وفاق میں ڈی ایم جی نے اپنا 30 فیصد حصہ صوبائی افسروں کو دے دیا

عامر الیاس رانا  جمعـء 21 فروری 2014
نئے ایس آر او کے تحت صدر پبلک سروس کمیشن کی ایڈوائس پرعمل کے پابند، وزیراعظم کا اختیار بھی محدود. فوٹو: وکی پیڈیا/فائل

نئے ایس آر او کے تحت صدر پبلک سروس کمیشن کی ایڈوائس پرعمل کے پابند، وزیراعظم کا اختیار بھی محدود. فوٹو: وکی پیڈیا/فائل

اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے سول سروسز میں اصلاحات پر جہاں ایک شور اٹھ کھڑا ہوا ہے وہیں حقائق اس کے برعکس ہیں۔

حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی نئی اصلاحات کے نتیجے میں 1973ء کے آئین کی اصل روح کے مطابق سول سروسز میں بھرتی کا اختیار فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو واپس دیدیا گیاہے اورصدرمملکت اب ایف پی ایس سی کی ایڈوائس پر عمل کرنے کے پابند ہون گے۔ نئے ایس آر او کے ذریعے ڈی ایم جی کو پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس میں تبدیل کرنے کے پیپلز پارٹی حکومت کے اقدا م کو بھی قانونی تحفظ دیدیا گیا جبکہ صوبائی سول سروس کے افسران کو وفاق میں ڈی ایم جی نے اپنا تیس فیصد حصہ دیدیاہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ صدر کا اختیار ختم ہونے سے سول سروس میں وزیراعظم کا کردار بھی کم ہو کررہ گیا کیوں کہ صدر تمام اقدامات وزیراعظم کی ایڈوائس پر ہی کرتے ہیں ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکریٹریٹ گروپ جس کا گریڈ 19 میں حصہ 20 فیصد بنتا ہے یوں 55 نشستوں کے بجائے 346 نشستوں کیساتھ حاوی ہے۔

سیکریٹریٹ گروپ کے بعض افسران کا کہنا ہے کہ وزیراعظم سے کچھ افراد نے ایس آر او کا اجرا کروا کے جان بوجھ کر سیکرٹریٹ گروپ کیخلاف فیصلہ لیا جسے وہ عدالت میں چیلنج کرنیکا ارادہ رکھتے ہیں جبکہ دوسری طرف پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس، ڈی ایم جی کے افسران کا کہنا ہے کہ پہلی بار سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ہر سروس کے کیڈر کی تعداد مقرر کردی گئی ہے اور یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ وزیراعظم کو مس گائیڈ کیا گیا۔ وزیراعظم تو خود ڈی ایم جی کا اصل نام سینٹرل سپیرئر سروس آف پاکستان (سی ایس پی ) بحال کرنا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ وفاقی سیکریٹریٹ صرف ڈی ایم جی اور سیکرٹریٹ گروپ کے افسران سے بھرا نہ رہے بلکہ اس میں ہر سروس کے لوگ آنے چاہئیں تاکہ ان کے تجربات سے استفادہ کیا جاسکے۔

سول سروس پاکستان رولز 2014ء پاکستان کی تاریخ میں ایک نمایاں سنگ میل ہے کیونکہ اس کے ذریعے ہر کسی کاکچھ نہ کچھ فائدہ موجود ہے، اس کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ سروسز رولز بناتے ہوئے نشستوں کی تقسیم کو زیر بحث لایا گیا ہے اور فیڈرل سیکرٹریٹ میں تمام گروپس کو نشستیں دی گئی ہیں، اس طرح کے انتظامات کے دو نمایاں پہلو ہیں ،ایک اس کی مدد سے تمام گروپس کی ترقیوں میں تیزی آئے گی اور دوسری طرف یہ انتظامات ان تمام قانونی سوالات کو بھی حل کرینگے جو سپریم کورٹ کے سامنے فیڈرل سیکرٹریٹ میں افسران کی تقرریوں کے حوالے سے اٹھائے گئے ہیں ،گریڈ 20  اور 21 میں ترقیوں کے حوالے سے یہ واضح کیا گیا ہے کہ جوائنٹ سیکرٹری کے عہدوں کا 65 فیصد سیکریٹریٹ گروپ اور دوسروں کیلیے مخصوص کر دیا گیا ہے اور سینئر جوائنٹ سیکرٹری کی سو فیصد نشستیں سیکرٹریٹ اور دوسروں کیلیے مخصوص کر دی گئی ہیں ۔

نئی اصلاحات سے باقی گروپس جن میں کسٹم، آئی آر ایس، اکائونٹس، کامرس اینڈ ٹریڈ، انفارمیشن اور پوسٹل شامل ہیں سب نے وفاقی سیکرٹریٹ میں حصہ ملنے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ نئے قواعد کے ذریعے سے پی سی ایس افسران کی پاکستان ایڈمنسٹریٹوگروپ میںتعیناتی ہو سکے گی ۔ پی سی ایس افسران کا اصرار تھا کہ ان کی تقرری کے 1954ء کے رولز کو بحال کیا جائے ،1954ء کے رولز کے مطابق پی سی ایس افسران کی فیڈر ل میں 20 فیصد تقرری ہو سکتی تھی ،نئے رولز کے تحت انہیں گریڈ 19 میں 30 فیصد حصہ دیا گیا ہے اور پی سی ایس افسران ایف پی ایس سی کے کھلے مسابقتی عمل کے ذریعے گریڈ 19 میں آسکتے ہیں۔تاریخ دیکھی جائے تو سینٹرل سپیریئر سروس آف پاکستان کانام سابق وزیراعظم لیاقت علی خان نے تمام گورنرز اور وزرائے اعلیٰ کی مشاورت سے دیا تھا ۔ ابتدا میں یہ طے کیا گیا تھا کہ صوبائی سول سروس سے تعلق رکھنے والے افسران یا تو متعلقہ صوبے میں کام کریں گے یا پھر وفاق میں اور کسی صوبے میں کام نہیں کرسکیں گے۔

اس کے بعد انیس سو انہتر میں یحییٰ خان دور میں پولیس سروس آف پاکستان کے حوالے سے معاہدہ کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپوزیشن کیساتھ جب بہتر نکاتی معاہدہ کیا تو اس میں تمام سروسز کو جاری رکھنے کا معاہد ہ بھی کیا گیا جس کی عبدالولی خان کی سربراہی میں اپوزیشن نے توثیق کی۔ چودہ اگست انیس سو تہتر کو جہاں متفقہ آئین دیا گیا اور اس کے آرٹیکل دو سو چالیس میں لکھا گیا کہ جو بھی نئی سروس بنے گی وہ صرف پارلیمنٹ ایکٹ سے ہی بنے گی وہیں ایک روز بعد پندرہ اگست کی صبح ذوالفقار علی بھٹو نے آرڈیننس جاری کردیا جس میں سول سروسز کو ایف پی ایس سی کے دائرہ کار سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد سول سروس آرڈیننس اور فیڈرل سروسز ٹریبونل آرڈیننس جاری کردیئے گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بیس اگست انیس سو تہتر کو نیا حلف لیا ۔ وہ رحیم یار خان کا دورہ کرکے اپنے حلف کیلئے راولپنڈی آئے تو لوگ سمجھ رہے تھے وہ سیلاب پر بات کریں گے مگر سابق وزیراعظم نے سول سروس میں انتظامی اصلاحات لانے کا اعلان کردیا۔

اکیس اگست کو دو نئے ایس آر او 1237اور 1238جاری کردیئے گئے جن کے تحت سروسز آف پاکستان کو ایف پی ایس سی سے نکال دیا گیا ۔اس تمام کام میں اس وقت کے اکائونٹس گروپ کے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ وقار احمد کا انتہائی اہم کردار تھا تاہم اب موجودہ حکومت نے ایس آر او 89جاری کردیا ہے جس کے تحت سول سروس میں تمام بھرتیوں کا اختیار ایف پی ایس سی کو دیدیا گیاہے اور اس ضمن میں صد ر کا اختیار ختم کردیا گیا ہے۔ نئی اصلاحات کے تحت وفاق نے صوبائی سول سروس کو کوٹہ دیدیا ہے اور وہ گریڈ انیس میں بھی پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس میں آسکیں گے تاہم اس کا طریقہ ایف پی ایس سی کے پینل نظام پر مشتمل ہوگا۔ وفاقی حکومت کے پاس نشست خالی ہوئی تو صوبوں کو لکھا جائیگا اور ایک نشست کیلئے تین نام مانگے جائیں گے ۔ نئے ایس آر او میں واضح کیا گیا ہے کہ صوبوں کے جو افسران وفاق میں آئیں گے ان کیلئے ضروری ہوگا کہ وہ پانچ سال تک کیڈر پوسٹ پر کام کرچکے ہوں اور ان کا انتخاب صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کیا گیا ہو ۔ وزیراعظم نے موجودہ ایس آراو بھی تمام چیف سیکریٹریز سے مشاورت کے بعد جاری کیا ہے اور اس کا مقصد وفا ق اور صوبوں کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔