وزیراعظم کا حالیہ خطاب، فائنل اوورز کا آغاز

سالار سلیمان  بدھ 2 مارچ 2022
وزیراعظم نے اپنے خطاب میں مہنگائی کا اعتراف کیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

وزیراعظم نے اپنے خطاب میں مہنگائی کا اعتراف کیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

وزیراعظم کا دورہ روس کس قدر کامیاب تھا، اس کا اندازہ وزیراعظم کے گزشتہ دوروں کے ساتھ تقابل کرکے لگایا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نے یہ دورہ خاموشی سے ختم کیا اور ماضی کی طرح وزرا نے اس دورے کو کامیاب ثابت کرنے کےلیے زمین و آسمان ایک نہیں کیا۔ اس کے بعد جیسے ہی اپوزیشن نے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو خان صاحب کو خیال آیا کہ چلو بھئی، عوام کو ریلیف بھی دیتے ہیں اور ساتھ میں دورے کی وضاحت بھی کردیں گے۔ کل شام کو یہ بھی ہوگیا۔ تو آئیے، صورتحال کا مکمل تجزیہ کرتے ہیں۔

ایک سینئر اور باخبر صحافی کا تجزیہ ہے کہ خان صاحب کو حالیہ دورہ روس سے روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اسٹبلشمنٹ نہیں چاہتی تھی کہ اس انتہائی نازک وقت میں خان صاحب یہ دورہ کریں۔ خاں صاحب کا خیال تھا کہ پیوٹن نے دھمکیاں دی ہیں، وہ فل اسکیل وار کی جانب نہیں جائے گا۔ لیکن خاں صاحب کے وہاں پہنچتے ہی جنگ شروع ہوگئی اور اقوام عالم کو انتہائی غلط پیغام گیا کہ اب پاکستان نے اپنا کیمپ بدل لیا ہے اور وہ اُس رشین کیمپ میں ہے جس نے ابھی بننا ہے یا ابتدائی مراحل میں ہے۔

مغرب تو خیر سارا ہی اس روسی جارحیت کے خلاف تھا، مشرق میں بھی بھارت اور چین جیسے بڑے ممالک نے اس کی حمایت نہیں کی اور نتیجتاً روس اس وقت یوکرین مسئلے پر عملاً تنہا کھڑا ہے۔ روس کے اپنے بڑے دماغ اس کو پیوٹن کی غلطی کہہ رہے ہیں اور اس حملے کے خلاف نظر آرہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہم نے گلے میں ہار ڈال لیا ہے۔ اس دورے سے پہلے بھی ہم جیسے کہہ رہے تھے کہ یہ غلطی ہے، اس کا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ اس کی پہلی قسط ہمیں 55 ملین ڈالر کی سلامی کے ساتھ ساتھ ایک اہم بینک پر سنگین الزامات کی صورت میں مل گئی ہے۔ اب فارن آفس کا کام مزید بڑھ چکا ہے کہ وہ اس یکدم بدلتی صورتحال میں کیا کرتا ہے۔

وزیراعظم کا اپنے خطاب سے یہ تاثر دینا کہ ماضی کی خارجہ پالیسیاں غلط تھیں اور آج کی خارجہ پالیسی بالکل ٹھیک ہے۔ یہ بات بھی اپنے آپ میں غلط ہے۔ پاکستان کی موجودہ خارجہ پالیسی کس قدر آزاد ہے، اس کےلیے ہم تین نام لکھ دیتے ہیں، پڑھ لیجئے، گہرائی ناپ لیجئے، جواب مل جائے گا۔ ایک آئی ایم ایف، دوسرا فیٹف، تیسرا امریکا۔ چلیے، اب آگے بڑھتے ہیں۔

روس کے دورے کا مقصد اگر 2 ملین ٹن گندم کی برآمد بھی دیکھ لیں تو خان صاحب کو کسی نے غلط گائیڈ کیا ہے۔ ہم کبھی گندم پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں شمار ہوتے تھے، آج ہم دوسرے ممالک کے محتاج ہورہے ہیں۔ سب سے پہلے تو اس کی وجہ تلاش کیجئے کہ ایسا ہوا کیوں ہے؟ اب یہ 2 ملین ٹن گندم ہم اس صورت میں لیں گے اگر یہاں پر قلت ہوجاتی ہے، جس کی امید موجودہ حکومت کے ہوتے ہوئے کی جاسکتی ہے۔ کسی دور اندیش نے کہا تھا کہ اگر موجودہ حکومت کو صحرا حکومت کرنے کےلیے دے دیں تو یہ وہاں بھی ریت کی قلت پیدا کردیں گے۔ ہم نے یادش بخیر گندم کی ریکارڈ پیداوار کا دعویٰ کرکے بھی گندم امپورٹ کی ہوئی ہے۔ لیکن اس سے اوپر ایک بات ہے۔ یہ روس کب سے اتنا ہوگیا کہ ہمیں اتنی بڑی مقدار میں گندم فراہم کرے؟ جب ہمیں ضرورت ہوتی ہے تو ہم گندم دو تین بڑے ممالک سے خریدتے ہیں۔ ہم یوکرین سے گندم خریدا کرتے تھے، ہم آسٹریلیا، کینیڈا اور امریکا سے بھی گندم خریدا کرتے تھے۔ روس سے ہم بہت تھوڑی مقدار میں گندم لیا کرتے تھے۔ لہٰذا، اعداد و شمار کے لحاظ سے دیکھیے تو یہ بات بھی غلط ہے۔

ہماری روس کے ساتھ مجموعی تجارت بھی کوئی اتنی اچھی نہیں کہ ہم نے اس نازک وقت میں اتنا بڑا رسک لے لیا ہے۔ دوسری بات گیس کی ہے۔ یہ درست ہے کہ یہاں گیس کی قلت ہے اور اسی وجہ سے ہم ایل این جی خرید رہے ہیں۔ گیس کا اس خطے میں عالمی مسئلہ ہے اور اس میں عالمی سیاست شامل ہے۔ ایران کی گیس کو امریکا نہیں لینے دیتا۔ یہ گیس پائپ لائن اسی وجہ سے نہیں بن پا رہی ہے کہ جو بھی کمپنی ایرانی منصوبے میں آتی ہے، امریکا اس کو بلیک لسٹ کردیتا ہے۔ اب روس کا یہ مسئلہ ہے کہ گیس نے روس سے نہیں بلکہ سینٹرل ایشیا سے آنا ہے، گیس نے ترکمانستان سے آنا ہے۔ روس کی ساری گیس تو پورپ ایکسپورٹ ہوتی ہے۔ اس مجوزہ منصوبے میں روس محض ایک پارٹنر ہے جس کی حیثیت کوئی کلیدی نہیں ہے۔ یہ پراجیکٹس 25 سال سے کاغذوں میں بنے ہوئے ہیں، فزیبلٹی رپورٹس تک تیار ہوچکی ہیں۔ یہ منصوبہ افغانستان میں عدم استحکام کی وجہ سے مکمل نہیں ہو پا رہا ہے۔ گیس کےلیے ہمارے پاس کئی ایک متبادل بھی موجود ہیں۔ لہٰذا، اس بات میں بھی وزن نہیں ہے۔

حکومتی کارکردگی پر کسی دن تفصیل سے لکھوں گا اور آپ کو یہ بتاؤں گا کہ اس حکومت کی ناکامی کی وجوہ کیا رہی ہیں۔ فی الوقت اتنا ہے کہ حکومت کورونا کے کور میں چھپنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کورونا سے پہلے کے حالات بھی حکومت کےلیے اتنے اچھے نہیں تھے۔ یہ صرف خود کو تسلیاں دینے والی باتیں ہیں۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں مہنگائی کا اعتراف کیا ہے لیکن اس مہنگائی کا تعلق اندرونی معاملات سے ہے، بیرونی معاملات سے نہیں ہے۔ اس مہنگائی کا تعلق آئی ایم ایف سے ہے۔ حکومت آج ڈالر کو کنٹرول کر لے، حکومت آج ٹیکس کی شرح کم کرکے ٹیکس کا مجموعی دائرہ کار بڑھا لے اور بلیک میلنگ سے باہر نکل آئے تو معاملات ایک دو ماہ میں بہت حد تک ٹھیک ہوسکتے ہیں۔ دنیا میں اگر مہنگائی 6 فیصد سالانہ تک بڑھتی ہے تو پاکستان میں اس سے 3 گنا زیادہ ہوتی ہے۔

جہاں تک بات ہے کہ وزیراعظم نے عوامی ریلیف کا اعلان کیا ہے اور بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں کمی کی ہے تو اس کا براہ راست تعلق اپوزیشن کے ساتھ ہے۔ پیپلزپارٹی نے اپنے فیصلہ کن مارچ کا آغاز کردیا ہے۔ خان صاحب کو اچھی طرح سے علم ہے کہ اُن کے پاؤں کے نیچے سے قالین نکالا جارہا ہے اور وہ اسی کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر یہی اپوزیشن روز اول سے عوامی سائیڈ پر ہوتی اور پریشر بنا کر رکھتی تو ہماری مجموعی صورتحال یہ نہ ہوتی۔

ہم اس تقریر کو الیکشن کا نقطہ آغاز بھی دیکھ سکتے ہیں اور حکومت کا گڈ بائی بھی کہہ سکتے ہیں۔ تاہم، اگر پٹرول اور بجلی کی قیمتیں بجٹ تک برقرار رہتی ہیں تو پھر یہ حکومت کی کامیابی کہی جاسکتی ہے لیکن اس کےلیے لازم ہے کہ حکومت گھر نہ چلی جائے۔ جبکہ ہواؤں کا رخ تو کچھ اور ہی بتارہا ہے۔

وزیراعظم کا حالیہ خطاب ہمیں فائنل اوورز کا آغاز لگ رہا ہے۔ مخالف بلے باز اچھی فارم میں موجود ہیں جبکہ گیند بازی اور فیلڈنگ کرتی سائیڈ خاصی تھک چکی ہے۔ اب اگر ان آخری لمحات میں گیند بازی اچھی ہوگئی تو بلے بازوں کےلیے ٹارگٹ کا حصول ممکن نہیں رہے گا لیکن اگر تھکان میں لوز بالز ہوئیں تو گراؤنڈ سے باہر چھکے لگیں گے۔ ایمپائر بھی نیوٹرل ہوچکے ہیں اور میچ دلچسپ مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سالار سلیمان

سالار سلیمان

بلاگر ایک صحافی اور کالم نگار ہیں۔ آپ سے ٹویٹر آئی ڈی پر @salaarsuleyman پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔