عمران خان نہیں تو کون؟

احتشام بشیر  منگل 8 مارچ 2022
حکومت اور اپوزیشن دونوں طرف سے بھرپور تیاری کے دعوے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

حکومت اور اپوزیشن دونوں طرف سے بھرپور تیاری کے دعوے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان کا سیاسی ماحول تیزی بدل رہا ہے۔ حکمران جماعت تحریک انصاف کے خلاف تمام اپوزیشن جماعتیں ایک نکتے پر متفق ہوگئی ہیں کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کرنا ہے۔ اگرچہ اپوزیشن جماعتیں ایک چھتری تلے نہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم میں پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی شامل نہیں ہیں۔ لیکن وزیراعظم کے خلاف تحریک اعتماد پر تمام جماعتیں متفق ہوگئی ہیں۔

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کو ایک پیج پر لانے میں اہم کردار پی ڈی ایم اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ادا کیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے ہی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کو وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر قائل کیا۔ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے میں کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوگیا ہے اور کسی بھی وقت اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کی جاسکتی ہے۔

پیپلزپارٹی کا مہنگائی کے خلاف مارچ بلاول بھٹو کی قیادت میں پنڈی میں داخل ہوچکا ہے اور اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے۔ پنڈی میں مارچ کے داخلے سے قبل سیاسی ماحول میں تیزی آگئی ہے۔ ایک جانب پیپلزپارٹی سے ناراض ہوکر تحریک انصاف میں جانے والی سیاسی شخصیات کی پیپلزپارٹی میں واپسی شروع ہوگئی ہے، تو دوسری جانب تحریک انصاف کا ناراض دھڑا بھی کھل کر سامنے آگیا ہے۔ جہانگیر ترین کے بعد علیم خان بھی پنجاب میں پی ٹی آئی کی پالیسیوں سے نالاں ہوکر جہانگیر ترین گروپ میں شامل ہوگئے ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب تحریک انصاف کے خلاف محاذ بن چکا ہے۔

علیم خان کافی عرصے سے وزیراعظم عمران خان سے ناراض تھے لیکن ان کا کردار خاموش تھا۔ وہ ایک خاموش تماشائی کی طرح بیٹھ کر نظارہ دیکھتے رہے۔ 2013 سے حصول اقتدار تک عمران خان کا تحریک میں ساتھ دینے والے علیم خان کی طرح تحریک انصاف کی دوسری سرگرم شخصیات جو خاموش کردار بن چکی تھیں، وہ بھی کھل کر سامنے آسکتی ہیں۔ علیم خان نے جہانگیر ترین کے گروپ میں شامل ہوتے وقت کھل کر حال دل بیان کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقتدار ملنے کے بعد جہانگیرترین کو بھلادیا گیا۔ اب جہانگیر ترین اور علیم خان نے مل کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنا ہے لیکن علیم خان نے پریس کانفرنس کے دوران یہ نہیں بتایا کہ وہ اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد آنے کی صورت میں اپوزیشن کا ساتھ دیں گے یا نہیں؟ یا یہ گروپ اپنا لائحہ عمل طے کرے گا؟

جہانگیر ترین اور علیم خان گروپ نے پنجاب میں تبدیلی کی شرط عائد کی ہے۔ اگر عمران خان اپنے پرانے ساتھیوں کو مزید ناراض نہیں کرنا چاہتے اور اپنے اقتدار کو تحفظ دینا چاہتے ہیں تو انھیں بزدار کی قربانی دینا ہوگی۔ اگر عمران خان اپنے موقف قائم رہتے ہیں تو جہانگیر ترین جیسے پرانے ساتھی کو کھودیں گے۔

اپوزیشن جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کےلیے مطلوبہ تعداد پوری ہوچکی ہے، اور کسی بھی وقت تحریک پیش کی جاسکتی ہے۔ ملک میں سیاسی صورتحال کا جائزہ لیں تو جہانگیر ترین کے لندن جانے اور علیم خان کے عمران خان کے خلاف سامنے آنے سے اپوزیشن جماعتیں بھی تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے تیار نہیں تھیں اور نہ ہی اس حوالے حتمی رائے کا اظہار کیا جارہا ہے۔ تحریک انصاف سے دھڑا سامنے آنے کے بعد اب اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لانے کےلیے تیار ہوگئی ہے۔ جب تک اپوزیشن جماعتیں 172 ارکان پورے نہیں کریں گی، تب تک اپوزیشن جماعتیں تحریک پیش کرنے کی غلطی نہیں کریں گی۔ اسی لیے پیپلزپارٹی لانگ مارچ کے اسلام آباد داخل ہونے اور تحریک انصاف کے ایک دھڑے کی علیحدگی کے بعد اپوزیشن کو بھی کچھ روشنی نظر آنے لگی ہے۔

وزیراعظم عمران خان بھی اس وقت اپوزیشن کے حوالے سے کوئی اچھی نیت نہیں رکھتے۔ اسی لیے انہوں نے کہا کہ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو جو میں ان کے ساتھ کروں گا اس کےلیے وہ تیار رہیں۔ اب یہ عمران خان کو ہی معلوم ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی پر کیا کریں گے۔ حکومت بھی سکون سے نہیں۔ وزیردفاع پرویزخٹک کا دعویٰ ہے کہ اپوزیشن ہمارے پانچ ارکان توڑیں گے تو ہم بھی اپوزیشن کے دس ارکان توڑ سکتے ہیں۔ خطرہ اپوزیشن اور حکومت کو اپنے اپنے ارکان سے ہے۔ سینیٹ میں اپوزیشن اکثریت کے باوجود حکومت کو قانون سازی سے روک نہ سکی۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں نتائج سے خوف زدہ ہیں، اسی لیے اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لانے اور حکومت بھی تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے سے گھبرا رہے ہیں۔ حکومت پراعتماد ہوتی تو وزیراعظم خود ہی پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لے لیتے لیکن اس سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت بھی اپنے ارکان پر اعتماد نہیں رکھتی۔

جہانگیر ترین اور علیم خان گروپ کے سامنے آنے کے ساتھ تحریک انصاف میں شامل وہ چہرے جو پیپلزپارٹی میں شامل تھے، وہ پیپلزپارٹی میں واپس آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ندیم افضل چن کے بعد پیپلزپارٹی سے ناراض ہونے والے پیپلزپارٹی سے رابطے میں ہیں۔ خیبرپختونخوا سے بھی کچھ ارکان قومی اسمبلی بھی پی ٹی آئی کی کشتی سے چھلانگ لگانے کےلیے تیار ہیں۔

حکومت اور اپوزیشن دونوں طرف سے بھرپور تیاری کے دعوے ہیں۔ اب اس میں اہم کردار ق لیگ اور ایم کیو ایم کا رہ گیا ہے۔ ق لیگ نے اب تک نہ تو اپوزیشن کو تعاون کی یقین دہانی کرائی اور نہ ہی ایم کیو ایم ایک طرف کھڑی نظر آتی ہے۔ چوہدری پرویزالہٰی نے صورتحال کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کریں۔ وقت ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ علیم خان اور جہانگیر ترین کے گروپ کے سامنے آنے کے بعد وقت تو نکل گیا ہے، اب پانی سے گزرنے کی صورت میں ہاتھ پاؤں مار کر کنارے لگنا ہے۔

حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوتی ہے تو حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے میں کامیاب ہوجائے گی اور اپوزیشن کی تحریک کامیاب ہوتی ہے تو پھر متبادل نظام حکومت کیا ہوگا؟ کیا اِن ہاؤس تبدیلی ہوگی؟ نئے الیکشن کی طرف جایا جائے گا یا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد صدارتی نظام کی طرف بھی جایا جاسکتا ہے؟ تحریک انصاف کے کچھ ذرائع یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر حکومت آئینی مدت پوری نہیں کرپاتی تو صدارتی نظام پر ریفرنڈم بھی کرایا جاسکتا ہے۔ لیکن ریفرنڈم پر کوئی آئینی گنجائش نہیں۔ دو سے تین دن میں پاکستانی سیاست کس کروٹ لیتی ہے اس پر سب کی نظریں ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔