- آپریشن رجیم میں سعودی عرب کا کوئی کردار نہیں، عمران خان
- ملک کو حالیہ سیاسی بحران سے نکالنے کی ضرورت ہے، صدر مملکت
- سعودی سرمایہ کاری میں کوئی لاپرواہی قبول نہیں، وزیراعظم
- ایران کے صدر کا دورہ پاکستان پہلے سے طے شدہ تھا، اسحاق ڈار
- کروڑوں روپے کی اووربلنگ کی جا رہی ہے، وزیر توانائی
- کراچی؛ نامعلوم مسلح ملزمان کی فائرنگ سے 7بچوں کا باپ جاں بحق
- پاک بھارت ٹیسٹ سیریز؛ روہت شرما نے دلچسپی ظاہر کردی
- وزیرخزانہ کی امریکی حکام سے ملاقات، نجکاری سمیت دیگرامورپرتبادلہ خیال
- ٹیکس تنازعات کے سبب وفاقی حکومت کے کئی ہزار ارب روپے پھنس گئے
- دبئی میں بارشیں؛ قومی کرکٹرز بھی ائیرپورٹ پر محصور ہوکر رہ گئے
- فیض آباد دھرنا: ٹی ایل پی سے معاہدہ پہلے ہوا وزیراعظم خاقان عباسی کو بعد میں دکھایا گیا، احسن اقبال
- کوئٹہ کراچی شاہراہ پر مسافر بس کو حادثہ، دو افراد جاں بحق اور 21 زخمی
- راولپنڈی؛ نازیبا و فحش حرکات کرکے خاتون کو ہراساں کرنے والا ملزم گرفتار
- حج فلائٹ آپریشن کا آغاز 9 مئی سے ہوگا
- کیویز کیخلاف سیریز سے قبل اعظم خان کو انجری نے گھیر لیا
- بجلی صارفین پرمزید بوجھ ڈالنے کی تیاری،قیمت میں 2 روپے94 پیسے اضافے کی درخواست
- اسرائیل کی رفح پر بمباری میں 5 بچوں سمیت11 افراد شہید؛ متعدد زخمی
- ٹرین سےگرنے والی خاتون کی موت،کانسٹیبل کا ملوث ہونا ثابت نہ ہوسکا، رپورٹ
- 'ایک ساتھ ہمارا پہلا میچ' علی یونس نے اہلیہ کیساتھ تصویر شیئر کردی
- بجلی چوری کارخانہ دار کرتا ہے عام صارف نہیں، پشاور ہائیکورٹ
خیال اور ایمان افروز
آج کل سوشل میڈیا کے اچھے اور بُرے پہلوئوں پر بہت کھل کر اور کم وبیش ہر پلیٹ فارم پر بات ہو رہی ہے جو ایک اعتبار سے بہت مستحسن اور ضروری قدم ہے کہ اس کی وجہ سے ایک بار پھر برسوں پرانی ایک بات ازسرِ نو زندہ ہوگئی ہے کہ کیا دنیا میں مادر پدر آزادی نام کی کوئی چیز ہے یا ہوسکتی ہے جس کا جواب یہی آتا ہے کہ ہر آزادی کی کوئی نہ کوئی حد ضرور ہوتی ہے اور اس حد کا احترام کیے بغیر آزادی کا کوئی عملی تصور ممکن نہیں کہ بقول پیرزادہ قاسم :
ہجوم سے تو کبھی کارواں بنا ہی نہیں
ہاں یہ بات ضرور ہے کہ اس آزادی کی حدود کا تعین کسی مخصوص گروہ یا طاقتور طبقے کے ہاتھ میں نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے عوامی رائے کا تابع اور مظہر ہونا چاہیے اور اسے کسی بھی صورت میں اخلاقیات لوگوں کی پرائیوٹ زندگی اور اُ ن کے بنیادی حقوق سے متصادم نہیں ہونا چاہیے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ٹیکنالوجی کا استعمال جس قدر تیزی سے بڑھا ہے اس کے ضمن میں شعور اور ذمے داری کا احساس تقریباً نہ ہونے کی تصویر بن کر رہ گیا ہے اور بات ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ اور خوش مزاجی سے چلتی ہوئی پھکڑپن، عریانیت، بے ہودگی کے پرچار اور بے گناہ لوگوں کی زندگیوں اور عزت سے بے دریغ کھیلنے تک آگئی ہے جو یقینا ہر لحاظ سے قابلِ مذمت اور گرفت ہے لیکن ایمانداری کی بات یہی ہے کہ یہ اِس تصویر کا ایک حصہ تو ہے مگر مکمل تصویر میں بہت سے رنگ شوخ ، خوبصورت اور دل پذیر بھی ہیں یعنی اس کو استعمال کرنے والوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو حدود سے تجاوز کرنے کے بجائے ان کے اندر رہ کر زندگی کی خوب صورتیوں کو اُجاگر کرتے ہیں اور اُن کی بعض پوسٹیں ادب عالیہ، اخلاق ، دانش، تفکر، روحانیات اور خوش طبعی سے اس طرح آراستہ ہوتی ہیں کہ آپ بیک وقت سوچنے سمجھنے، مسکرانے اور سننے پر مجبور ہوجاتے ہیں، مشتے از خروارے کیطور پرچند باتیں جن سے میں متاثر بھی ہوا ہوں اور محظوظ بھی۔ آپ سے اس لیے شیئر کررہا ہوں کہ دانش ایک تحفہ اور مسکراہٹ ایک صدقہ ہے اور ان کی معرفت ہم کچھ دیر کے لیے ہی سہی ایک ا چھی ا ور نارمل فضا میں سانس لے سکتے ہیں ۔
’’آپ راتوں رات اپنی منزل نہیں بدل سکتے مگر راتوں رات سمت ضرور تبدیل کی جاسکتی ہے۔‘‘
’’یہ نفس بدیقین ہے جس نے نمرود کو بھی تباہ کیا، یہ ایک پھاڑ کھانے والا بھیڑیا ہے ، مانا کہ نفس بہت طاقتور ہے لیکن اگر آپ نے اس پر قابو نہ کیا تو یہ اورطاقتور ہوجائے گا، یاد رکھیں پھر یہ پہلے اپنی طاقت استعمال کرے گا اور آپ کو عزت کے مقام سے نیچے گرائے گا اور پھر ایک دن پوری طاقت سے یہ آپ کو دوزخ کی گہرائیوں میں پھینک دے گا۔ نفس کے شر پر ندامت پشیمانی سے آنسوئوں کا جاری نہ ہونا دل کی سختی کی وجہ سے ہے اور دل کی سختی گناہوں کی کثرت کی وجہ سے ہے ۔ دنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے اور گناہ کی آب پاری نفس کرتا ہے، ا س لیے اپنے نفس پر قابو رکھیں‘‘۔
’’جنگ ایک ایسی جگہ ہے جہاں جوان آدمی جو ایک دوسرے کو نہیں جانتے اور ایک دوسرے سے نفرت بھی نہیں کرتے ایک دوسرے کو ماردیتے ہیں، اُن بوڑھے لوگوں کے کہنے پر جو ایک دوسرے کو جانتے ہیں، آپس میں نفرت کرتے ہیں لیکن ایک د وسرے کو قتل نہیں کرتے‘‘۔’’حجام کی دوکان پر لکھا ہوا پڑھا، ہم دل کا بوجھ تو نہیں لیکن سر کا بوجھ ضرور ہلکا کرسکتے ہیں‘‘، ’’لائٹ کی دوکان والے نے بورڈ کے نیچے لکھوایا، آپ کے دماغ کی بتّی بھلے ہی جلے یا نہ جلے مگر ہمارا بلب ضرور جلے گا۔‘‘، ’’چائے والے نے اپنے کائونٹر پر لکھوایا، میں بھلے ہی عام ہوں مگر چائے اسپیشل بناتا ہوں‘‘۔
’’ایک ریسٹورنٹ والے نے سب سے الگ فقرہ لکھوایا،یہاں گھر جیسا کھانا نہیں ملتا، آپ اطمینان سے تشریف لائیں۔‘‘،’’الیکٹرونک دوکان پر سلوگن پڑھا ’’اگر آپ کا کوئی فین (FAN) نہیں تویہاں سے لے جائیں۔‘‘،’’گول گپّے کے ٹھیلے پر یوں لکھا تھا،گول گپّے کھانے کے لیے دل بڑا ہو نہ ہو منہ بڑا رکھیں اور پورا کھولیں‘‘۔’’پھل والے کے یہاں تو غضب کا فقرہ لکھا دیکھا،آپ تو بس صبر کریں پھل ہم دینگے‘‘۔
’’گھڑیوں کی دوکان پر ایک زبردست فقرہ دیکھا، بھاگتے ہوئے وقت کو ہم اپنے بس میں رکھیں، چاہے دیوار پر، ٹانگیں یا ہاتھ پر باندھیں‘‘۔’’ایک نجومی نے اپنے بورڈ پر کچھ یوں لکھوایا، آیئے صرف ایک سو روپے میں اپنی زندگی کے آنیوالے ایپی سوڈ دیکھیے‘‘، ’’بالوں کی ایک کمپنی نے تو اپنے پروڈکٹ پر لکھ دیا،ہم بھی بال بال بچاتے ہیں۔‘‘’’اور ایک دندان ساز کی دوکان پر لکھا ہوا جملہ’’دانت کوئی بھی توڑے جوڑ ہم دینگے‘‘۔
’’چٹائی بیچنے والے نے کہا ’’900 روپے میں خریدیں ساری عمر بیٹھ کر کھائیں۔‘‘’’ ایک دوکان میں لکھا دیکھا،صبح 9 بجے سے شام 6بجے تک، ہم اپنی اوقات میں رہتے ہیں۔‘‘،’’پانی اور نماز ایک جیسے ہیں، پانی محتاج نہیں پیسے والوں کا اور نماز محتاج نہیں پڑھنے والوں کی۔ دونوں کے لیے پیاس ضروری ہے جسم کی پیاس کے لیے پانی اور رُوح کی پیاس کے لیے نماز، وہ رُوح مردہ ہے جس میں نماز کی طلب نہ ہو۔ نماز مومنین کو اللہ کی طرف سے شب معراج کو ملنے والا بہترین تحفہ ہے جو اللہ سے سب بندوں کا براہِ راست رابطہ قائم کرنے کا ذریعہ ہے ۔اہلِ تصوف کے نزدیک عبادت کے وقت ذاتِ الٰہی کی دید میں گُم ہونے کا نام نماز ہے۔ اللہ ہمیں سجدوں کی سچی لذّت عطا فرمائے۔‘‘
ہیں نا خیال اور ایمان افروز باتیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔