکھا۔

میرے غمگسار، میرے ہمدم، میرے رازداں، میرے دوست، میرے ابو جان! بظاہر آپ فانی جہاں سے ابدی جہاں میں چلے گئے ہیں لیکن آپ کے گلاب جیسے لفظ آج بھی میری رہنمائی کو اسی طرح موجود ہیں جس طرح میں آپ کے سامنے بیٹھ کر آپ سے باتیں کیا کرتا تھا۔ ہنگامۂ زندگی سے جو چند لمحے میسر آتے تو آپ میرے چہرے کی مسکراہٹ دیکھ کر جیسے مطمئن ہوجاتے تھے۔ مجھے آج بھی ویسے ہی محسوس ہورہا ہے کہ آپ مجھے اپنے لیے یہ حقیر سا نذرانۂ عقیدت لکھتے دیکھ کر مسکرا رہے ہوں گے۔ اور آپ مطمئن بھی اس لیے ہوں گے کہ یہ لکھنا بھی تو آپ نے ہی مجھے سکھایا۔ میرے اس جہاں میں پہلا سانس لینے سے یہ الفاظ تحریر کرنے تک مجھ میں تمام خوبیاں ہیں تو آپ کی وجہ سے اور میری خامیاں ہیں تو فقط میری لاپرواہیوں کی وجہ سے۔

مجھے راستے کی مشکلات کےلیے آج بھی آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے اور آج بھی آپ کی رہنمائی میرے پاس موجود ہے۔ آپ کے میرے لیے دعا میں ہلتے ہوئے ہونٹ آج بھی مجھے محسوس ہوتے ہیں۔ اور مجھے میرے کانوں میں یہ سرگوشی اس لمحے بھی سنائی دے رہی ہے کہ ’شاہد پتر گھبرانا نہیں میں ہوں نا‘۔ اور یقینی طور پر آپ میرے ساتھ ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو میں آپ کے جانے کے بعد کہاں اس قابل رہتا کہ یہ الفاظ تحریر کررہا ہوتا۔ آپ ہر لمحہ آج بھی میرے ساتھ نہ ہوتے تو بھلا میں کیسے اس وقت ان کو کچھ امید دلا سکتا جن کو مجھ سے اُمیدیں ہیں۔ کبھی کبھی آپ کی بڑھی ہوئی شیو میں پیار سے ہاتھ مارنا مجھے آج بھی اسی طرح محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کے میرے سامنے بیٹھے ہوئے مجھے محسوس ہوتا تھا۔ میں آج بھی آپ کی قبر پر اپنا دایاں ہاتھ رکھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں اپنا ہاتھ آپ کی شیو کے اوپر رکھے ہوئے ہوں اور آپ کے بالوں میں رکھے ہوئے ہوں اور آپ کے ہونٹوں پر رکھے ہوئے ہوں۔ آپ اور آپ کی دعائیں ہمیشہ ہر مشکل میں میرے ساتھ تھیں، میرے ساتھ ہیں اور میرے ساتھ رہیں گی۔

ابو جی بظاہر تو آپ چلے گئے ہیں لیکن حقیقی معنوں میں آج بھی آپ میرے پاس ہیں۔ اور آپ جاتے جاتے اپنے لاپرواہ بیٹے کو سمجھدار بنا گئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔