سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 13 مارچ 2022
پاک بھارت محبتوں کا ایک دل نشیں لمحہ! ۔  فوٹو : فائل

پاک بھارت محبتوں کا ایک دل نشیں لمحہ! ۔ فوٹو : فائل

پاک بھارت محبتوں کا ایک دل نشیں لمحہ!

خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

نیوزی لینڈ میں جاری ’زنانہ کرکٹ ورلڈ کپ‘ میں پاکستانی ٹیم کی کپتان بسمہ معروف کی چھے ماہ کی بیٹی فاطمہ کے گرد ہندوستانی ٹیم کی بے ساختہ توجہ اور بے تکلّفی اس لائق ہے کہ اس پر بات کی جائے۔۔۔ گذشتہ اتوار چھے مارچ 2022ء کو ’فیس بک‘ پر ہماری نگاہ سے ایک مختصر سی ویڈیو گزری، پھر ہم نے یہ ویڈو بار بار دیکھی۔۔۔ اور اس کے جذبات کو اگر شمار کیجیے، تو لگتا ہے کہ اس قابل ہے کہ اِسے بار بار دیکھا جائے، کہنے کو ایک چھوٹی بچی کو پیار کرنے، اس سے بات کرنے اور اس کی توجہ حاصل کرنا ایک بہت معمول کی بات ہے، لیکن جب یہ دو روایتی حریف اور ’’دشمن ممالک‘‘ کے درمیان ہو تو واقعی اہم ہو جاتا ہے۔

اگر آپ نے آدھے منٹ سے بھی کم کی وہ ویڈیو دیکھی ہو تو آپ محسوس کر سکتے ہیں کہ سرحدوں اور مملکتی تنازعوں سے ماورا برجستہ انسانی جذبات کیا ہوتے ہیں۔۔۔ اِس ویڈیو میں چھے ماہ کی فاطمہ اپنی والدہ بسمہ معروف کے کندھے سے لگی ہوئی ہے اور اس کے اردگرد ہندوستانی کِٹ میں وہاں کی کھلاڑی موجود ہیں اور اس بچی کے تئیں ان کی بے ساختگی کسی طرح اور کسی لمحے یہ نہیں بتاتی کہ یہ دونوں دراصل ’الگ الگ‘ ممالک کے شہری ہیں، جو کہ گذشتہ ربع صدی سے ایک دوسرے سے اکثر جھگڑے اور تنازعات اور الزامات میں ہی الجھے رہتے ہیں۔

اور یہاں یہ بات مشہور ہے کہ دونوں دیشوں کے باسی جنگ کو کھیل اور باہمی کھیلوں کو ’جنگ‘ بنا دیتے ہیں، لیکن گذشتہ اتوار کو ہندوستانی فتح پر منتج ہونے والے اس یک طرفہ میچ کے بعد بسمہ معروف اور ان کی بچی فاطمہ کے گرد ہندوستان کی خواتین کرکٹ ٹیم کے ارکان اور باہمی ’محبت‘ کے منظر نے دونوں ریاستوں کے درمیان کی ساری تلخی کو لمحے بھر میں بہت پرے اٹھا پھینکا۔ اس ویڈیو میں تو ہمیں بالکل یوں معلوم ہوا ہے کہ جیسے ہمارے آپ کے گھروں میں جب بہن میکے آتی ہے، یا کسی بھاوج یا رشتے کی بہن کے گرد اس کی خواتین کزن جمع ہو جاتی ہیں، اور اس کی چھوٹی بچی سے مل کر خوب ہنستی ہیں، مذاق کرتی ہیں، کسی طرح بچے کو متاثر کرنے اور اس کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں، اُسے گود میں لینا چاہتی ہیں، پیار کرنا چاہتی ہیں۔۔۔

اگر اس ویڈیو سے پاکستان اور ہندوستان کا فرق نکال دیا جائے، تو کسی بھی بناوٹ اور تکلف سے پاک، بے ساختہ محبت اور سچی انسانیت راج کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ کاش، دونوں دیشوں کی سرکاریں اور دونوں طرف نفرتیں بیچنے والے بھی اس چھوٹے سے لمحے سے کچھ سیکھ سکیں اور سرحدوں پر امن اور سرحدوں پار محبتوں کے پائیدار سلسلے قائم کر سکیں۔۔۔

کوئی صورت ایسی ہو کہ گلگت، بلتستان اور کشمیر سے لے کر پنجاب، سندھ اور کراچی تک بٹے ہوئے ہزاروں خاندانوں کو ملنے دینے کی، بچھڑے ہوئوں کو ایک بار دیدار کرلینے کی آس پورا کرنے کا موقع دے سکیں۔۔۔ کسی طرح دونوں ملکوں کا ایک دوسرے پر اعتبار قائم ہو سکے اور اعتماد بحال ہو سکے۔۔۔ کسی طرح برصغیر کی سیاست دائمی امن پر راضی ہو سکے، اور یہ مان لیا جائے کہ صرف ہم نہیں، بلکہ ہم سب عملی طور پر امن اور خوش حالی لانا چاہتے ہیں۔

تاکہ سرحدوں کے آر پار سب کے دل مل سکیں، آمدورفت آسان ہو اور خطے سے مہلک جنگوں کے مہیب سائے بہت دور ہو سکیں، اسلحے وبارود کے بھیانک ڈھیر کے بہ جائے پھولوں کی بہتات ہو اور برصغیر کے پونے دو ارب انسانوں کی زندگیاں بہتر ہو سکیں، سب کو صاف پانی مل اور دو وقت کی روٹی مل سکے، سب کو علاج اور تعلیم جیسی بنیادی سہولتیں مل سکیں۔ کاش، یہ شیریں لمحے صرف گذشتہ دنوں کی ایک وقتی یاد بن کر ہی نہ رہ جائیں، بلکہ اس کے اثر سے فیصلہ سازوں کے دل نرم بھی ہوں اور صاف بھی۔۔۔ پھر ایسی محبتوں کے بہت سارے مواقع سامنے آئیں۔۔۔

وقت کے قافلوں کا ساتھ نہ دے سکا
مولانا ابوالکلام آزاد
بازار میں وہی جنس رکھی جاتی ہے، جس کی مانگ ہوتی ہے اور چوں کہ مانگ ہوتی ہے، اس لیے ہر ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہے اور ہر آنکھ اسے قبول کرتی ہے، مگر میرا معاملہ اس سے بالکل اْلٹ رہا۔ جس جنس کی بھی عام مانگ ہوئی، میری ’دکان‘ میں جگہ نہ پا سکی۔ لوگ زمانہ کے روز بازار میں ایسی چیزیں ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر لائیں گے، جن کا رواج عام ہو۔ میں نے ہمیشہ ایسی جنس ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کی، جس کا کہیں رواج نہ ہو۔ اوروں کے لیے پسند و انتخاب میں جو علت ہوئی، وہی میرے لیے ترک و اعراض کی علت بن گئی۔

انھوں نے دکانوں میں ایسا سامان سجایا، جس کے لیے سب کے ہاتھ بڑھیں۔ میں نے کوئی چیز ایسی رکھی ہی نہیں، جس کے لیے سب کے ہاتھ بڑھ سکیں۔ لوگ بازار میں دکان لگاتے ہیں، تو ایسی جگہ ڈھونڈ کر لگاتے ہیں، جہاں خریداروں کی بھیڑ لگتی ہو۔ میں نے جس دن اپنی دکان لگائی، تو ایسی جگہ ڈھونڈ کر لگائی، جہاں کم سے کم گاہکوں کا گزر ہو سکے۔

مذہب میں، ادب میں، سیاست میں، فکرو نظر کی عام راہوں میں، جس طرف بھی نکل پڑا۔ اکیلا ہی نکل پڑا۔ کسی راہ میں بھی وقت کے قافلوں کا ساتھ نہ دے سکا۔

عوام پر ٹیکس کب لگایا جائے؟
حکیم محمد سعید

سن702 ھ کی بات ہے۔ سلطان الناصر حاکم وقت تھے، ان دنوں شام پر مغلوں کے حملے کا خطرہ سر پر آگیا۔ الناصر پریشان ہوا۔ اس نے جنگی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے عوام پر جنگی ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا۔ مگر اس زمانے میں اسلامی شرع کا فیصلہ آخری ہوتا تھا۔

الناصر نے شام کے قاضی القصناۃ (چیف جسٹس) حضرت محترم ابن رفیق العبد سے کہا کہ وہ فتویٰ جاری کریں کہ شام کی حفاظت کے لیے حکومت جنگی ٹیکس لگا سکتی ہے، مگر قاضی القصناۃ نے صاف انکار کر دیا کہ عوام پر ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا۔ بادشاہ الناصر نے حضرت ابن رفیق العبد کو طلب فرمایا۔ وہ تشریف لائے۔ الناصر نے ان کو اپنے قریب بٹھانا چاہا، مگر انھوں نے انکار کر دیا اور فرمایا: ’’جو شخص دنیا میں ریشم پہنتا ہے، وہ آخرت میں اس سے محروم ہو جائے گا۔‘‘

نونہالو! اسلامی شرع میں مرد کے لیے ریشم پہننا منع ہے۔ تم اس بات کا خیال رکھنا اور مرد ہو کر ریشم نہ پہننا۔ ہاں بچیاں ضرور پہن سکتی ہیں، بچے نہیں۔ خیر جناب! الناصر نے قاضی صاحب سے معلوم کیا کہ آپ جنگی ٹیکس لگانے کا فتویٰ آخر کیوں نہیں دیتے؟ قاضی صاحب نے فرمایا: بلاشبہ میرے استاد محترم حضرت شیخ عزیز الدین عبدالسلام نے ملکی دفاع کے لیے جنگی ٹیکس لگانے کا فتویٰ صادر فرمایا تھا، مگر اس وقت صورت حال یہ ہوئی کہ اس وقت خود بادشاہ اور اس کے تمام امرا نے اپنی ساری دولت دفاع وطن کے لیے دے دی تھی، مگر جنگی بجٹ پھر بھی پورا نہیں ہوا تھا اس لیے ان حالات میں میرے استاد محترم نے جنگی ٹیکس لگانے کا فتویٰ صادر فرمایا تھا۔

بادشاہ محترم! میں عوام پر ٹیکس عائد کرنے کا فتویٰ اس لیے نہیں دے سکتا کہ آپ نے اور امرا نے آج ایسا نہیں کیا ہے۔‘‘

نونہالو! قاضی القصناۃ کی بات سن کر الناصر بے قرار ہوگیا۔ اس پر رقت طاری ہو گئی اور کہا: ’’حضرت قاضی القصناۃ! آپ نے بجا ارشاد فرمایا۔ میں اپنی تمام دولت دفاع شام کے لیے پیش کرتا ہوں۔ تمام امرا رئوسا بھی ایسا ہی کریں گے۔‘‘

نونہالو! اتنی رقم جمع ہوگئی کہ جو جنگ کے سامان کے لیے کافی تھی۔ ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اب پاکستان میں اس روشنی میں غور کرنا چاہیے۔ اگر صاحبان حکومت اور سیاست کے بڑے اپنی ساری دولت جمع کرا دیں، تو آئے دن جو ٹیکس لگتے ہیں، اس کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔

میں ایک پیر صاحب کو جانتا ہوں کہ ارب ہا پتی ہیں۔ ایک نہیں درجنوں سیاست دانوں کو جانتا ہوں، جو ارب پتی ہیں۔ مِحلوں میں رہتے ہیں اور غریبوں کی بات کرتے ہیں۔ ان سب کی دولت خزانے میں داخل ہونی چاہیے۔ نونہالو! تم اس کے لیے تیاری کرو۔ جب تم پاکستان کو سنبھالو گے، تو ان دولت مندوں کی دولت ان سے حاصل کرلینا!

عالمی دِنوں کا لنڈا بازار
امجد محمود چشتی ، میاں چنوں
دنیا بھر میں سارا سال ہی کسی نہ کسی چیز کا ’عالمی دن‘ منایا جاتا ہے، بلکہ کسی دن کو تو کئی کئی حوالوں سے منسوب کر کے منانے کا رواج بھی ہے۔ ہر دن اس دن کے سورج کے ساتھ ہی غروب ہو جاتا ہے اور اس دن کی روح پھر سے دنیا کی بھیڑ میں اگلے برس تک کھو جاتی ہے۔

البتہ ہر منائے جانے والے دن کی نسبت سے مَنوں کے حساب سے کلچر ضرور برآمد ہوتا رہتا ہے۔ 24 جنوری کو تعلیم کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ ابھی 14 فرووری کو یوم عشاق تھا، پارسائوں کے نزدیک یہ ’بے حیائی‘ کا دن ہے، جس میں کہیں حیا کی موت تو کہیں پاکیزہ نگاہوں کا قتل ہوتا ہے۔ 20 فروری سماجی انصاف کے سبز باغات کا دن تھا۔ 8 مارچ کو بنتِ حوا ابنِ آدم پر تہذیبی و عائلی لشکرکشی کرتی ہے اور اپنے خاوند، بھائی، باپ اور بیٹوں کو تصویرِ کائنات میں اپنے رنگ کے ساتھ کچھ اور ’رنگ‘ کا بھی احساس دلا دیتی ہے۔

اس مارچ میں شامل بہت سی خواتین دوپٹے سے پرچم بنانا تو کجا، آنچل کے وجود سے بھی انکاری دکھائی دیتی ہیں۔ 21 مارچ کو شاعروں کو واہ واہ کے ’لولی پاپ‘ کے جھانسے کے ہمراہ بعد از حیات اعزاز سے دفنانے کا وعدہ بھی ملتا ہے۔ سال بھر پانی ضایع کرنے والے 22 مارچ کو پانی بچانے کی مہم میں ہراول دستہ ہوتے ہیں۔ پھر یکم اپریل کو بے وقوفان ِ عالم اپنا دن منائیں گے۔ ماحولیات کی بابت پورا سال ’’مخولیات‘‘ میں رہنے والے پانچ جون کو یومِ ماحولیات منا کر تشہیری تسکین کا حظ اٹھاتے ہیں۔

یکم مئی کے روز مزدور پسینا خشک ہونے سے قبل ادائی کا مژدہ سنتے ہیں۔ یکم جون کو والدین کی شان اور اہمیت بیان کی جاتی ہے اور ان سے از سرِ نو تعارف بھی ہو جاتا ہے۔ 21 ستمبر امن کی فاختہ اڑا کر دیکھنے کا دن ہے، جب کہ 5 اکتوبر کو یوم استاد پر ایک یوم کے لیے سماجی و سرکای سنگ زنی معطل رہتی ہے۔ 16 نومبر کو رواداری و برد باری کی اصطلاحوں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ ان میں دل چسپ ترین دن ’’ہاتھ دھونے‘‘ کا عالمی دن ہے۔ بظاہر صفائی کی ترغیب کا دن سہی، مگر ازراہ تفنن کہا جا سکتا ہے کہ اس دن دنیا کی بہت سی شخصیات اپنی عزت، دولت یا عہدے سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ گویا یہ دن کسی بھی دن آسکتا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ کچھ چیزوں پہ ہاتھ صاف کر کے یہ دن منا لیتے ہیں، توکہیں ہاتھ دھو کر کسی کے پیچھے پڑ جانا بھی دیکھا جاتا ہے۔

انڈے کے عالمی دن کو تو موجودہ حالات میں ہمارے لیے ملت بیضا کی ترجمانی کا دن کہا جا سکتا ہے۔ ناک، کان، گلا، آنکھ، سرطان، ملیریا، تپ دق، جنگلات، ریڈیو، ٹی وی، زمین، خلا، بائیسکل، روشنی، توانائی، مرغی، بھینس، کٹا، دال، سبزی، خواندگی، مہاجرین، انسانی حقوق اور خوش رہنے کی طرح کے سینکڑوں دن منا منا کر چھوڑ دیے جاتے ہیں اور ذرایع اِبلاغ پر جلوہ آرائی دکھا کر بے عملی کی نذر ہو جاتے ہیں۔

جس رفتار سے موضوعات میں اضافہ ہو رہا ہے، سال کے 365 دن کم پڑتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور کچھ بعید نہیں کہ اس کے بعد راتوں کا سہارا بھی لینا پڑے۔ بہتر ہوگا کہ اس عدیم الفرصتی میں تمام عالمی دنوں کو کسی ایک دن ہی منا کر ’’عالمی دنوں کا عالمی دن‘‘ متعین کر لیا جائے، تاکہ باقی ایام میں عملی کاموں کا وقت اور موقع مل سکے۔ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ تناظر میں عالمی سطح پر عالمی دنوں کا ایک عظیم الشان ’’لنڈا بازار‘‘ سجا ہے اور اس بازار کا ہر تہوار ایسے گزر جاتا ہے، جس طرح کسی عام بازار سے ایک غریب اور نادار بغیر کچھ خریدے ہوئے گزر جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔