بھارت کی ہٹ دھرمی

شبیر احمد ارمان  جمعـء 21 فروری 2014
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

’’دنیا کے دیگر تنازعات کی طرح ہمارے دفاتر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے لیے پاکستان اور بھارت کی جانب سے درخواست کی ضرورت ہے‘‘۔ (اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کے قائم مقام نائب ترجمان فرحان حق کی صحافیوں کے ساتھ بات چیت۔ 8 فروری 2014ء) فرحان حق نے یہ جواب صحافیوں کے اس سوال پر دیا ہے کہ ’’آیا اقوام متحدہ کے چیف، بھارت کو تجویز دیں گے کہ وہ بیٹھ کر پاکستان سے اس مسئلے کے حل کے لیے بات کریں گے؟‘‘ اس بیان کے دوسرے روز یعنی 9 فروری کو بھارت نے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی جانب سے ثالثی کے بیان کو مسترد اور مقبوضہ کشمیر کو اٹوٹ انگ کہنے کا راگ الاپتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس مسئلے پر کسی تیسرے فریق کی مداخلت برداشت نہیں کرے گا۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان کی جانب سے میڈیا کو جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کے جس ترجمان نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے حوالے سے بیان جاری کیا ہے وہ پاکستانی باشندہ ہے، بھارت اپنے اصولی موقف پر قائم ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے اور مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ سمیت کسی تیسرے فریق کو مداخلت کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا، ماضی میں بھی پاکستان کی جانب سے کشمیر کے بارے میں اس طرح کے بیانات دیے گئے جنھیں بھارت نے بار بار مسترد کیا ہے اور اقوام متحدہ کے ترجمان کے بیان کو بھی ہم ماننے کے لیے تیار نہیں اور اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں‘‘۔ واضح رہے کہ بھارت ہمیشہ سے پاکستان کے ساتھ کشمیر ایشو پر اقوام متحدہ کی مداخلت کو مسترد کرتا آیا ہے جب کہ پاکستان اقوام متحدہ کی ثالثی اور قراردادوں کے مطابق حل چاہتا ہے۔

مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے پاکستان کا موقف عالمی اصول پر مبنی ہے کہ مسئلہ کشمیر کا واحد حل ’’مذاکرات‘‘ ہے اور پاکستان برملا اس امر کا ذکر کرتا رہتا ہے کہ وہ کشمیریوں کو سیاسی و اخلاقی مدد دیتا ہے جو اس کی کشمیر پالیسی کا جزو ہے اور کشمیر میں جاری کشمیریوں کی جدوجہد خود بھارتی حکومتوں کی ظالمانہ کارروائیوں کا نتیجہ ہے اگر بھارت کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں پر عمل درآمد کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ ’’مسئلہ کشمیر‘‘ پرامن طور پر حل نہ ہو جائے لیکن بھارت نصف صدی سے زائد عرصے سے جموں و کشمیر پر قابض ہے جب کہ 19 جولائی 1947ء کو مسلمانوں کی نمایندہ جماعت ’’مسلم کانفرنس‘‘ نے ایک قرارداد کے تحت پاکستان سے الحاق کا رسمی اعلان کر دیا تھا اور مہاراجہ ہری سنگھ جو کہ کانگریس سے ملا ہوا تھا، اس نے بزعم خویش کشمیری عوام کو اعتماد میں لیے بغیر 27 اکتوبر 1947ء کو کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا تھا۔ مہاراجا ہری سنگھ کے اس من مانے فیصلے کے نتیجے میں پہلی جنگ ہوئی، کشمیری حریت پسندوں نے آزادی کی جنگ شروع کر دی تو بھارت خود اقوام متحدہ پہنچ گیا۔

1949ء میں اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرائی اور ایک قرارداد کے ذریعے کشمیر میں استصواب رائے کے لیے کہا اور بھارت نے اپنی افواج نکالنے اور کشمیر میں استصواب رائے کرانے کا اقوام متحدہ میں وعدہ کیا مگر آج تک اپنے اس عالمی وعدے کو وفا کرنے میں ناکام ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر مسئلہ کشمیر دنیا کی توجہ کا مرکز بنا تو اس سے بوکھلا کر بھارت نے 6 دسمبر 1965ء کو اچانک پاکستان پر حملہ کر کے اس پر جنگ مسلط کر دی، سوویت یونین کی مداخلت سے جنگ بندی ہوئی۔ اس طرح ایک بار پھر بھارت کو منہ کی کھانی پڑی۔ وقت گزرتا رہا لیکن بھارت کے زخم تازہ تھے۔ مشرقی پاکستان میں مداخلت کر کے پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانے میں پیش پیش تھا۔ 1971ء میں بھارت نے پاکستان پر جنگ مسلط کی اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ لیکن اس حصے کو لاکھ کوشش کے باوجود بھارت میں ضم کرنے میں ناکام رہا اور یہی دو قومی نظریے کی حقیقت ہے جو بھارت کے لیے قابل تکلیف بات ہے۔ پھر اسی جنگ کے نتیجے میں 1972ء میں پاکستان اور بھارت نے شملہ سمجھوتے پر دستخط کیے جس میں تمام معاملات بالخصوص مسئلہ کشمیر کو پرامن طور پر حل کرنے کا عہد کیا گیا لیکن بھارت مسلسل مذاکرات سے فرار ہوتا رہا اور کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا رہا۔

1989ء میں کشمیر میں نام نہاد الیکشن کرائے گئے جس کا کشمیری عوام نے بائیکاٹ کیا اور آزادی کی تحریک شروع کی۔ بھارت نے ایک بار پھر دنیا کو دھوکہ دینے کے لیے 1996ء میں وادی میں نام نہاد الیکشن کا ڈھونگ رچایا جس کا کشمیری عوام نے ایک بار پھر بھرپور انداز میں بائیکاٹ کیا۔ عالمی دباؤ کے نتیجے میں 1999ء میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے لاہور کا دورہ کیا اور اعلان لاہور کے تحت پاکستان اور بھارت ایک بار پھر تمام معاملات بالخصوص مسئلہ کشمیر کو پرامن طور پر حل کرنے کا عہد کیا۔ اس اثنا میں کارگل کا مسئلہ سامنے آیا جس سے مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر فلیش پوائنٹ بن گیا۔ امریکی مداخلت کے باعث اور مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے تحت حل کرانے کی یقین دہانیوں کے تحت 24 جولائی 2000ء کو حزب المجاہدین نے جنگ بندی کا اعلان کیا مگر مسلسل جموں کشمیر میں بھارتی وحشیانہ قتل و غارت گری اور دل سوز مظالم کے باعث 8 اگست 2000ء کو یہ اعلان واپس لے لیا گیا اس طرح بھارتی مظالم شدت اختیار کرتے چلے گئے۔

عالمی دباؤ کے نتیجے میں 23 مئی 2001ء کو بھارت نے پاکستان کے (اس وقت کے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف) کو مذاکرات کے لیے دہلی آنے کی دعوت دینے کا فیصلہ کیا اور 25  مئی 2001ء کو باضابطہ دعوت نامہ جاری کیا گیا جس کا پاکستان نے مثبت جواب دیا اور بھارتی وزیر اعظم واجپائی نے چیف ایگزیکٹو پاکستان جنرل پرویز مشرف کے جواب میں اطمینان کا اظہار کیا اسی دوران چیف ایگزیکٹو پاکستان جنرل پرویز مشرف نے بحیثیت صدر مملکت پاکستان کے حلف اٹھایا اور اسی حیثیت سے مذاکرات کے لیے دہلی روانہ ہوئے۔ مجوزہ امن مذاکرات جو جولائی 2001ء میں آگرہ میں ہوئے۔ جس کا نتیجہ ایل کے ایڈوانی کی مہربانیوں سے یہ نکلا کہ مجوزہ مذاکرات کا مسودہ متعدد بار تبدیلیوں کے بعد تیار ہوا لیکن بھارت حسب روایت ہٹ دھرمی پر اتر آیا۔ بقول اس وقت کے صدر مملکت جنرل پرویز مشرف کے ’’حالانکہ ایک میز اور دو کرسیاں معاہدے پر دستخط کے لیے رکھی جا چکی تھیں‘‘۔

اس کے بعد بھی پاکستان اور بھارت کے مابین مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا ہے جسے ’’اعتماد سازی‘‘ کا نام دیا گیا لیکن یہ بات چیت بھی غیر مفید رہی۔ ان تمام تاریخی حوالوں سے یہی بات عیاں ہے کہ بھارت مذاکرات کی میز سے گھبراتا رہا ہے اور اس سے فرار ہونے کا راستہ تلاش کرتا رہتا ہے۔ کبھی کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے تو کبھی کشمیر پر ظلم و بربریت کا بازار گرم کر دیتا ہے۔کبھی پاکستان کو جنگ کی دھمکی دیتا ہے تو کبھی پاکستان پر جنگ مسلط کر دیتا ہے۔ کبھی نت نئے خودساختہ فلاپ ڈرامے اسٹیج کرتا رہتا ہے، پاکستان پر الزام لگاتا ہے کہ وہ سرحد پار دہشت گردی میں ملوث ہے اور کبھی مطالبہ کرتا ہے کہ فلاں کو ہمارے حوالے کرو پھر مذاکرات ہو سکتے ہیں۔دنیا جانتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل مذاکرات ہے اس لیے ان کا دباؤ بھارت کی جانب ہے کہ بھارت پاکستان سے مذاکرات کرے لیکن بھارت ایک بار پھر مذاکرات سے فرار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن آخر کب تک؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔