علم و حکمت کے خزانے

نسیم انجم  جمعـء 21 فروری 2014
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

مسلمانوں کے عروج و زوال کی کہانی علامہ اقبالؔ نے اللہ تعالیٰ کی زبان میں کیا خوب بیان کی ہے کہ

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

تاریخ انسانی گواہ ہے کہ جب تک مسلمان قرآن و سنت پر من حیث القوم عمل پیرا رہے وہ نہ صرف سیاسی طور پر دنیا میں عروج پر رہے بلکہ عصری علوم و فنون میں بھی دنیا کے امام بنے اور دنیا کی اقوام کا بھی یہ حال تھا کہ سائنس و ٹیکنالوجی سمیت جملہ علوم و فنون سیکھنے کے لیے مسلم ممالک کی درسگاہوں کا اسی طرح رخ کیا کرتی تھیں جیسے آج کے مسلمان عصری علوم و فنون سیکھنے کے لیے مغربی ممالک کی طرف دیکھتے ہیں۔ نیز مسلمانوں کے عروج کے زمانے میں آج کا ترقی یافتہ مغرب اور یورپ تاریکی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، جسے وہ خود بھی تاریک دور کے نام سے یاد کرتے ہیں مسلمانوں کا زوال اس وقت شروع ہوا جب وہ قرآن و سنت سے دور ہوتے چلے گئے۔

درج بالا سطور ایک اسلامی کتاب ’’پیغام قرآن و حدیث‘‘ سے اخذ کی گئی ہیں مضمون کا عنوان ’’قرآن اور مسلمانوں کا عروج و زوال‘‘ جسے مصنف نے دیباچے کے طور پر لکھا ہے، مذکورہ کتاب ضخامت کے اعتبار سے 468 صفحات پر مشتمل ہے کتاب کے مولف جناب یوسف ثانی ہیں، ان کے نام اور دین اسلام سے محبت کا ہی کرشمہ ہے کہ انھوں نے اس قدر خوبصورت کتاب کی تالیف و ترتیب کی ذمے داری احسن طریقے سے انجام دی ہے۔ قرآنی آیات کا ترجمہ بے حد آسان الفاظ اور واقعات کی شکل میں مختصراً بیان کیا گیا ہے، اسی طرح قاری کے لیے سہولت ہے کہ وہ کم سے کم وقت میں ایک مکمل بیان آسانی کے ساتھ پڑھ سکتا ہے مثال کے طور پر یہ عنوانات (1)۔بڑا ظالم شخص کون ہو گا۔ (2)۔مشرق و مغرب سب اللہ کے ہیں۔(3)۔حضرت ابراہیمؑ کی آزمائش، ’’اللہ کا رنگ سب سے بہتر ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ چار پانچ سطروں میں قرآنی آیات کا ترجمہ و تفسیر مختصراً لکھا گیا ہے کہ آسانی سے سمجھ میں آ سکے یقینا قرآن پاک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ زندگی گزارنے کے تمام طریقے قرآن پاک میں موجود ہیں۔ اگر کسی کو قرآن پاک کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنی ہو تو دوسری اہم کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی بے مثال ہے۔ ایسے بڑے اور عظیم کاموں کا کرنا خوش نصیب لوگوں کے ہی حصے میں آتا ہے اللہ جس پر اپنی مہربانی اور ہدایت عطا فرمائے اس معاملے میں جناب یوسف ثانی تحسین کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اللہ کے حکم سے ایک بڑا کام بغیر کسی لالچ، طمع یا نمود و نمائش کے انجام دیا۔ ان کی یہ کتاب یقینا قارئین کرام کے لیے استفادے کا باعث بنے گی۔

ایک بڑی اہم کتاب بعنوان ’’اذان‘‘ منصہ شہود پر آئی ہے۔ ’’اذان ‘‘ کے شاعر رحمن کیانی ہیں جو اپنے پاکیزہ خیالات اور حب الوطنی کے حوالے سے اپنے چاہنے اور قدر کرنے والوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور مرحوم رحمن کیانی سے محبت کرنے والوں نے ہی اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے۔ بقول شبیر احمد انصاری (مدیر ماہنامہ نفاذ اردو) ’’اذان‘‘ کی ترتیب و پیشکش کا قابل ستائش تہذیبی فریضہ رحمن کیانی میموریل سوسائٹی کے بانی و صدر جناب میر واصف علی نے انجام دیا ہے اور پیش لفظ جناب میر واصف علی نے لکھا ہے مضمون کا عنوان ہے ’’شاہین سے مانگیے نہ چلن عندلیب کے‘‘ وہ رحمن کیانی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ صاحب سیف بھی تھے اور صاحب قلم بھی اور دونوں محاذوں پر ان کا کردار سپاہی کا تھا، رحمن کیانی اپنی یادداشتوں میں لکھتے ہیں کہ تحریک پاکستان شروع ہوئی تو میرا لڑکپن جوانی سے مل رہا تھا اس وقت تحریک پاکستان میں حصہ لیا، بھری جوانی میں پاکستان بنا تو آگ اور خون کا دریا پار کیا اور زندگی کا بہترین حصہ ایک سپاہی کی حیثیت سے پاک فضائیہ کے ساتھ گزار دیا، افسوس کہ جب جوانی بڑھاپے سے ہم آغوش ہو رہی تھی، آدھا پاکستان پرائیوں کی سازش اور اپنوں کی غداری کی بھینٹ چڑھ گیا، دل ٹوٹ گیا اور بڑھاپے نے سپاہی کی وردی بھی اتروا لی تحریکی مزاج اور سپاہیانہ طبیعت کے ساتھ اللہ نے ذوق شاعری سے نواز رکھا تھا میری شاعری اور تحریک پاکستان کی ابتدا ساتھ ساتھ ہوئی اپنی شاعری کے بارے میں انھوں نے کیا خوب فرمایا ہے:

رومیؔ ہوں نہ رازیؔ ہوں‘ سعدیؔ نہ غزالیؔ ہوں
بیدلؔ ہوں نہ غالبؔ ہوں‘ اقبالؔؔ نہ حالیؔ ہوں
انسان ہوں ناطق ہوں‘ شاعر ہوں غزل خواں ہوں
اک قاری قرآں ہوں اک مردِ مسلماں ہوں

ان کے پانچ شعری مجموعے شایع ہوئے انھوں نے اپنی شعری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مذہب و ملت اور عشق رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے اپنے افکار کو شاعری کے پیکر میں بڑی محبت و عقیدت کے ساتھ ڈھالا ہے، ان کی شاعری میں وطن دشمنوں اور اسلام دشمنوں کی سازشوں کی نشان دہی نمایاں ہے۔ ان کی ایک نظم کا عنوان ہے ’’اقصیٰ میں آگ‘‘ کس قدر دردمندی کے ساتھ انھوں نے یہ اشعار تخلیق کیے ہیں:

لعنت خدا کی گردش لیل و نہار پر
آپس کی رنجشوں پہ‘ دلوں کے غبار پر
نسل و وطن‘ زبان کے اس خلفشار پر
اے ملت وحید! ترے انتشار پر
یہ دن دکھا دیا ہمیں چرخ کبود نے
اقصیٰ میں آ کے آگ لگا دی یہود نے

انھوں نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی قربانیوں اور اوصاف حمیدہ کے بارے میں دل میں اترنے والے اشعار تخلیق کیے ہیں اور یہ ایک طویل نظم ہے۔ رحمن کیانی کی مکمل شاعری کا خمیر اسلامی افکار اور حب الوطنی سے اٹھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے دیس کی کامیابیوں اور ناکامیوں پر نوحہ گر نظر آتے ہیں۔ وہ قلم و شمشیر کی حرمت سے اچھی طرح واقف تھے انھوں نے دونوں کا استعمال نہایت سلیقے اور محبت کے ساتھ کیا ہے۔ ایک طویل عرصے بعد ’’نزول8‘‘ موصول ہوا ہے، ہو سکتا ہے کہ اس کی اشاعت باقاعدگی کے ساتھ ہو رہی ہو لیکن ڈاک کے ناقص نظام کی وجہ سے ہم تک نہ پہنچا ہو۔ بہرحال عرض اتنا کرنا ہے کہ سابقہ پرچوں کی ہی طرح اس کی ضخامت اور شان بان قائم و دائم ہے (گوجرہ سے نکلنے والا) 368 صفحات کا پرچہ اپنی انفرادیت کے حوالے سے ایک علیحدہ شناخت رکھتا ہے، جرائد کی طرح کمپوزنگ کی غلطیاں جو کہ کم ہیں، لیکن موجود ہیں، اس کے مدیر اعلیٰ سید اذلان شاہ ہیں۔ پرچے میں چودہ کتابوں کے سرورق بھی شایع کیے گئے ہیں، ٹائٹل دیدہ زیب ہیں اور قارئین کو نہ کہ متوجہ کرنے کے لیے کافی ہیں بلکہ تجسس کو بڑھا رہے ہیں، مدیر اعلیٰ سید اذلان شاہ کی ہمیشہ سے یہی کوشش رہی ہے کہ پرچے کے معیار کو بھی قائم رکھیں اور اچھوتی و دلکش تحریروں سے مرصع کریں۔ شعر و سخن ہو یا تنقید و تبصرہ ہر تحریر اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے اور بعض فقرے اور اشعار غور و فکر کی بھی دعوت دیتے ہیں اہل بصیرت ادب کے گلستاں سے کچھ پھول اور کلیوں سے اپنا دامن ضرور بھرتے ہیں اور ادبی سفر کے دوران تلخ تجربات سے بھی گزرنا پڑتا ہے لیکن اس قسم کے تجربات انھیں بہت کچھ سکھاتے ہیں۔

’’نزول‘‘ کا اداریہ بھی قابل مطالعہ ہے، انھوں نے ادبی بددیانتی اور ادبی مجلوں کے مدیران کے افسوسناک رویے کے بارے میں بھی اظہار خیال کیا ہے کہ مدیران کا آپس میں کوئی تعلق نہ رکھنا خوش آیند بات نہیں ہے ساتھ میں حکومتی اداروں کے ایوارڈز پروگرامز اور کانفرنسیں، ٹی وی چینلز کے پروگرامز سب میں کسی نہ کسی طرح حق تلفی ضرور کی جا رہی ہے۔ وہی مخصوص چہرے، وہی کام کرنے کا لگا بندھا انداز، حتیٰ کہ سال میں ایک بار منعقد کیے جانے والے ڈویژنل مشاعروں کی کانوں کان خبر نہیں ہونے دی جاتی کچھ نہیں معلوم کہ میرٹ لسٹ کیا ہے؟

بھائی اذلان شاہ نے بالکل درست فرمایا دوسرے اداروں کی طرح ادبی و ثقافتی پروگراموں میں بھی غیر منصفانہ رویے کو بہت زیادہ دخل ہے صاحب اختیارات کا یہ عمل بہت سے قابل قدر شعرا اور ادبا کے ساتھ زیادتی کا مترادف ہے۔ مذکورہ پرچے میں پڑھنے کو بہت کچھ ہے۔ یقیناً یہ محنت اور ادب سے سچی محبت کا ثمر ’’نزول‘‘ کی شکل میں موجود ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔