مذاکرات کا تناظر؟

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 21 فروری 2014
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

ہر روز صبح اٹھ کر سب سے پہلے اخبارات کا مطالعہ ہماری عادت کے بجائے بیماری بن گیا ہے اور جب تک اخبارات کی اہم خبروں کا ناشتہ نہیں ہو جاتا ہم ناشتے کی میز پر نہیں جاتے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اخباری خبریں اس قدر ترش و تلخ بلکہ ہیبت ناک ہوتی ہیں کہ ناشتے کا سارا مزہ کرکرا ہو کر رہ جاتا ہے، بلڈ پریشر والوں کے لیے اخبارات اور ٹی وی اس قدر مضر بن گئے ہیں کہ زبان کے نیچے بلڈ پریشر کم کرنے کی گولی رکھ کر اخبار پڑھنا اور ٹی وی دیکھنا پڑتا ہے۔ اخبارات ہمارے سامنے پھیلے ہوئے ہیں، ان کی سب سے بڑی سرخی ’’کارروائیاں بند کریں ورنہ مذاکرات جاری رکھنا مشکل ہو گا‘‘ ہے۔ یہ انتباہ اس حکومتی کمیٹی کی جانب سے دوسرے فریق کے لیے ہے جو مذاکرات میں شامل ہے۔ ایک روز پہلے ہم نے مذاکرات کے حوالے سے ایک کالم لکھا تھا جس کا عنوان ’’ہماری دعا‘‘ تھا، اس کالم میں ہم نے فریقین کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کی امید کا اظہار کرتے ہوئے اس ناگوار حقیقت کی طرف بھی اشارہ کیا تھا کہ ملک میں خون خرابے سے تنگ آئے ہوئے اٹھارہ کروڑ دہشت زدہ عوام کی امن سے متعلق امیدیں پوری بھی ہوں گی؟ اس خدشے کی وجہ ہر روز کہیں نہ کہیں پیش آنے والے قتل و غارت کے وہ واقعات تھے جن میں درجنوں افراد ہلاک، سیکڑوں زخمی ہو رہے ہیں اور یہ مار دھاڑ کا سلسلہ کسی طرح رکنے ہی میں نہیں آرہا ہے۔

ہم نے مذاکرات کے حوالے سے جس سب سے بڑی سرخی کا ذکر کیا ہے اس کا پس منظر پشاور اور کراچی میں ہونے والی وہ کارروائیاں ہیں جن میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے، جن میں اکثریت پولیس اور رینجرز کے اہلکاروں کی ہے اور سیکڑوں زخمی ہو گئے ہیں۔ حکومت کی طرف سے بار بار اپنے مدمقابل مذاکراتی کمیٹی سے درخواست کی جا رہی ہے کہ وہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے ایسی کارروائیاں بند کر دے جو مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔ اگرچہ اس دوران کئی خوفناک وارداتیں ہوئیں لیکن فریق مخالف کی جانب سے یہ تردید آتی رہی کہ وہ ان کارروائیوں میں ملوث نہیں، جو ایک امید افزا تردید تھی لیکن کراچی میں رزاق آباد کے علاقے میں ہونے والی واردات جس میں تیرہ سپاہی ہلاک اور 57 زخمی ہو گئے اس کارروائی کی ذمے داری فریق مخالف نے قبول کر لی اس کے بعد ہی حکومتی کمیٹی کی جانب سے وہ انتباہ جاری ہوا جس کا ذکر آج کی سب سے بڑی سرخی میں موجود ہے۔

پچھلے دنوں مذاکرات سے پہلے اور مذاکرات کے بعد ہر حلقے کی جانب سے مذاکرات کی کامیابی کے لیے دعائیں کی گئیں، اس خواہش اور دعا کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے دس سال کے دوران جو کچھ ہوتا رہا وہ ایک ایسا ڈراؤنا خواب بن گیا ہے جس کے تصور ہی سے جھرجھری آ جاتی ہے۔ لیکن جو بات باعث تشویش ہے، وہ یہ ہے کہ حکومتی کمیٹی کو یہ انتباہ کیوں جاری کرنا پڑا؟ اگرچہ اس خطرناک مسئلے پر مذاکرات کا اصرار حکومت کی جانب سے ہوتا رہا لیکن پچھلے کچھ دنوں سے فریق مخالف کی طرف سے بھی مذاکرات کی جس خواہش کا اظہار کیا جاتا رہا یہی عوام کے لیے امید کی کرن اس لیے بن گیا تھا کہ ماضی میں فریق مخالف کی طرف سے مذاکرات سے مسلسل انکار کیا جاتا رہا تھا۔ دنیا میں ہونے والی کسی بھی محاذ آرائی کو جنگ کے بجائے مذاکرات سے حل کرنے پر فریقین راضی ہو جاتے ہیں تو جنگ بندی مذاکرات کی شرط اول ہوتی ہے۔ موجودہ مذاکراتی عمل کے شروع ہونے سے پہلے فریقین کے جو بیانات میڈیا میں آتے رہے ہیں ان سے بہرحال یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ جنگ بندی کا عمل شروع ہو چکا ہے لیکن حالیہ کارروائیوں کے بعد اس تاثر کی جو نفی ہو رہی ہے اسے ایک وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، ورنہ مذاکراتی ٹیمیں امید اور ناامیدی کے بھنور میں غوطے لگاتی رہیں گی۔

اس حوالے سے اخبارات میں شایع ہونے والی چند بڑی خبروں پر نظر ڈالنا ضروری ہے۔ پہلے ہم اپنے ملک کے حوالے سے شایع ہونے والی چند خبروں پر نظر ڈالتے ہیں۔ ایک خبر ہے ’’کراچی رینجرز کے ونگ کمانڈر خودکش حملے میں بال بال بچ گئے‘‘۔ دوسری خبر کے مطابق پشاور میں کوہاٹ روڈ پر پولیس وین کو نشانہ بنانے کے لیے سڑک کے کنارے نصب بم دھماکے سے پھٹ گیا، جس میں خواتین سمیت 8 افراد زخمی ہو گئے۔ ان ملکی خبروں کے ساتھ ذرا بین الاقوامی خبروں پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے تا کہ موجودہ صورت حال کا ایک وسیع تناظر میں جائزہ لے کر اس کے مضمرات اور اس کی وسعت کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

پہلی خبر کے مطابق چین کے علاقے ژن جیانگ میں دہشت گردوں کے حملے میں 15 افراد ہلاک ہو گئے۔ اس خبر کی تفصیل میں بتایا گیا ہے کہ کرغزستان کی سرحد کے قریب واقع قصبے دوشی میں مسلح موٹر سائیکل سواروں نے پارک کے قریب موجود پٹرولنگ افسران پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔ جوابی کارروائی کے دوران 11 حملہ آور ہلاک ہو گئے۔ ایک اور خبر کے مطابق ’’یمن جیل پر حملہ11 افراد ہلاک29 قیدی فرار ہو گئے‘‘۔ اس خبر کی تفصیل میں بتایا گیا ہے کہ یمن کے دارالحکومت صنعا میں واقع جیل پر حملہ کر کے 11 افراد کو ہلاک اور درجنوں افراد کو زخمی کر دیا گیا۔

ایک انتہائی لرزہ خیز خبر کے مطابق وسطی افریقی جمہوریہ میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران 133 سے زائد معصوم بچوں کو انتہائی بے دردی سے قتل کر کے ان کے سر تن سے جدا کر دیے گئے اور اعضا کاٹ دیے گئے۔ ایک اور خبر کے مطابق افغانستان کے صوبے ننگرہار اور ہلمند میں جنگجوؤں اور فورسز کے درمیان جھڑپوں میں 52 طالبان جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا گیا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان قومی اور بین الاقوامی خبروں میں جن کا سرسری ذکر ہم نے اوپر کیا ہے کوئی تعلق باہمی ہے یا یہ خبریں ایک دوسرے سے مختلف ہیں؟ اس سوال کا جواب تلاش کیے بغیر نہ ہم اس گمبھیر مسئلے کو سمجھ سکتے ہیں نہ اس کے حل کی طرف کوئی مثبت پیش قدمی کر سکتے ہیں۔ عموماً وزارت خارجہ میں ایسے باخبر، باصلاحیت، بابصیرت لوگوں کو رکھا جاتا ہے جو قومی اور بین الاقوامی مسائل کے پس منظر کا ادراک اور ان میں تعلق باہمی کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ہمیں حیرت ہے کہ مذاکرات میں کھنڈت ڈالنے والے واقعات کے حوالے سے مذاکرات میں پیش رفت میں مشکلات کا رونا رونے والے اکابرین کیا اس مسئلے کی وسعت اور قومی اور بین الاقوامی تعلق باہمی کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ اس سوال کا جواب اس لیے ضروری ہے کہ اس تعلق باہمی کو سمجھے بغیر مذاکرات کی کامیابی کی امید رکھنا حماقت کے علاوہ کچھ نہیں۔

پشاور، کراچی، چین، یمن، افغانستان، وسطی افریقی جمہوریہ، شام، عراق میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں مماثلت اور تعلق باہمی تلاش کرنے کی ضرورت اس لیے ہے کہ قومی اور بین الاقوامی منظر میں وقوع پذیر ہونے والے ان دلخراش اور خطرناک سانحات کے پیچھے ایک ہی مقصد کارفرما نظر آتا ہے، اگر یہ مقصد مشترکہ ہے تو پھر اس مقصد میں کامیابی کا سوال پہلے مرحلے میں آتا ہے۔ یہ بات اب کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ان تمام واقعات میں ملوث مسلح افراد طاقت کے بل پر اپنے نظریات ساری دنیا پر مسلط کرنا چاہتے ہیں لیکن اس طرز فکر اور طریقہ کار میں کامیابی کی امیدیں اس لیے مشکوک بن رہی ہیں کہ ترقی یافتہ دنیا کسی قیمت پر اپنی تہذیب کو ہزاروں سال پیچھے لے جانے کی اجازت نہیں دے سکتی، خواہ اس کے لیے اسے کتنا ہی آگے جانا پڑے اور اس آگے کا اندازہ 1945ء کے ناگاساکی اور ہیروشیما کے ایٹمی سانحات سے کیا جا سکتا ہے۔ کیا مغربی ممالک خصوصاً امریکا اپنے ملک کو قبائلی نظام کے حوالے کر سکتا ہے۔ کیا چین روس سمیت دنیا کے بے شمار ملک تہذیبی ترقی کو ریورس گیئر میں ڈال کر ہزاروں سال پیچھے جانے کے لیے تیار ہوں گے؟ یہ سوال اس لیے ضروری اور اہم ہیں کہ ہمارے ملک کو بھی ریورس گیئر میں ڈال کر ہزاروں سال پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے اگر مذاکراتی اکابرین اس تناظر میں اپنی پالیسی طے کریں تو ہم کوئی مثبت سمت میں پیش رفت کے قابل ہو سکتے ہیں ورنہ مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔