بزرگ رہنما مولانا عبدالقدوس بہاری

محمد اقبال چوہان  جمعـء 21 فروری 2014

مولانا عبدالقدوس بہاری 1898 میں گیاہ صوبہ بہار میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد عبداﷲ شاہ سے حاصل کی۔ آپ کے والد نے بغداد سے تعلیم حاصل کی اور گیاہ میں ایک دینی مدرسہ قائم کیا۔ مولانا عبدالقدوس بہاری کے دادا کو شمس العلما کا خطاب ملا۔ ابتدائی تعلیم گیاہ کے مدرسے میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے مولانا عبدالقدوس بہاری دیوبند گئے اور وہاں سے تعلیم حاصل کی اور آپ نے ایم اے کیا۔ آپ کو اردو، عربی، فارسی، ہندی زبانوں پر مکمل عبور حاصل تھا۔

تحریک پاکستان کی جدوجہد میں سرگرم کارکن کی حیثیت سے حصہ لیا۔ مولانا عبدالقدوس بہاری نے 1923 میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ مسلم لیگ میں شامل ہوتے ہی آپ نے پاکستان کی جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 1923 میں علمائے کرام نے تحریک خلافت شروع کی تو اس میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی جوہر اور دیگر علما کے ساتھ مل کر مولانا عبدالقدوس بہاری نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مولانا عبدالقدوس بہاری نے بہار میں مسلم لیگ کے زیر اہتمام ایک عظیم الشان جلسہ منعقد کروایا اور اس جلسے کی صدارت قائداعظم محمد علی جناح نے کی۔ صوبہ بہار میں تحریک پاکستان کی تحریک شروع ہوچکی تھی۔ صوبہ بہار کے جلسے سے مولانا عبدالقدوس بہاری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان بن کر رہے گا اور پاکستان کے لیے ہم خون کا آخری قطرہ تک بہا دیں گے، صوبہ بہار کے مسلمان بھی اس تحریک میں ساتھ ہیں، اب پاکستان کی تحریک چل چکی ہے، منزل قریب ہے، اس کے لیے سخت محنت اور جدوجہد کریں۔‘‘ بہار کے جلسے کے بعد پورے ہندوستان میں تحریک پاکستان زور پکڑ گئی۔ مولانا عبدالقدوس بہاری نے جب بہار میں مسلم لیگ کا جلسہ منعقد کروایا تو مولانا کے لیے سخت مشکلات پیدا ہوگئیں لیکن انھوں نے اس کی بھی پرواہ نہیں کی اور پاکستان کی تحریک میں اور سرگرم ہوگئے۔ مولانا عبدالقدوس بہاری نے صوبہ بہار، آسام اور دوسرے صوبوں میں بھی مسلم لیگ کو منظم کیا۔

مولانا عبدالقدوس بہاری قائداعظم کے رفقا میں شمار کیے جاتے تھے۔ 23 مارچ 1940 کو لاہور میں قرارداد پاکستان جب پیش کی جا رہی تھی اس وقت قائداعظم محمد علی جناح نے ایک خط کے ذریعے مولانا عبدالقدوس بہاری کو تحریر کیا کہ آپ بہار سے ایک وفد کی شکل میں اس جلسے میں شامل ہوں۔ مولانا عبدالقدوس بہاری ایک وفد کی شکل میں اس میں شامل ہوئے۔ ادھر صوبہ بہار میں مسلم لیگ کے تاریخی جلسے کے بعد فسادات ہونے لگے۔ ہندوؤں اور مسلمانوں میں سخت کشیدگی پھیل گئی۔ یہ فسادات پہلے آہستہ آہستہ بہار میں پھیلے۔ بہار میں مولانا عبدالقدوس بہاری جوکہ ایک زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے انتہا پسندوں نے بلوے کرکے ان کی املاک کو نذرآتش کردیا اور زمین اور باغات کو شدید نقصانات پہنچائے۔ مولانا عبدالقدوس بہاری نے اس کی بھی پرواہ نہیں کی بلکہ مولانا عبدالقدوس بہاری نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم تحریک پاکستان کے لیے اور شدت سے کام کرنا شروع کردیا اور انھیں جدوجہد آزادی کی وجہ سے صوبہ بہار سے صوبہ بدر ہونا پڑا۔ بہار میں مسلمانوں کی جان کو خطرہ لاحق ہوگیا اور اس کے لیے بہار کے مسلمان متحد ہوگئے لیکن پورے ہندوستان میں فسادات پھیل گئے۔

1945 اور 1946 کے انتخابات میں صوبہ سندھ میں انتخابات کا سخت معرکہ تھا اور اس کے لیے مسلم لیگ کے امیدواروں کی حمایت میں مولانا عبدالقدوس بہاری کی سربراہی میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے جو وفد سندھ میں بھیجا تھا قائداعظم محمد علی جناح کے کہنے پر مولانا عبدالقدوس بہاری ، مولانا طاہر قاسمی، مولانا عبدالقیوم کانپوری اور چند دوسرے علما نے سندھ کے انتخابی جلسے میں بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کیا اور ان جلسوں سے مسلم لیگ کی کامیابی یقینی ہوگئی۔ جب انتخابات کی اہمیت اس وجہ سے بھی زیادہ تھی کہ وہ پاکستان کے نام پر لڑے گئے تھے ان انتخابات میں مسلم لیگ کو مسلم اقلیتی صوبوں میں بھی کامیابی حاصل ہوئی۔ ان انتخابات میں بمبئی، اڑیسہ، بہار اور مدراس کے صوبے میں تو مسلم لیگ نے 100 فیصد نشستیں حاصل کیں ۔ سندھ میں کامیابی کے ساتھ ساتھ صوبہ پنجاب، صوبہ بلوچستان اور صوبہ سرحد(خیبر پختون خوا) میں بھی مسلم لیگ کو کامیابی ہوئی۔ مسلم لیگ کی اتنی بڑی کامیابی پر کئی صوبوں میں فسادات پھوٹ پڑے اور قائداعظم محمد علی جناح نے 1946 میں بنارس کے مقام پر علما اور مشائخ کے اجلاس میں مولانا عبدالقدوس بہاری کو ریلیف کمیٹی کا صدر بنایا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے دہلی سے آکر ریلیف کمیٹی بنائی اس اجلاس میں مولانا عبدالقدوس بہاری نے خصوصی شرکت کی تھی۔

قائداعظم محمد علی جناح نے مولانا عبدالقدوس بہاری کو سندھ میں مسلم لیگ کو بھاری اکثریت سے کامیابی پر مبارک باد دی اور پورے ہندوستان میں جو فسادات پھوٹ پڑے تھے ان فسادات میں اقلیتی صوبوں میں مسلمانوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا تو آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس قائداعظم کی صدارت میں ہوا اور اس اجلاس میں مسلم لیگ کے سرکردہ لیڈروں نے شرکت کی کہ ایک اسپیشل ٹرین بہار روانہ کی جائے کہ وہاں کے مظلوم اور بے گھر کیے جانے والے مسلمانوں کو سندھ میں آباد کیا جائے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اس موقع پر ان مہاجرین کی آبادکاری کے لیے خصوصی فنڈ دے کر دوبارہ کراچی بھیجا۔ چنانچہ مولانا عبدالقدوس بہاری کی نگرانی میں کراچی میں پہلی مہاجر بستی ’’بہار کالونی‘‘ لیاری میں آباد کی۔

مولانا عبدالقدوس بہاری نے بہار کے مہاجرین کی آبادکاری کے لیے خود بڑھ چڑھ کر کام کیا اور تمام مہاجرین کو کھانا پہنچانے اور ان کی دیکھ بھال کے لیے ان کی خدمت پر مامور ہوگئے اور بہار کالونی میں ان کو آباد کیا اور ان کے لیے محنت اور جدوجہد کرتے رہے، اور ساتھ میں فلاح و بہبود کے کام بھی کرتے رہے۔ مسلم لیگ کے لیے انھوں نے زور شور سے کام شروع کردیا، اس کے لیے انھوں نے کراچی میں مختلف علاقوں میں مسلم لیگ کو منظم کیا۔ مولانا عبدالقدوس بہاری نے ان انتخابات میں ایسی چال چلی کہ نہ صرف یہ کہ سندھ کے ہندوؤں کو شکست ہوئی بلکہ مخالفین کی ضمانتیں بھی ضبط ہوگئیں جن ممبران نے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی تھی۔ ان کے اعزاز میں مولانا عبدالقدوس بہاری نے ایک ظہرانہ دیا تھا، جس میں قائداعظم محمد علی جناح بھی شریک ہوئے تھے، سندھ میں جو وزارت بنی وہ مسلم لیگ نے بنائی۔

مولانا عبدالقدوس بہاری نے جس طرح خدمت پاکستان کی سرگرمیوں میں حصہ لیا اسی طرح اسی جذبہ اور لگن کے ساتھ مولانا نے پاکستان کی تشکیل کے بعد بھی کام کیا۔ اس وقت پورے پاکستان میں مہاجرین ہجرت کرکے پاکستان آرہے تھے، ان مہاجرین کی آبادکاری بھی کرنی تھی۔ قائداعظم محمد علی جناح سب سے پہلے پاکستان کے گورنر جنرل بنے اور حلف اٹھاتے ہی ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہوگئے۔ پاکستان میں مہاجرین کی آبادکاری کا سلسلہ شروع تھا۔ مولانا عبدالقدوس بہاری نے مہاجرین کی آبادکاری اور کھانے کے لیے سخت محنت اور جدوجہد شروع کردی۔ مولانا عبدالقدوس بہاری نے مہاجرین کے جو قافلے کراچی، حیدرآباد، سکھر، میرپورخاص اور اندرون سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں میں ہجرت کرکے آئے ان کی بے لوث خدمات انجام دیں اور اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر انھوں نے مہاجرین کی آبادکاری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

تحریک پاکستان کے کارکن مولانا عبدالقدوس بہاری جب بیمار ہوئے اور ان کو دل کا شدید دورہ پڑا ملک کے ممتاز اخبارات نے اپنے اداریے تحریر کیے، تو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے مولانا عبدالقدوس بہاری کو علاج معالجہ کرانے کی پیش کش کی گئی، انھوں نے اپنا علاج معالجہ کرانے سے روک دیا اور کہا کہ میں نے زندگی میں کبھی بھی کسی انسان کا احسان نہیں لیا اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں جو دولت ہے وہ حکومت پاکستان کی دولت ہے، میں پاکستان کو فائدہ تو پہنچا سکتا ہوں لیکن پاکستان کی دولت کو ناجائز طور پر اپنے علاج پر خرچ نہیں کرسکتا۔ تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور قائداعظم محمد علی جناح کے ایک پرجوش ساتھی مولانا عبدالقدوس بہاری 14 فروری بروز جمعرات اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ان کے انتقال پر ملک کے اخبار و رسائل نے اداریے تحریر کیے اور اس وقت کے صدر اور وزیراعظم نے ان کی موت کو ایک عظیم سانحہ قرار دیا۔ تحریک پاکستان کا یہ کارکن زندگی بھر ملک اور قوم کی خدمت کرتا رہا۔ لیکن ان کی زندگی میں تو کجا مرنے کے بعد بھی آج تک حکومت پاکستان کی طرف سے کوئی گولڈ میڈل یا تمغہ نہیں دیا گیا یا ان کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا۔ مولانا عبدالقدوس بہاری نے زندگی میں دو شادیاں کیں ان کی پہلی بیوی سے تین لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں اور دوسری بیوی سے ایک لڑکا ہے۔ تحریک پاکستان کا یہ سرگرم کارکن پوری زندگی ملک اور قوم کی خدمت کرتا رہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔