فرانسیسی انقلاب

عمران شاہد بھنڈر  جمعـء 21 فروری 2014
ibhinder@yahoo.co.uk

[email protected]

1789ء کے فرانسیسی انقلاب سے جو علمی و فکری نظریات سامنے آئے، انھوں نے روایتی مسیحی الٰہیات کی غالب تشریحات کو ان کی جڑوں سے ہلا کر رکھ دیا، ان میں سے ایک انتہائی طاقتور فکری رجحان فلسفۂ الحاد تھا، جس کو زیادہ بہتر طریقے سے اٹھارویں صدی کے فرانسیسی سماجی و تاریخی حقائق کے ساتھ جوڑ کر، نہ کہ اس سے علیحدہ کر کے سمجھا جا سکتا ہے۔ قدامت پسندانہ اور رجعتی فکری و نظریاتی رجحانات کو اسی وقت خطرہ درپیش رہتا ہے جب وہ سماجی و تاریخی سچائیوں سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں اور محض اپنی حاکمیت کو برقرار رکھنے کے لیے ظلم و بربریت کی علامت بن جاتے ہیں۔ فرانسیسی انقلاب بھی ایسے ہی ظلم و جبر اور دہشت و بربر یت کے نتیجے میں برپا ہوا تھا۔ انقلاب سے کچھ عرصہ قبل فرانس کے شہر پیرس کے مشرق میں بادشاہوں کے انتہائی مضبوط قلعے موجود تھے۔ یہ قلعے ظلم و تشدد، دہشت و بربریت، اور جبر و استبداد کی علامت بن چکے تھے۔

صنعتی انقلاب سے قبل فرانس میں اشرافیہ اور ان کے ظلم و جبر اور دہشت و بربریت کو فکری و نظریاتی جواز فراہم کرنے والے پادری ہوا کرتے تھے۔ وہ مسیحی الٰہیات کے نام پر عوام کو اپنی حاکمیت کو برقرار رکھنے کی خاطر جنت کی بشارت تو دیا کرتے تھے، مگر ان کی حالتِ زار کی تبدیلی کے خواہش مند نہیں تھے۔ صنعتی انقلاب کے ارتقا سے متوسط طبقات وجود پذیر ہوئے جن کے مفادات براہِ راست بدعنوان، ظالم و جابر اور دہشت پسند اشرافیہ اور کلیسا سے ٹکرانے لگے، جب ظلم و بربریت کی علامت اشرافیہ اور پادریوں اور متوسط طبقات کے درمیان کشمکش بڑھی تو متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے باشعور مردوں اور عورتوں پر مشتمل تقریباََ ایک ہزار افراد نے اشرافیہ کے قلعوں کا محاصرہ کیا اور دس فٹ موٹی اور سو فٹ اونچی دیواروں کو مسمار کر کے اشرافیہ اور ان کے حمایتی درباری دانشوروں یعنی پادریوں کو ان کے خیالات سمیت نشانِ عبرت بنا دیا۔ اشرافیہ اور پادریوں کے انہدام سے یہ فکر پروان چڑھی کہ کائنات میں کچھ بھی جامد نہیں ہے، کوئی نظام حتمی نہیں ہے، کوئی ہستی مقدس نہیں ہے، ہر شے متغیر ہے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مغرب میں مسیحی الٰہیات زوال پذیر ہوئی اور الحاد ایک مضبوط فلسفے کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ جب تک مسیحی پادریوں کے ظلم و استبداد اور دہشت و بربریت کی داستان کو نہ سمجھا جائے اس وقت تک الحاد کی نظریاتی بنیادوں کی تفہیم بھی ممکن نہیں ہے۔

جدید الحاد کا ظہور و ارتقا سماجی و معاشی ناہمواریوں کا شاخسانہ ہے۔ الحاد کی فتح حقیقت میں اس مسیحی الٰہیات کی شکست تھی جو ظلم و استحصال کی علامت بن چکی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فرانسیسی انقلاب کے تقریباََ دو سو برس بعد تک مسیحیت زوال کا شکار ہوئی اور الحاد مختلف اشکال میں مغرب میں پنپتا رہا۔ یہ نکتہ ذہن نشین رہنا بہت ضروری ہے کہ ملحدانہ خیالات کے ارتقا میں عقلیت پسندی کا زیادہ کردار نہیں تھا، بلکہ یہ پادریوں کے ظلم و بربریت کی حمایت کے ردِ عمل کے طور پر پروان چڑھا تھا۔ پادری اور اشرافیہ سماجی و سیاسی صورتحال کو جوں کا توں رکھنا چاہتے تھے، جب کہ تبدیلی صنعتی ارتقا سے ناگزیر ہو چکی تھی۔ پادریوں نے جب اشرافیہ کی حمایت کی تو انقلابی قوتوں پر یہ تاثر لازمی تھا کہ مسیحی الٰہیات ظلم کی عکاس ہے، اس میں سماجی تبدیلی و تغیر سے ہم آہنگ ہونے کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ متوسط طبقہ جو ظہور میں آ کر ایک قوت بنتا جا رہا تھا اسے وہ دیکھنے کے لیے تیار نہ تھے۔ پادریوں کی یکطرفہ مسیحی تشریحات کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسیحی الٰہیات کو مسترد کر کے انسان کو مرکز میں لا کھڑا کیا گیا اور سماجی و معاشی مسائل کا حل ماورائے عقل ’کشف و الہام میں تلاش کرنے کی بجائے عقلیت کے ذریعے تلاش کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں۔

انقلاب سے قبل مسیحی پادری Jean Meslier جب 1733ء میں فوت ہوا تو اسی برس اس کی باکمال تصنیف ’’عہد نامہ‘‘(Testament)  شایع ہو کر کلیسا کے ’’کارناموں‘‘ کی تفصیل پیش کر چکی تھی۔ میسلیئر مسیحیت پر انتہائی سخت حملہ کرتے ہوئے پادریوں کو بدعنوانی، ظلم و ناانصافی، جبر و استحصال، دہشت و بربریت، اخلاقی تنزلی اور فکری انحطاط کی علامت کے طور پر پیش کرتا ہے۔ فرانسیسی انقلاب کے دو اہم ترین پیش رو والٹیئر اور دیدیرو مسیحیت کے انتہائی سخت ناقد ہونے کے باوجود الحاد کے نمایندے نہیں تھے۔ ان کے نزدیک مذہب عقلیت سے متصادم نہیں ہے جب کہ ایک اور اہم ترین مفکر روسو مذہب کو عقلیت کی بجائے احساس سے جوڑ کر پیش کرتا ہے۔ ان کے برعکس ہولباخ ، ہیلویٹیس اور لامیتری جیسے مادیت پسند الحاد کے اہم ترین نمایندے بن کر سامنے آتے ہیں۔ مختصر یہ کہ اٹھارویں صدی کی مسیحیت کی دہشت و بربریت کی حمایت میں کی گئیں تشریحات  کے ردِ عمل کے طور پر رونما ہونے والے نظریات سے انسانی فکر کے بہت سے در کھلے۔ اذعانی مسیحیت کا خاتمہ ہوا، مسیحیت کو عقلیت سے ہم آہنگ کیا گیا۔ اس کی سب سے جامع مثال کے طور پر جرمنی کے عمانوئل کانٹ، فختے، شیلنگ، ہیگل اور جیکوبی سمیت بہت سے دوسرے فلسفیوں کو پیش کیا جا سکتا ہے کہ جن کا الحاد سے کوئی واسطہ نہیں تھا، وہ کسی نہ کسی سطح پر مسیحیت کی ازسرِ نو عقلی تشکیل کے خواہاں رہے ہیں۔

یہ درست ہے کہ فرانسیسی انقلاب اپنی سرشت میں ملحدانہ تھا، فرانسیسی انقلاب کی بنیادی وجوہ میں اشرافیہ اور کلیسا کا ظلم و تشدد، دہشت و بربریت اور جبر و استحصال شامل تھا۔ یہی بعد ازاں ردِ انقلابی قوتیں بن کر ابھریں۔ چرچ کو ختم کرنے کے لیے متشددانہ منصوبہ بندی کی گئی۔ چرچ کو قومی تحویل میں لے کر کیتھولک فرقے کو مجبور کیا گیا کہ وہ انقلاب کے ان خیالی آدرشوں کی پاسداری کرے کہ جن کی وجہ سے انقلاب ممکن ہوا۔ جیکوبن کے برسرِ اقتدار آنے سے چرچ کے خلاف اسی دہشت و بربریت کو ایک پالیسی کے طور پر اختیار کر لیا گیا کہ جس کے ردِ عمل میں انقلابی قوتیں وجود میں آئی تھیں۔ شکلیں تبدیل ضرور ہوئیں مگر ظلم و تشدد اپنی جگہ پر قائم رہا۔ انقلاب کا راہنما میکسی میلن رابسپیئر اگرچہ مسیحی عقیدے کے منظم قتال کا مخالف تھا، کیونکہ اس سے ردِ انقلابی قوتوں کے مضبوط ہونے کے امکانات تھے، مگر بیرن ڈی کلوٹس کٹر ملحد تھا اور مسیحی عقائد کے حامل لوگوں کے قتال کے عمل کے حق میں تھا۔ مختصر یہ کہ ملحدوں نے منظم انداز میں ظلم و بربریت کے وہی مراکز قائم کیے جن کے خلاف وہ صف آرا ہوئے تھے۔ وہ فراموش کر گئے کہ الحاد کا حقیقی امتحان یہ ہے کہ وہ ظلم و تشدد، ناانصافی اور عدم مساوات جیسی برائیوں کو منہدم کرے۔ محض ملحد کا لاحقہ کسی اخلاقی نمونے کا پاسدار نہیں ہے۔

الحاد کا حقیقی امتحان مذاہب کے خاتمے میں نہیں بلکہ غربت و افلاس، ظلم و تشدد وحشت و بربریت کے خاتمے میں ہے۔ مسیحیت کو ختم کرنے کی ان کی کوششیں وقتی طور پر کامیاب ہوئیں مگر بیسویں صدی ہمارے سامنے مسیحیت کی ازسرِ نو تشکیل کی گواہی دیتی ہے۔ بیسویں صدی کے آخر میں فرانسس فوکویامہ ہمیں باور کراتا ہے کہ امریکی لبرل جمہوریت حقیقت میں جرمن فلسفی جارج ہیگل کے اس کی کتاب ’’اسپرٹ کی مظہریات‘‘ میں پیش کیے گئے ان خیالات کا عکس ہے جن کے تحت آقا اور غلام محض اپنی’’ شناخت‘‘ کے لیے برسرِپیکار ہوتے ہیں ۔ فوکویامہ کے خیال میں ’’شناخت‘‘ کی احتیاج مسیحی اخلاقیات میں مضمر ہے، اس احتیاج کی تکمیل مسیحیت کا انہدام نہیں اس کا تسلسل ہے۔ اس تناظر میں فوکویامہ امریکا کو دنیا کی دیگر آئیڈیالوجیز کے نتیجے میں قائم ہونے والی ریاستوں میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ مسیحی ریاست کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ژاک دریدا نے بھی اپنی کتاب ’’سپیکٹرز آف مارکس‘‘ میں امریکا کو ایک مسیحی ریاست کہا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ مسیحی الٰہیات کی وہ تشریح جو فرانسیسی انقلاب سے قبل کلیسا کرتی تھی وہ سماجی ارتقا سے تضاد میں آنے کے باعث باطل قرار پائی، اس کے ساتھ ہی یہ خیال بھی باطل ٹھہرا کہ مسیحیت کو نئے افکار سے ہم آہنگ کر کے اس میں وسعت نہیں لائی جا سکتی۔ اٹھارویں صدی کا مربوط و منظم جرمن فلسفہ مسیحیت کی توسیع کی واضح مثال ہے، جب کہ بیسویں صدی کی امریکی ریاست کا قیام اسی مسیحی آئیڈیالوجی کا تسلسل ہے۔

مغرب میں لوگوں کی اکثریت کسی بھی طرح کے جبر کے بغیر مذہبی عقائد پر عمل پیرا ہے۔ ’’نئے ملحد‘‘ بھی اپنے نظریات کی تبلیغ کے لیے ٹی وی چینلوں پر بیٹھے نظر آتے ہیں، تاہم ان کے انتہا پسندانہ خیالات اور رویوں کی وجہ سے عوام کی اکثریت ان کے خیالات میں کشش محسوس نہیں کرتی۔ ان کی ساری تنقید مسیحیت سے شروع ہو کر مسیحیت پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ اگر وہ مسیحیت کا ذکر نہ کریں تو ان کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا، نہ ہی سماجی ناانصافیوں، استحصال اور ظلم و جبر کو ختم کرنے کا کوئی لائحہ عمل ان کے پاس موجود ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔