روشن مستقبل کا عندیہ

میمونہ حسین  جمعـء 4 مارچ 2022
حکومتی اعلانات روشن مستقبل کا عندیہ دے رہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

حکومتی اعلانات روشن مستقبل کا عندیہ دے رہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

موجودہ سیاسی صورتحال کا موازنہ کریں تو اس وقت عدم اعتماد کی باتیں گردش کررہی ہیں اور مختلف جماعتوں کے لیڈروں کی ملاقاتیں مسلسل جاری ہیں۔ دوسری جانب عوام کو مہنگائی کے لالے پڑے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے قوم کو ریلیف پیکج کا عندیہ دیا ہے۔ جیسے ہی وزیراعظم عمران خان نے قوم کو مہنگائی میں کمی کا عندیہ دیا تو بلاول بھٹو زرداری نے اپنی پوائنٹ اسکورنگ کر ڈالی کہ ابھی لانگ مارچ شروع ہی ہوا تو وزیراعظم پریشر میں آگئے اور پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان کردیا۔

خیر سیاست ہے، کریڈٹ کوئی بھی لے مگر یہ اعلان قابل ستائش بھی ہے۔ جس کام میں ملک و قوم کی بھلائی ہو وہ چاہے کسی بھی جماعت کے ہاتھوں سے ہو، اُس کی تعریف جائز ہے اور کرنی بھی چاہیے۔ اس فیصلے کے یقیناً خوش آئند اور مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اچانک یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہورہا ہے؟ جبکہ عوام تو ایک عرصے سے مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ یہ بات قابل تشویش بھی ہے۔

کچھ حلقے وزیراعظم کے ان اعلانات پر اظہار مسرت کررہے ہیں اور بعض حلقوں کی جانب سے سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ جن حلقوں کی جانب سے سوالات اُٹھائے جارہے ہیں میری نظر میں وہ لوگ کسی حد تک درست بھی سوچ رہے ہیں، کیونکہ اُن کے خیال سے کہیں حکومت یہ اقدامات کسی دبائو میں آکر تو نہیں کررہی۔ کیونکہ ایک طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے عوام کی قوت خرید کے ساتھ ساتھ قوت برداشت بھی جواب دیتی جارہی تو دوسری طرف اپوزیشن کی جانب سے نہ صرف تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریاں ہورہی تھیں بلکہ مہنگائی کے خلاف دھرنے اور مارچ کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔ بے قابو افراط زر کے ستائے عوام کی بڑی تعداد میں ان مارچ میں شریک ہونے کے امکانات پیدا ہورہے تھے۔

جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوتی ہے۔ مگر میں اس بلاگ کی وساطت سے قارئین کو تھوڑا تکنیکی طور پر بتانا چاہوں گی کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کس طرح کمی آئی۔ پہلے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بارہ روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا اور پھر دس روپے اس میں کمی کردی گئی، جو کہ عوام کو بیوقوف بنانے کے مترادف ہے۔ چلیے ہم اس بات پر بھی شاکر ہیں کہ دس روپے تو کم ہوئے۔

اگرچہ حکومت کی طرف سے عوام کےلیے کچھ کیا جانا حوصلہ افزا ہے۔ تاہم معاملہ پھر وہی ہے، یہ سارے اقدامات قلیل مدت اور وقتی ثابت ہوں گے کیونکہ پاکستان میں ایک بار مہنگائی کا اسکیل اپ ہوجائے تو وہ کبھی نیچے کسی ڈگری کو دوبارہ ٹچ نہیں ہوتا۔ ان وقتی اعلانات سے عوام اتنے طویل وقت کےلیے مستفید نہ ہو سکیں گے۔ اصل فائدہ عوام کو تب ملے گا اور ٹھوس تبدیلی اس وقت آئے گی جب عوام کو اپنا روزگار کمانے کے قابل بنایا جائے گا۔ اس کےلیے وزیراعظم نے صنعتی ترقی کو فروغ دینے کےلیے اوورسیز پاکستانیوں کو سرمایہ کاری کی دعوت اور اُنہیں ٹیکسوں سے استثنیٰ و مراعات کا اعلان کیا۔

یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے ملکی معشیت کو بہتر کرنے اور اپنے ملک کی صنعتکاری کو فروغ دینے کےلیے ایک بہترین قدم اُٹھایا۔ مگر میں اس بات پر بھی روشنی ڈالوں گی کہ بہت سے اوورسیز پاکستانی تو ایسے ہیں جو مختلف ممالک میں نوکریاں کرتے ہیں اور یہاں پاکستان میں اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ اُن میں سے چند ایک ہوں گے جو بھاری انویسٹمنٹ کرنے کے قابل ہوں گے۔ زیادہ تر تو نوکریاں کرتے ہیں۔ اس سارے اقدام کےلیے اگر بہتر پالیسی بنا کر یہ اعلان کیا جاتا تو شاید اُس پر عملدآمد بھی کیا جاتا۔ جیسا کہ آپ سب کو یاد ہوگا جب پاکستان میں زرداری دور میں بجلی کا بحران آیا تو بنگلہ دیش نے انڈسٹری ہولڈرز کو کیچ کیا۔ اُن کو سستی بجلی اور ٹیکس سے استثنیٰ فیورز دیں تو بہت سی انڈسٹریز تیزی کے ساتھ بنگلہ دیش شفٹ ہوئیں۔

اگر اس وقت بھی حکومت ادھر اُدھر کے پروجیکٹس پر اربوں لگانے کے بجائے ایک سروے کرے، جس میں اسمال اور میڈیم انڈسٹری کے مسائل کیا ہیں، اُن کو سپورٹ کیا جائے۔ خصوصاً جو انڈسٹری کسی وجہ سے بند پڑی ہے اُس انڈسٹری کو بھی بلا سود قرض دے کر کھڑا کیا جائے۔ اس سے نہ صرف ملکی معیشت پر مثبت اثرات پڑیں گے بلکہ عوام کےلیے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔

اب اگر بات کریں تحریک عدم اعتماد کی تو اقتدار میں رہنا کبھی کسی کو برا نہیں لگتا۔ اپوزیش کا اتحادیوں سے ملنا حکومت کےلیے صرف ایک الارمنگ سچویشن کا بنانا ہے، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ کیونکہ گورنمنٹ بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔ اور اتحادی کبھی اپوزیشن کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے۔ ہاں ملاقاتوں میں اگر کچھ ڈسکس ہوا بھی ہوگا تو وہ صرف آنے والے عام انتخابات کی وقت سے پہلے پلاننگ ضرور ہوسکتی ہے، اس سے زیادہ ملاقاتوں میں کچھ نہیں۔

ایک اہم بات جو اس وقت دکھائی دے رہی ہے حکومت کا عوام میں غیر مقبول ہونے کا باعث بننے والے اُن کے خود کے فیصلے ہیں۔ کیونکہ اس وقت ایک تاثر عوام میں بڑی تیزی سے جارہا ہے کہ حکومت اپنے اوپر تنقید سننے کا حوصلہ نہیں رکھتی۔ اس طرح کے اقدامات حکومت کو راس نہیں آئیں گے، کیونکہ 60 کی دہائی سے ملکی تاریخ دیکھ لیں کہ جس بھی حکومت نے اظہار آزادی رائے پر قدغن لگانے کی کوشش کی غیر مقبولیت اُن کا مقدر بنی۔

اس وقت جو موجودہ حکومتی اعلانات ہیں، اگر حکومت اپنے کیے گئے اعلانات پہ 10 فیصد بھی عملدرآمد کرلیتی ہے تو ہم اس بات سے پرامید ہوسکتے ہیں کہ ملک کو دہرا فائدہ ہوگا۔ ایک عام آدمی کی زندگی پر مثبت اثر پڑے گا، دوسرا ملکی معیشت پر، کیونکہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی بھی مہنگائی کی کمی کا سبب بن سکتی ہے اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بھی کمی متوقع ہے۔ اگر حکومت ملکی انڈسٹری کو کھڑا کرنے کےلیے بہتر پلاننگ کے ساتھ انویسٹمنٹ کروا لیتی ہے تو آنے والا وقت ایک روشن وقت ثابت ہوسکتا ہے، جس سے نہ صرف ملکی معشیت بہتر ہوگی بلکہ عام آدمی کو روزگار بھی میسر ہوگا۔ حکومتی اعلانات تو روشن مستقبل کا عندیہ دے رہے ہیں، خدا کرے کہ یہ اب صرف باتوں تک محدود نہ رہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔