صنفی، اقتصادی، سماجی اور ماحولیاتی انصاف

مہ ناز رحمن  جمعـء 21 فروری 2014

اس ہزاریے کے آغاز میں اقوام متحدہ نے دنیا بھر کے ممالک کے لیے کچھ ترقیاتی مقاصد مقرر کیے تھے جن پر 2015 تک عمل ہونا تھا اور آج کل اقوام متحدہ مستقبل میں بین الاقوامی ترقی کا لائحہ عمل طے کرنے میں مصروف ہے اور دنیا بھر کی عورتیں خواہ ان کی عمر، شناخت، نسل اور ثقافت کوئی بھی ہو صنفی، اقتصادی، سماجی اور ماحولیاتی انصاف اور سب کے لیے امن کے قیام کے لیے متحرک ہو رہی ہیں۔ عورتوں کا مطالبہ ہے کہ موجودہ ترقیاتی ماڈل میں بنیادی تبدیلیاں کی جائیں کیونکہ یہ ماڈل ممالک کے درمیان، ممالک کے اندر اورعورتوں اور مردوں کے درمیان دولت، اختیارات اور وسائل کی غیر مساوی تقسیم کو فروغ دیتا ہے۔ دنیا بھر کی عورتیں حالیہ ریاست کے تحفظ کے نظریے کو چیلنج کرتی ہیں جس کے تحت ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا ہے جن سے ممالک کے درمیان پرتشدد تنازعات میں اضافہ ہوتا ہے۔

خواتین ترقی کے حالیہ نیولبرل اقتصادی ماڈل کی نظریاتی قلب ماہیت چاہتی ہیں کیونکہ موجودہ ماڈل میں منافع کو انسانوں پر ترجیح دی جاتی ہے، نا برابری میں اضافہ ہوتا ہے، جنگیں اور تنازعات جنم لیتے ہیں، عسکریت پسندی، پدر شاہی، ماحولیاتی تباہی میں اضافہ ہوتا ہے۔ عورتیں ایسے اقتصادی ماڈلز اور ترقیاتی نظریوں کے حق میں ہیں جن کی جڑیں انسانی حقوق اور مالیاتی پائیداری میں ہوں، جو لوگوں اور ممالک کے درمیان نا برابری کا خاتمہ کریں، جو انصاف کی خاطر طاقت کے رشتوں میں نیا توازن پیدا کریں تاکہ پائیدار امن، مساوات، لوگوں کی خود اختیاری اور کرہ ارض کی سلامتی ممکن ہوسکے۔

اس تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ عورتوں پر سماجی اور اقتصادی غیر منصفانہ اور عدم مساوی بوجھ کو ختم کیا جائے۔ اس پر بھی توجہ دی جائے کہ ہم کس طرح کی اقتصادی افزائش چاہتے ہیں۔ یہ ترقی اور افزائش سب کی فلاح و بہبود کے لیے ہونی چاہیے۔ نا برابری پیدا کرنے والے سارے عوامل سے نمٹا جائے اسی طرح صنف، عمر، طبقہ، ذات، نسل، ثقافتی یا مذہبی پس منظر کی بنا پر ہونے والے امتیازات کا خاتمہ کیا جائے۔ایک ترقیاتی ماڈل جو ہر عمر اور تشخص کی عورتوں اور لڑکیوں کے لیے قابل عمل ہوگا اسے بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمے داریوں سے جڑا ہونا چاہیے۔ یہ ماڈل ترقی پسندانہ ہو اور ریوڈی جنیرو میں ہونے والی کانفرنس میں طے کردہ اصولوں کے مطابق ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سارے ممالک بین الاقوامی انسانی حقوق کے معاہدوں کی توثیق کریں اور ان پر عملدرآمد بھی کریں۔ ہمیں 2015 کے بعد ایک ایسا پائیدار ترقیاتی فریم ورک درکار ہے جس میں سب کی سماجی شمولیت اور سب کے ساتھ انصاف ہو، سارے انسانوں کو تحفظ ملے اور سب کے ساتھ انصاف ہو۔ حالیہ سیکیورٹی نظریے کا ازسر نو جائزہ لیا جائے۔ اخراجات اور پیداوار کے حالیہ ماڈل کو تبدیل کرکے پائیدار صرف، پیداوار اور تقسیم کا ماڈل لایا جائے اور ماحولیاتی پائیداری کا نیا منصوبہ بنایا جائے۔

خواتین چاہتی ہیں کہ سیاسی ذمے داری کا احساس پیدا کیا جائے اور دیر پا ترقی، امن و احترام، تحفظ اور عورتوں کے انسانی حقوق کو پورا کرنے کی راہ میں حائل مالیاتی اور قانونی رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ مسلح تنازعوں، تشدد، امتیازی رویوں، غربت کا بوجھ عورتوں پر ڈالنے، قدرتی وسائل کو خریدنے اور بیچی جانے والی اجناس میں تبدیل کرنے والے رویوں کو فروغ دینے والے نامنصفانہ سماجی، اقتصادی اور ماحولیاتی حالات کو تبدیل کیا جائے تاکہ عورتیں بااختیار ہوسکیں، انھیں انسانی حقوق اور صنفی مساوات حاصل ہو۔ عورتوں کا مطالبہ ہے کہ:

(1)۔پائیدار ترقی کے لیے جو بھی مقاصد اور حکمت عملی بنائی جائے، ان میں صنفی مساوات کو پیش نظر رکھا جائے۔ ترقیاتی ایجنڈے پر اسے الگ سے بھی ایک مقصد قرار دیا جائے۔ اختیارات، دولت اور وسائل کو بشمول انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے ازسرنو تقسیم کیا جائے۔ عورتوں اور بچیوں کو بااختیار بنانے کے لیے ایک سازگار ماحول پیدا کیا جائے۔ جبری شادیوں، غیرت کے نام پر قتل اور جنسی تشدد سمیت ہر طرح کے صنفی تشدد کا خاتمہ کیا جائے۔ امتیازی رویوں کو ختم کیا جائے۔

(2)۔صحت کے بارے میں جو بھی پالیسی بنائی جائے اس میں جنسی اور تولیدی صحت اور حقوق کو بھی شامل کیا جائے۔

(3)۔تعلیمی پالیسی بناتے وقت ان سماجی، ثقافتی اور برادری کے رواجوں کا بھی تدارک کیا جائے جو بچیوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ بچیوں کے تحفظ، حفظان صحت اور نقل و حرکت کی سہولتوں کا بھی خیال رکھا جائے۔ ساری عورتوں کو رسمی اور غیر رسمی تعلیم فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنے انسانی حقوق سے آگاہ ہوسکیں تعلیمی نصاب میں صنفی حساسیت کو ملحوظ رکھا جائے اور گھسے پٹے فرسودہ تصورات کا خاتمہ کیا جائے۔ اساتذہ کو غیر متعصبانہ تعلیم دینے کی تربیت دی جائے۔

(4)۔اقتصادی انصاف کو یقینی بنانے کے لیے ایک سازگار بین الاقوامی ماحول پیدا کیا جائے اور ممالک کے درمیان ہونے والے عالمی معاہدوں کا احترام کیا جائے۔ سماجی تحفظ کی فراہمی کا آفاقی نظام بنایا جائے تاکہ ہر عمر کے شخص کی صحت کی بنیادی سہولتوں، بچوں اور بوڑھوں کی دیکھ بھال، تعلیم، خوراک، پانی، صفائی، توانائی، رہائش اور روزگار تک رسائی ہوسکے۔

(5)۔ماحولیاتی انصاف کو فروغ دینے کے لیے ماحولیاتی نظام کو صحت مند بنایا جائے اور فطرت کو خریدنے اور بیچنے والی چیز نہ سمجھا جائے۔ صحت کے لیے نقصان دہ مادوں کو ختم کیا جائے۔ خوراک اور پانی کا حصول سب کے لیے یقینی بنایا جائے۔ اقوام متحدہ کے سمندر کے قانون کے کنونشن کو مضبوط بنایا جائے۔

جہاں تک حکمرانی اور احتساب کا تعلق ہے، خواتین کا مطالبہ ہے کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بجائے پبلک فنانسنگ اور اس کے ساتھ ساتھ شفافیت اور احتساب کو ترجیح دی جائے۔ نجی شعبہ منافع پر چلتا ہے، اسے سماجی ضروریات اور عوامی فلاح و بہبود کی چیزوں پر خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ دنیا کی 100 سب سے بڑی معیشتوں میں سے 37 کارپوریشنیں ہیں جنھیں بین الاقوامی انسانی حقوق اور ماحولیاتی ذمے داریاں پوری کرنے کی ضرورت نہیں ہے جب کہ پبلک سیکٹرکی ذمے داریوں میں غربت کے خاتمے اور فلاح وبہبود کے لیے سرمایہ کاری کرنا شامل ہے۔ سرکاری بجٹ شفاف ہو، اس پر عوامی مباحثہ ہو اور اس میں صنفی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔