میرے ہم سفر

رفیع الزمان زبیری  جمعـء 21 فروری 2014

اپنی کتاب ’’میرے ہمسفر‘‘ میں احمد ندیم قاسمی نے علم و ادب اور شعر و فن کی چند ایسی شخصیات سے متعلق اپنی یادوں کو سمیٹا ہے جن کے ساتھ ان کا اچھا خاصا وقت گزرا۔ یہ بڑی دلچسپ یادیں ہیں جن سے نہ صرف ان شخصیات کے مزاج و عادات کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ خود قاسمی صاحب کی زندگی کے مختلف گوشے سامنے آتے ہیں۔ وہ ایک بڑے ادیب، بڑے شاعر اور افسانہ نگار تھے۔ اردو ادب اور شاعری کے ایک اہم اور خوبصورت دور کی ممتاز شخصیت۔

’’میرے ہمسفر‘‘ میں جن شخصیات کے بارے میں احمد ندیم قاسمی نے اپنی یادیں، اپنے تاثرات تحریر کیے ہیں ان میں مولانا سالک، چراغ حسن حسرت، مولانا غلام رسول مہر، فیض، راشد، منٹو اور امتیاز علی تاج شامل ہیں۔

مولانا عبدالمجید سالک کے بارے میں قاسمی  لکھتے ہیں۔ ’’ان کے اور میرے درمیان عقیدت و شفقت کا رشتہ تھا۔ عقیدت میری اور شفقت ان کی۔ اور طویل عرصے تک نہ تو میری عقیدت میں کوئی کمی آئی اور نہ ان کی شفقت میں حالانکہ ہماری راہیں عموماً الگ الگ رہیں بلکہ اکثر اوقات ہم دو قطعی مخالف راہوں پر گامزن رہے۔‘‘

مبالغے کی حد تک وسیع القلبی، نرم دلی اور ضرورت مندوں کی حاجت روائی اور اس کے ساتھ ساتھ مزاج کی سدا بہار شگفتگی ان کی شخصیت کے نمایاں پہلو تھے۔ قاسمی صاحب ایک واقعہ لکھتے ہیں ’’گرمیوں کا موسم تھا۔ سالک صاحب نے اپنے دفتر میں چھڑکاؤ کروا رکھا تھا، چقیں گرا رکھی تھیں اور چھوٹے سے کمرے میں گرمی کا نشان تک نہ تھا۔ محفل میں دو ہندو بزرگ بھی بیٹھے تھے اور بے تعصبی اور فراخ دلی کے موضوع پر باتیں ہو رہی تھیں۔ سالک صاحب تاریخی حوالوں سے مسلمانوں کی بے تعصبی کا ذکر کر رہے تھے۔ اچانک چق اٹھی اور دو نوجوان طالب علم اندر آئے۔ آتے ہی انھوں نے اطمینان سے لمبی لمبی سانسیں لیں اور ان میں ایک بولا ’’مولانا آپ نے تو اپنے دفتر کو جنت بنا رکھا ہے‘‘۔ سالک صاحب نے فوراً کہا ’’تشریف رکھیے۔ اب جنت بالکل مکمل ہو گئی ہے، صرف غلمان کی کمی تھی۔‘‘

صوفی غلام مصطفی تبسم کے حوالے سے احمد ندیم قاسمی نے ایک واقعہ لکھا ہے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب فیض  ’’پاکستان ٹائمز ‘‘ کے ایڈیٹر تھے اور قاسمی ’’امروز‘‘ کے۔ وہ لکھتے ہیں ’’فیض صاحب پریشان تھے کہ نئے نئے شعرا ان کی شاگردی اختیار کرنے اور ان سے اصلاح لینے کے لیے آ نکلتے ہیں۔ ادھر میں بھی پریشان تھا۔ چنانچہ جب کوئی نوجوان میرے پاس اس نیت سے آتا تھا، میں اسے فیض  کے پاس بھیج دیتا تھا کہ وہ مجھ سے بھی سینئر ہیں، عموماً فارغ ہی بیٹھے رہتے ہیں کیونکہ سال میں پاکستان ٹائمز کے دو چار ہی ایڈیٹوریل لکھتے ہیں۔ فیض ان نوجوانوں کو یہ کہتے ہوئے میرے دفتر کا راستہ دکھا دیتے تھے کہ میں تو انگریزی اخبار کا ایڈیٹر ہوں، انگریزی ہی میں سوچنے لگا ہوں۔ ندیم کے پاس جائیے وہ اردو اخبار کا ایڈیٹر ہے، اردو میں سوچتا ہے۔ جب ہم دونوں پر یہ راز کھلا کہ وہ نوجوانوں کو میری طرف اور میں انھیں فیض کی طرف روانہ کر دیتا ہوں تو ایک روز ہم دونوں نے مل کر ایک تجویز سوچی۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم تازہ تازہ ریٹائر ہوئے تھے اور سنت نگر میں رہائش پذیر تھے۔ طے پایا کہ شاگردی اور مشورے کے طالبان کو صوفی صاحب کے ہاں بھجوایا جائے۔

چنانچہ ضرورت مندوں کو ہم نے صوفی صاحب کے گھر کا راستہ دکھانا شروع کر دیا۔ تین چار ماہ کے بعد ایک بار ہم دونوں کسی تقریب میں شامل ہونے پہنچے تو صوفی صاحب سے ملاقات ہوئی۔ سلام اور آداب کے بعد میں نے پوچھا کہ قبلہ ریٹائرمنٹ کے بعد کا وقت کیسے گزر رہا ہے؟ بولے ، ویسے تو کچھ ادھورے ادبی کام مکمل کرنے کا وقت مل گیا ہے مگر ایک پریشانی بہت شدید ہے۔ نوجوان اپنی کچی کچی غزلیں لے کر میرے پاس قطار اندر قطار آنے لگے ہیں اور ایک پل بھی چین نہیں لینے دیتے۔ فیض کو تو صوفی صاحب کے یہ الفاظ سن کر بے تحاشہ ہنسی آ گئی اور وہ قہقہے لگاتے بلکہ قہقہوں پر قابو پانے کے لیے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر دور چلے گئے مگر میں چند لمحے ضبط کیے کھڑا رہا، پھر میں بھی خود پر قابو نہ رکھ سکا اور ہنسنے لگا۔ صوفی صاحب پریشان ہو کر کبھی فیض کو جاتے دیکھتے اور کبھی مجھے گھورتے اور آخر فرمایا ’’بھئی کیا بات ہے؟ کیا میں نے تمہیں کوئی لطیفہ سنایا ہے ؟‘‘ تب تک فیض صاحب بھی واپس آ گئے اور میں نے بھی ضبط کر لیا۔ اب ہم تینوں میں طے پایا کہ ان نوجوانوں کو عابد علی  کے گھر کا پتہ بتا کر کہنا چاہیے کہ وہ بالکل فارغ ہیں، ان کے پاس مشورہ دینے کا وافر وقت ہے۔‘‘

یوں تو اس کتاب میں ن۔م۔راشد، ضمیر جعفری، ابن انشا اور حکیم محمد سعید کا بھی ذکر ہے لیکن منٹو اور فیض دو ایسی ہستیاں ہیں جن سے احمد ندیم قاسمی کی بہت یادیں وابستہ ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’منٹو کے مزاج اور کردار کے بارے میں اکثر لوگ شدید غلط فہمی میں مبتلا ہیں جب کہ میں نے اندر باہر سے اتنے صاف ستھرے انسان کم ہی دیکھے ہیں۔ جب تک منٹو سے میری ملاقات نہیں ہوئی تھی وہ مجھے خطوں میں لکھتا رہا کہ مجھ سے مل کر آپ کو مایوسی ہو گی۔ پھر جب منٹو سے ملاقات ہوئی تو نہ صرف یہ کہ مجھے کسی قسم کی مایوسی نہیں ہوئی بلکہ مجھے اس کی شخصیت کے کئی پہلو نہایت پیارے لگے‘‘۔ ہاں دو خامیاں قاسمی کو منٹو میں نمایاں نظر آئیں۔ ایک یہ کہ وہ شراب کا عادی تھا اور دوسری یہ کہ اس کی انا کی دھار بہت تیز تھی۔ ان دو خامیوں کو بھی قاسمی نے یہ کہہ کر درگزر کیا کہ شراب تو ہماری سیاست اور ادب کے بڑے بڑے زعما بھی پیتے تھے اور انا تو وہ اس پر سجتی تھی کیوں کہ وہ ایک بڑا تخلیق کار تھا۔ منٹو میں ایک اور عادت تھی۔ وہ سب کو چھیڑتا تھا دوست ہوں یا دشمن۔

اس میں اسے بڑا مزا آتا تھا۔ قاسمی لکھتے ہیں ’’ایک دن ن۔م۔راشد سے کہنے لگا تم جب کہتے ہو کہ اے میری ہم رقص مجھ کو تھام لو، تو کیا تم نے مغربی رقص کیا ہے؟ میں نے کیا ہے اس لیے آؤ میرے ساتھ دو تین steps رقص کرو۔ ابھی بھرم کھل جائے گا۔ کرشن چندر پر نظر پڑتی تو کہتا تھا یہ شخص ہر انسان کو خوش رکھنا چاہتا ہے۔ بھئی کسی کے ساتھ تھوڑی بہت کشیدگی بھی ہونی چاہیے۔ کرشن تم تو ادیبوں کے مہاتما بدھ ہو۔ ایک روز میں منٹو کے گھر میں اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا جب اس دور کا ایک معروف شاعر وشوا متر عادل مجھ سے ملنے آیا، بولا، جب میں نے سنا کہ آپ دہلی آئے ہوئے ہیں اور منٹو کے ہاں ٹھہرے ہیں تو میں ایک لفظ کا تلفظ معلوم کرنے حاضر ہو گیا۔ یہ بتائیے لفظ گنڈیری ہے یا ڈال پر تشدید ہے اور اسے گنڈّیری لکھنا چاہیے۔ منٹو نے پوچھا کہ یہ لفظ کہاں استعمال کرو گے۔ عادل نے بتایا کہ یہ لفظ اس کی ایک نظم میں وارد ہو رہا ہے۔ منٹو یہ سن کر بولا ’’احمق آدمی جس نظم میں تم گنڈیری لاؤ گے وہ بھی کوئی نظم ہو گی۔ تم شاعری کی بجائے گنڈیریوں کا خوانچہ کیوں نہیں لگا لیتے؟‘‘

منٹو نے ایک شام اپنے دوستوں کو ڈرنک پارٹی میں مدعو کیا۔ احمد ندیم قاسمی سے اصرار کیا کہ وہ بھی ان کے ساتھ چلیں۔ قاسمی صاحب کا بھلا اس پارٹی سے کیا واسطہ تھا لیکن منٹو کے بہت زور دینے پر چلے گئے۔ پارٹی میں فیض، ن۔م۔راشد، کرشن چندر، اوپندر ناتھ اشک، مولانا چراغ حسن حسرت، راجندر سنگھ بیدی، ممتاز مفتی سب ہی تھے۔ جب یہ سب سرور میں آئے تو مولانا حسرت کہنے لگے کہ اس محفل میں شعرا بھی موجود ہیں تو کیوں نہ ان سے ایک ایک غزل سن لی جائے۔ قاسمی  لکھتے ہیں ۔ ’’غزلیں سنائی جانے لگیں۔ جب راشد کی باری آئی تو انھوں نے معذرت کی کہ وہ تو غزل کہتے ہی نہیں۔ اس پر مولانا حسرت نے کہا، دیکھو راشد غزل ضرور کہا کرو۔ نہیں کہو گے تو ایک وقت آئے گا جب قافیے کی جستجو میں تمہارا یہ عالم ہو گا کہ آگے آگے قافیہ دوڑ رہا ہو گا اور اسے پکڑنے کے لیے پیچھے پیچھے تم بھاگ رہے ہوگے مگر قافیہ تمہارے ہاتھ نہ آئے گا۔‘‘

احمد ندیم قاسمی کو ضمیر جعفری سے پیار تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ان جیسے کھرے، سونے کی مانند تابندہ اور درخشندہ انسان بہت کم گزرے ہوں گے۔ محبت اور اپنائیت ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔ ضمیر غضب کے محفل آرا تھے، وہ لطیفے بازی نہیں کرتے تھے، باتوں باتوں میں لطیفے تخلیق کرتے جاتے تھے۔ اوچھے وار کا بھی وہ سلیقے سے جواب دیتے تھے۔ ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’شاعروں کی ایک پرہجوم محفل تھی۔ ضمیر شمع محفل بنے بیٹھے تھے۔ جب حفیظ جالندھری بولے، ’’ضمیر! یہ تو نے اپنے مجموعہ کلام کا نام ’’مافی الضمیر‘‘ کیوں رکھا۔ اس مجموعہ کا مناسب نام تو ’’بے ضمیر‘‘ تھا‘‘۔ ضمیر فوراً بولے، ’’قبلہ، یہ عنوان بھی میرے ذہن میں آیا تھا مگر پھر میں نے سنا کہ آپ اپنی خود نوشت سوانح عمری لکھ رہے ہیں۔ چنانچہ میں نے یہ عنوان اس کے لیے رہنے دیا‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔