’’گڈ گورننس کی بنیاد دیانت داری ہے‘‘

سید عاصم محمود  اتوار 13 مارچ 2022
اخلاقیاتِ انسانی اور انداز ِحکمرانی پہ روشنی ڈالتی وزیراعظم سنگاپور کی پارلیمنٹ میں معرکتہ آلارا تقریر۔ فوٹو : فائل

اخلاقیاتِ انسانی اور انداز ِحکمرانی پہ روشنی ڈالتی وزیراعظم سنگاپور کی پارلیمنٹ میں معرکتہ آلارا تقریر۔ فوٹو : فائل

سچ و جھوٹ کے مابین کشمکش 3 اگست 2021ء کو شروع ہوئی۔اس دن سنگاپور پارلیمنٹ کی رکن، رئسیہ خان نے اپنی مملکت کی پولیس فورس پر ایک الزام لگا دیا:’’یہ کہ 2018 ء میں وہ بے حرمتی کا نشانہ بنی ایک خاتون کے ساتھ پولیس اسٹیشن گئی۔وہاں پولیس افسر نے متاثرہ خاتون سے نازیبا جملے کہے۔‘‘

رئیسہ خان نے پھر مطالبہ کیا کہ پولیس کو اخلاقیات و قانون کا پابند بنایا جائے۔وزیر داخلہ ، ڈیسمنڈ تان نے جواباً کہ یہ الزام بہت سنجیدہ ہے اور اس کی چھان بین ہو گی۔ محکمہ پولیس نے اپنا ریکارڈ چیک کیا مگر ایسے کسی کیس کا ذکر نہیں ملا جو رئیسہ خان کے کیس سے ملتا جلتا ہو۔

رکن پارلیمنٹ سے مذید تفصیل پوچھی گئی مگر اس نے بتانے سے انکار کر دیا۔آخر 1 نومبر کو رئیسہ نے اعتراف کیا کہ وہ متاثرہ خاتون کے ساتھ پولیس اسٹیشن نہیں گئی بلکہ اس نے چند خواتین سے یہ واقعہ سنا۔اور یہ کہ متاثرہ خاتون سے سچائی جانے بغیر اس نے معاملہ پارلیمنٹ میں پیش کر دیا۔گویا آخرکار یہ سچ سامنے آیا کہ رئیسہ نے پارلیمنٹ میں دروغ گوئی کی اور ملکی پولیس پہ خواہ مخواہ الزام دھر کے اسے معطون و اسکینڈل زدہ کر دیا۔

جھوٹ سے کیرئیر تباہ
اس واقعے کی مزید تفتیش کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنا دی گئی۔30 نومبرکو رئیسہ خان نے پارلیمنٹ سے استعفی دے دیا۔وہ اپوزیشن جماعت، ورکرز پارٹی کی سب سے نوجوان رکن تھی۔پاکستانی نژاد والد اورعرب خاتون کی بیٹی ہے۔ایک تابناک سیاسی کیرئیر اس کا منتظر تھا۔لوگوں کو رئیسہ سے بڑی توقعات وابستہ تھیں مگر ایک جھوٹ نے سارے کیے کرائے پہ پانی پھیر دیا۔10 فروری 2022 ء کو پارلیمانی کمیٹی نے دروغ گوئی کرنے پہ اس پر بھاری جرمانہ کر ڈالا۔ورکرز پارٹی کی قائد، پریتم سنگھ اور اس کا ساتھی، محمد فیصل بھی شریک جرم پائے گئے۔ان سب پہ مقدمہ چلنے کا امکان بھی ہے۔

مودی سرکار میں کھلبلی
15 فروری کو پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ کو پارلیمنٹ میں وزیراعظم سنگاپور، لی ہیسن لونگ نے تقریر کا موضوع بنایا اور یادگار خطاب کیا۔تقریر کا جوہر یہ نکتہ تھا کہ حکمران طبقے کو ہر حال میں دیانت دار ہونا چاہیے اور یہ کہ حکومت کی بنیاد اخلاقیات پہ استوار ہونا ضروری ہے تبھی وہ عوامی فلاح وبہبود کے کام کر سکتی ہے۔اسی تقریر میں انھوں نے بھارتی پارلیمنٹ کا حوالہ دیا جہاں سیاست دان نہیں مجرم بیٹھے ہیں۔یہ حوالہ دینے پہ مودی سرکار میں کھلبلی مچ گئی اور سچ عیاں ہونے پہ بہت چراغ پا ہوئی۔عالمی سطح پہ بھد اڑنے پر ’’سب سے بڑی جمہوریت‘‘کے حکمرانوں کو بہت تائو آیا۔

غربت سے امارات تک
یہ واضح رہے، سنگاپور پہ سو سال تک انگریزوں کا قبضہ رہا۔وہاں چینی، ملائی اور ہندوستانی باشندے آ کر بس گئے۔ہندوستانیوں میں سے کئی لوگوں کا تعلق موجودہ پاکستانی علاقوں سے تھا۔دوسری جنگ عظیم میں جزیرے پہ جاپان نے قبضہ کر لیا۔جنگ کے بعد تینوں بڑے فرقوں کے مابین سیاسی، معاشی و لسانی جھگڑے شروع ہو گئے۔مملکت کچھ عرصہ وفاق ِملائشیا میں شامل رہی پھر فرقہ وارانہ جھگڑوں کی وجہ سے ہی الگ ہو گئی۔اس وقت موجودہ وزیراعظم کے والد، لی کیوان حکمران تھے۔

ان کا ویژن یہ تھا کہ ریاست صرف اسی وقت ترقی کرے گی جب فرقہ واریت ختم ہو کر امن وامان قائم ہو جائے۔انھوں نے پولیس کو بہت اختیار دئیے تاکہ شرپسندوں کی سرکوبی ہو سکے۔1960ء کی دہائی میں پاکستان سے پولیس و سی ایس پی افسر سنگاپور گئے تھے تاکہ وہاں مضبوط پولیس فورس کے قیام میں لی کیوان حکومت کی مدد کر سکیں۔قانون کے سختی سے نفاذ کے عمدہ نتائج نکلے۔نہ صرف فرقوں کے درمیان جھگڑے ختم ہوئے بلکہ وہ مل جل کر ریاست کی تعمیر میں جت گئے۔

اعلی اخلاقی اقدار
سنگاپور قدرتی وسائل سے محروم چھوٹا سا ملک تھا۔اکثر لوگ بیروزگار تھے اور چھوٹی موٹی ملازمتیں کر کے پیٹ پالتے۔مگر جب امن امان قائم ہوا اور لی کیوان نے قانون کی حکمرانی قائم کر دی تو بیرون ممالک کی کمپنیاں سنگاپور میں دفاتر کھولنے لگیں۔جلد ریاست کاروباری اور ریاستی سرگرمیوں کا مرکز بن گئی۔آج وہاں دنیا بھر کی سات ہزار ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر واقع ہیں۔یوں سنگاپور ترقی و خوشحالی کی راہ پہ چل پڑا۔آج یہ چھوٹا سا ملک 600 ارب ڈالر کا جی ڈی پی رکھتا ہے۔

جبکہ فی کس آمدن کئی ترقی یافتہ مغربی ممالک ، کینیڈا، آسٹریلیا، سویڈن، ہالینڈ، آسٹریا وغیرہ سے بھی زیادہ ہے۔لی کیوان مثالی حکمران تھے۔انھوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ریاست میں کسی فرقے کو طاقت یا کثرت کی بنا پہ فوقیت نہ ملے بلکہ میرٹ ترقی کا واحد پیمانہ قرار پایا۔انھوں نے خود کرپشن نہ کی اور نہ دوسروں کو کسی قسم کی بے ایمانی کرنے دی۔حکمران طبقے میں اعلی اخلاقی اقدار کو پروان چڑھایا۔

موجودہ وزیراعظم سنگاپور بھی والد کا پرتو ہیں۔یہ پس منظر جان کر 70 سالہ جہاں دیدہ و تجربہ کار لی ہیسن لونگ کی تقریر کے اہم حصے ملاحظہ فرمائیے۔اس میں پاکستان کے حکمران طبقے اور عوام کے لیے ایسے اہم اسباق موجود ہیں جن کی مدد سے ہم بھی اپنے وطن کو ترقی یافتہ و خوشحال بنا سکتے ہیں۔

٭٭

جناب اسپیکربظاہر مجھے رئیسہ خان کے معاملے پہ بنی پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ پہ اظہار خیال کرنا ہے۔مگر اس سے وابستہ زیادہ بڑا موضوع یہ ہے کہ ہمیں سنگاپور میں کس قسم کا حکومتی نظام قائم کرنا ہے؟وہ کون سی اقدار وروایات ہیں جن کے ذریعے ایک حکومت کامیاب ہوتی ہے؟اور حالیہ کیس سے ہم کیسے سیکھ سکتے ہیں کہ اپنی اقدار کو محفوظ رکھیں۔

ہمارے سامنے یہ اہم سوال بھی ہے کہ ہم مستقبل میں اپنی جمہوری حکومت کو کیونکر مضبوط وتوانا بنائیں تاکہ وہ عام آدمی کو آرام وآسائش مہیا کر سکے اور قوم ترقی کرے؟پہلی بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں حکومت اسی وقت کامیاب ہوتی ہے جب وہاں قوم کی اخلاقیات اعلی ہوں۔یعنی عام لوگ آسانی سے نیکی اور بدی میں تمیز کر لیں!انسانی تاریخ دیکھ لیجیے، جب بھی کہیں معیاری حکومت آئی، وہاں عوام وخواص اعلی اخلاقی اقدار رکھتے تھے۔

ترقی کا چکر
جس ریاست میں حکمران اور عوام، دونوں اخلاقی اقدار سے متصف ہوں، وہیں گڈ گورننس (اچھا نظام حکومت) وجود میں آتی ہے۔اور گڈ گورننس ہی سے ملک وقوم کی تعمیر وترقی ہوتی ہے۔طاقتور ادارے مثلاً پارلیمنٹ، بیوروکریسی، عدلیہ، فوج اورپولیس بنتے ہیں جو ترقی کا چکر بخوبی رواں دواں رکھتے ہیں۔یہ اشد ضروری ہے کہ ان قومی اداروں میں دیانت دار افراد موجود ہوں جو کرپشن نہ کریں اور اپنے فرائض ایمان داری سے انجام دیں۔

جمہوری حکومت کے استحکام و تعمیر میں پارلیمنٹ کا بنیادی کردار ہے کہ وہیں قانون واصول بنتے ہیں۔ملک کو آگے لے جانے والی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔اس باعث یہ ضروری ہے، ارکان ِپارلیمنٹ دیانت دار ہوں۔کبھی جھوٹ نہ بولیں۔اگر ان سے غلطی ہو تو سرعام اس کا اقرار کریں۔جھوٹ چھپانے کے لیے آئیں بائیں شائیں نہ کریں۔ذاتی مفاد پہ قومی مفاد کو ترجیح دیں۔ہمیشہ یاد رکھیں کہ وہ عوام کے سامنے جواب دہ ہیں۔

اقدار کی کمزور ی
ایک ریاست میں عوام وخواص میں اخلاقی اقدار پروان چڑھاتے ہوئے کئی عشرے لگ سکتے ہیں۔مسلسل سعی وکوشش اور جوش و جذبے سے ہی کامیابی ملتی ہے۔تب بھی لازم نہیں کہ کامیابی مل جائے۔دنیا کے کئی ممالک کی بنیاد اعلی اخلاقی نظریات اور آدرشوں پہ رکھی گئی۔ان کے بانی بلند عزائم رکھتے تھے۔لیکن آنے والی نسلیں اخلاقی اقدار محفوظ نہ رکھ سکیں۔اقدار کے کمزور ہونے سے حالات بھی تبدیل ہو گئے۔چناں چہ ان ملکوں میں عمدہ حکومتیں نہ بن سکیں اور سیاست دانوں کی عزت کم ہو گئی۔

المّیہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں اخلاقی اقدار کے زوال کو سنجیدگی سے نہ لیا گیا۔یوں معاشرے میں بے ایمانی بڑھی اور قوم تباہی کے گڑھے میں دھنسنے لگی۔آج کئی ملک اپنے بانیوں کے اعلی ویژن اور اخلاقی معیار پہ پورا نہیں اترتے۔

اسرائیل اور بھارت
مثلاً بن گوریان کے اسرائیل کو لیجیے۔ وہاں پہ عرصہ دراز سے یہ مسئلہ درپیش ہے کہ کوئی مضبوط حکومت آ ہی نہیں پاتی۔ بیشتر سیاست دانوں پہ کرپشن کے مقدمے چل رہے ہیں۔بعض تو جیل بھی جا چکے۔اسی طرح نہرو کے بھارت کا حال دیکھیے۔میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق بھارتی پارلیمنٹ کے تقریباً آدھے ارکان پہ مقدمے چل رہے ہیں۔ان میں ریپ اور قتل کے کیس بھی شامل ہیں۔ گو کہا جاتا ہے کہ ان کی نوعیت سیاسی ہے۔

مضبوط نظام حکومت
سوال یہ ہے کہ دیگر ممالک جن خرابیوں کا شکار ہو چکے، ہم سنگاپور کو ان سے کیسے محفوظ رکھیں ؟دوسری صورت میں زوال بھی ہمارا مقدر بن جائے گا۔ یہ اسی صورت ممکن ہے کہ ہم اخلاقیات اور قانون کا دامن تھامے رکھیں۔ہمارے بزرگوں نے مضبوط نظام حکومت اور قومی ادارے بنانے میں بہت محنت کی ہے۔

1966 ء میں اپوزیشن پارٹی نے پارلیمنٹ کو خیرباد کہہ دیا تھا۔تب ممکن تھا کہ لی کیوان آئین تبدیل کر کے یک جماعتی حکومت قائم کر لیتے۔انھیں کوئی نہ روک پاتا۔مگر نہیں،انھوں نے کہا کہ عمدہ نظام حکومت کی تشکیل کے لیے حزب اختلاف کا ہونا ضروری ہے۔پھر وہ یہ بھی جانتے تھے کہ حکمران جماعت میں ساری طاقتیں مرتکز ہو گئیں تو وہ آمر کا روپ دھار لے گی۔یہ صورت حال سنگاپور کو نقصان پہنچا سکتی تھی۔ اس لیے ہمارے بزرگوں نے جمہوریت کو بحال رکھا اور قومی ادارے… پارلیمنٹ، عدلیہ، بیوروکریسی، فوج اور پولیس مضبوط بنائے۔
انھوں نے یہ خیال رکھا کہ سنگاپور چند لیڈوں پہ انحصار نہ کرے بلکہ اداروں کو طاقتور و بااختیار بنایا تاکہ عمدہ نظام حکومت تشکیل پا سکے۔مگر ان اداروں کو قابل، دیانت دار ل

وگ درکار تھے۔ لہذا ان کی تعلیم وتربیت کرنے والے ادارے بھی بنائے۔ اس طرح سنگاپور ترقی وخوشحالی کی راہ پہ گامزن ہو گیا۔
اب یہ ہماری آنے والی نسلوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اس حکومتی نظام کو تحفظ دیں اور زیادہ سے زیادہ مضبوط بنائیں جو ہمیں ورثے میں ملا۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم دیانت دار اور بااصول ہوں۔ ہر قیمت پہ قوانین کا نفاذ کریں۔ہر شہری قانون کی نظر میں برابر ہو۔اور کوئی بھی قانون سے بالاتر نہ ہونے پائے۔اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب رہے تو ہمارا حکومتی نظام عمدگی سے کام کرتا رہے گا۔

حکومت مضبوط کرنے والا عنصر
ایسے ہی نظام میں رہنے والے عوام اپنے حکمران طبقے پہ اعتماد کرتے ہیں۔تب جمہوری حکومت نشوونما پاتی اور مستحکم ہوتی ہے۔وجہ یہی کہ حکمران اور عوام، دونوں اعلی اقدار و روایات اختیار کر لیتے اور ان پہ عمل پیرا ہوتے ہیں۔

سنگاپور ترقی وخوشحالی کی راہ پہ گامزن رہے گا۔مگر ہم کسی بھی وجہ سے سست پڑ گئے یا اپنے اصول تج دئیے تو قدرتاً ہمارا سیاسی، معاشرتی اور معاشی ڈھانچا کمزور ہونے لگے گا۔لہذا یہ ضروری ہے کہ ہماری اقدار وروایات مستحکم رہیں اور کبھی ماند نہ پڑنے پائیں۔سوال یہ ہے کہ اس ڈھانچے کو مضبوط تر رکھنے والا اہم عنصر کون سا ہے؟میرے نزدیک یہ عنصر ’’اعتماد‘‘ہے۔دسمبر 2020 ء میں امریکا کاسابق وزیر خارجہ ،جارج شلٹز سو سال کا ہوا تو ایک مضمون سپرد ِقلم کیا۔وہ لکھتا ہے:

’’میں نے اپنی سو سالہ زندگی میں ایک اہم سبق پایا ہے:’’اعتماد ہی حیات ِانسانی کی کرنسی ہے۔جب کسی بھی جگہ اعتماد موجود ہو تو وہاں ہر کام عمدگی سے انجام پاتا ہے۔اگر وہاں سے اعتماد رخصت ہو جائے تو پھر کوئی کام اچھی طرح نہیں ہوتا۔‘‘

سنگاپور خوش قسمت ملک ہے کہ یہاں تمام شہری ایک دوسرے پہ اعتماد رکھتے ہیں۔ہم نے بڑی محنت اور جدوجہد سے ایسا معاشرہ تیار کیا جہاں باہمی اعتمادکا دور دورہ ہے۔ہم اس کی نشوونما بہت سنجیدگی اور تحمل سے کرتے رہے اور اعتماد کی روشنی ماند نہ پڑنے دی۔یہی وجہ ہے جب بھی ہمیں کسی بھی قسم کی جنگ کرنا پڑے تو اعتماد کی طاقت کا موثر ہتھیار ہمارے پاس موجود ہوتا ہے جس سے فتح ہمارا مقدر بنتی ہے۔

زوال کی وجہ
دنیا میں کئی معاشرے اعتماد نہ ہونے سے زوال پذیر ہیں۔امریکا ہی کو لیجیے۔وہاں لاکھوں ری پبلیکن ووٹر سمجھتے ہیں کہ صدارتی الیکشن 2020ء کھلم کھلا فراڈ تھا۔انھیں اب اپنے قومی اداروں پہ اعتماد نہیں رہا۔وہ جو بائیڈن کو غیر قانونی صدر سمجھتے ہیں۔اب بتائیے کہ ایسے مخالفانہ ماحول میں حکومتی نظام عمدگی سے کیونکر چل سکتا ہے؟اس پہ تو لاکھوں امریکی اعتماد ہی نہیں رکھتے۔چناں چہ امریکا میں اب ہر معاملہ بحث و مباحثے کا شکار ہو کر لٹک جاتا ہے۔اس باعث امریکی معاشرہ زوال کا نشانہ بنتا جا رہا ہے۔

حکومتی نظام پر عوام کے عدم اعتماد کی وجہ سے ہی لاکھوں امریکیوں نے ویکسیسن نہیں لگوائی۔وہ ماسک بھی نہیں پہنتے اورآئے دن حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔کئی تو حکومت کے خلاف بغاوت پہ آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔انہی وجوہ کی بنا پر امریکا میں کوویڈ19 سے اموات بھی زیادہ ہوئیں۔

اب برطانیہ پہ نگاہ دوڑائیے جہاں ’’پارٹی گیٹ اسیکنڈل‘‘ نے ہلچل مچا دی۔ اس نے ویسٹ منسٹر …پارلیمنٹوں کی ماں میں جنم لیا۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق یہ اسکینڈل اس لیے رونما ہوا کہ برطانوی لیڈرشپ اپنی ذمے داریاں بخوبی ادا کرنے میں ناکام رہی۔حکمران اپنے ہی بنائے قوانین توڑ کرگلچھڑے اڑاتے رہے۔یوں موجودہ برطانوی قیادت نے عوام کا اعتماد توڑ ڈالا اور کوویڈ19 قابو کرنے کے اپنے پروگرام کو بے اعتبارا بنا دیا۔

قومی اداروں میں دیانت داری
یہ یاد رکھیے کہ ہمارے معاشرے میں اعتماد کی فضا موجود ہے، مگر اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ یہ سنگاپور میں ہمیشہ چھائی رہے گی۔لہذا یہ ضروری ہے کہ ہم سب اپنی اعلی اخلاقی و قانونی اقدار سے پیوست رہیں اور انھیں مضبوطی سے تھامے رکھیں۔ یہ تبھی ممکن ہے کہ ہماری قیادت دیانت دار اور بااصول ہو۔جب کوئی غلط کام ہو، تو اسے بہ بانگ دہل غلط کہے۔ اور جس کو سزا ملنی چاہیے، اسے ضرور سزا دے۔قومی اداروں میں دیانت داری اور قانون کو جاری وساری رکھے۔عوام کے اعتماد کو کبھی ٹھیس نہ پہنچائے۔خاص طور پہ اس امر کی اجازت نہ دے کہ ہماری سیاست میں جھوٹ ،آدھے سچ اور دھوکے بازی کا رواج ہو جائے۔

پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ سے ثابت ہو چکا کہ رئیسہ خان نے ایک نہیں تین بار پارلیمنٹ میں دروغ گوئی کی اور اس کے تقدس کو پامال کیا۔اب ان کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔خاتون کی پارٹی کے جن ارکان نے ان کے جرم پہ پردہ ڈالنے کی کوششیں کیں ، انھیں بھی سزا ملنی چاہیے۔جیسا کہ میں بتا چکا، یہ بہت ضروری ہے کہ قانون توڑنے والے کو سزا ملے، چاہے وہ کتنا ہی بااثر و طاقتور ہو۔تبھی ایک ریاست میں حکومتی نظام عمدگی سے کام کرتا ہے۔اسی طرح جمہوریت پروان چڑھتی ہے۔ ایک جمہوری مملکت میں دیانت داری ہی گڈ گورننس یا عمدہ انتظام کی بنیاد ہے۔

بنیاد بنانے کا فائدہ
دیانت داری کو بنیاد بنا لینے کا فائدہ یہ ہے کہ عوام پھر اسی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں جن کے رہنما ایمان دار، بااعتماد اور باصلاحیت ہوں۔ جب عوام کو محسوس ہو جائے کہ اپوزیشن جماعت زیادہ خوبیوں کی ملک بن چکی تو وہ اسے اقتدار سونپ دیتے ہیں۔یوں ہر الیکشن میں بہترین لیڈروں کو حکومت ملتی ہے اور وہ اپنی صلاحیتیوں کے بل بوتے پہ ملک وقوم کو ترقی دیتے اور خوشحال بنا دیتے ہیں۔

جب برطانیہ میں حکمران طبقہ پارٹی گیٹ اسکینڈل میں ملوث ہوا تو سابق وزیراعظم جان میجر نے اس موقع پہ سبق آموز تقریر کی۔ انھوں نے کہا:

’’دنیا بھر میں یہ تاثر عام ہو چکا کہ سبھی سیاست داں ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اور یہ کہ جھوٹ بولنا ان کا وتیرہ بن چکا۔ یہ تاثر غلط ہے۔ سب سیاست داں ایک جیسے نہیں ہوتے اور نہ سب جھوٹ بولتے ہیں۔ ہاں، یہ کہہ سکتے ہیں کہ کچھ سیاسی رہنما جھوٹے ہوتے ہیں۔کہتے ہیں کہ ایک گندی مچھلی سارے تالاب کو گندا کر دیتی ہے۔ اسی مثال کے مصداق چند سیاست داں ضرور کرپٹ ہوتے ہیں، مگر ان کی بنیاد پہ سبھی سیاست دانوںکو گندا قرار دینا درست عمل نہیں۔یاد رکھئیے، اگر عوام کا اپنے لیڈروں سے اعتماد اٹھ گیا تو پھر کچھ نہیں بچے گا۔ حکومت عوام کا اعتماد کھو دینے کے بعد زوال پذیر ہو جاتی ہے۔‘‘

کنفیوشس کا قول
جان میجر نے اپنی تقریر میں حکومت سازی کا مغربی تصّور پیش کیا جو اپنے مخصوص چیک اینڈ بیلنس رکھتا ہے۔گڈ گورننس کا مشرقی تصّور مختلف ہے۔اس میں شہری کا ضمیر بھی بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔اس کی اخلاقیات بھی اہم ہوتی ہے جو اسے غلط اور صحیح میں تمیز کرنا سکھاتی ہے۔ کنفیوشس کہتا ہے:’’ایک ریاست کا انتظام عمدگی سے چلانے میں چار عناصر مدد کرتے ہیں۔:دیانت داری، رسوم ورواج،رشوت لینے سے پرہیز اور احساس ِندامت۔‘‘

احساس ِندامت کیا ہے؟
دیانت داری انسان کو طاقتور بناتی ہے۔رسوم ورواج عوام کے مختلف طبقوں اور گروہوں کو قریب لاتے اور باہمی محبت بڑھاتے ہیں۔ قانون کی عمل داری سے رشوت لینے لینے دینے کے قبیح فعل کی بیخ کنی ممکن ہے۔مگر بُرا کام کرنے پہ احساس ِندامت ہونا انفرادی فعل ہے۔یہ جذبہ صرف اسی انسان میں جنم لیتا ہے جو نیکی اور بدی کے مابین فرق سمجھتا ہو۔چاہے کوئی نہیں جان سکے،بُرا کام کرنے پہ ایسے شخص کو شرمندگی ضرور ہوتی ہے۔ضمیر کے کچوکے اس میں ندامت لازم پیدا کریں گے۔غرض یہ جذبہ ہر انسان کی اخلاقیات، روشن ضمیری اور اندرونی جذبات سے جنم لیتا ہے۔

آپ ایک انسان کو احساس ِندامت سے محروم کر دیجیے…تب وہ سزا کے خوف سے قوانین کی پاس داری کرے گا، مگر اپنے ضمیر کی عدالت کھو بیٹھے گا، وہ نیکی اور بدی کے مابین تمیز کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے گا۔ اس عالم میں انسان سے کوئی گناہ، کوئی بدی سرزد ہو تو وہ اس کی ذمے داری قبول نہیں کرتا اور تاویلیں گھڑ لیتا ہے۔

یاد رکھیے، کسی بھی ریاست میں عوام و خواص مغربی نظام حکومت رکھتے ہوں یا مشرقی فلسفے پر عمل پیرا ہوں، اگر لوگوں میں احساس ِندامت کا جذبہ نہ رہے تو حکومتی نظام میں زوال آ جاتا ہے۔ گڈ گورننس کافور ہو جاتی ہے۔سیاسی نظام کو دیمک چاٹنے لگتی ہے۔ رفتہ رفتہ لوگ ایک دوسرے پہ اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔اور پورا نظام حکومت بداعتمادی کا نشانہ بن جاتا ہے۔لہذا ہر شہری میں احساس ِندامت کا ہونا بہت ضروری ہے کہ اسی جذبے سے گڈگورننس کو تقویت ملتی ہے۔

بھارتی سیاست جرائم کی آغوش میں
وزیراعظم سنگاپور نے اپنی تقریر میںبالکل درست کہا کہ آج بھارتی پارلیمنٹ جرائم پیشہ افراد کی آماج گاہ بن چکی۔بھارت میں ایک تنظیم، ایسوسی آف ڈیموکریٹک ریفارم اپنے ارکان ِپارلیمنٹ کی سرگرمیوں پہ نظر رکھتی ہے۔ اس کی رپورٹ کے مطابق بھارتی قومی اسمبلی (لوک سبھا)کے 543 ارکان میں سے نصف پہ قتل، بے حرمتی،فراڈ ،چوری ،اغوا وغیرہ کے مقدمے چل رہے ہیں۔اسی طرح بھارتی سینٹ(راجیہ سبھا) کے نصف ارکان بھی کیسوں میں ملوث ہیں۔غیر جانب دار بھارتی دانشوروں کا تو کہنا ہے کہ آج بھارتی پارلیمنٹ میں بیشتر ارکان جرائم پیشہ ہیں۔

یہی وجہ ہے، بھارت میں اقلیتوں کے خلاف غنڈہ گردی عام ہو چکی۔خصوصاً حکمران جماعت، بی جے پی میں غنڈے موالی بھرے پڑے ہیں۔یہ عجوبہ جنم لینے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب بھارت میں الیکشن جیتنے کی خاطر خوب مال خرچ کرنا پڑتا ہے۔چونکہ دو نمبر لوگ ہی حرام کا پیسا عوام پہ مفت لٹاتے ہیں لہذا وہ پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں۔اس وقت بھارت میں سیاست اور جرائم پیشہ افراد لازم و ملزوم بن چکے۔اور یہی وجہ ہے کہ بھارتی پارلیمنٹ میں تقریباً سبھی ارکان کروڑپتی یا ارب پتی ہیں۔وہ الکیشن میں خوب پیسا لٹاتے اور پھر حکومت کا حصہ بن کر سرکاری ٹھیکوں میں کمیشن کھا کر دولت کماتے ہیں۔

بھارت میں سیاست کمائی کا دھندا بن چکی، عوام کی تھوڑی بہت خدمت بھی ہو جاتی ہے۔افسوس ، بھارتی پارلیمنٹ میں اب قوانین بنانے نہیں توڑنے والوں کی کثرت ہے۔اسی لیے بھارت میں لاقانونیت کا عفریت پھل پھول رہا ہے۔خصوصاً اقلیتیں اکثریت کے ظلم وستم کا نشانہ بن رہی ہیں۔اگر صورت حال یہی رہی تو بھارت مکافات عمل کا شکار ہو کے زوال پذیر ہو سکتا ہے۔اس دیس میں امیر اور غریب کا فرق بھی بڑھ رہا ہے۔دولت چند ہاتھوں میں مقید ہو چکی جبکہ کروڑوں بھارتی غربت ، بھوک اور کسمپرسی میں مبتلا ہیں۔ یہ بھارتی ریاست کا بہت بڑا المیہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔