عمرکوٹ کا تاریخی قلعہ دیکھنے والوں کو سحر میں جکڑ لیتا ہے

آفتاب خان  اتوار 13 مارچ 2022
تاریخی ورثے کے سردوگرم حالات کے دوران بتدریج مٹتے نقوش کے تحفظ کیلیے حکومتی سطح پراقدامات ناگزیرہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

تاریخی ورثے کے سردوگرم حالات کے دوران بتدریج مٹتے نقوش کے تحفظ کیلیے حکومتی سطح پراقدامات ناگزیرہیں۔ فوٹو: ایکسپریس

کراچی: عمرکوٹ کا سرخ پتھروں سے تعمیرتاریخی قلعہ اپنی جداگانہ بناوٹ کی بنا پرصدیاں گزرنے کے بعد آج بھی دیکھنے والوں کواپنے سحرمیں جکڑلیتا ہے۔

عمرکوٹ قلعے کے دامن سے مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبراور مشہورلوک داستان عمرماروی کی یادیں جڑی ہوئی ہیں، قلعہ مستطیل شکل میں 946×784 فٹ ہے،تاریخی قلعے کی خوبصورتی زمانے کے سردوگرم حالات نے گہنادی تاہم اس کی درودیواریںاس بات کی عکاسی کررہی ہے کہ کبھی یہ پرشکوہ رہاہوگا۔

قلعے سے ملحقہ میوزیم میں مغلیہ، سومرو،کلہوڑااورقدیم ادوار کے بادشاہوں کے زیر استعمال سامان حرب موجود ہے،تاریخی ورثے کے زمانے کے سردوگرم حالات کے دوران بتدریج مٹتے نقوش کے تحفظ کے لیے حکومتی اقدامات ناگزیر ہیں۔

سندھ کی5ہزارسال پرمحیط قدیم تہذیب میں ہمیں جابہ جا رنی کوٹ،کوٹ ڈیجی جبکہ سرخ پتھروں اورمنفرد طرزآرائش پرمبنی تاریخی عمرکوٹ جیسی قدیم روایات کی امین عمارتوں کے آثارملتے ہیں،عمرکوٹ قلعہ دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑلیتا ہے،اس عالی شان قلعے سے مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر جبکہ مشہورلوک داستان عمرماروی منسوب ہے۔

بیرونی حفاظتی دیوار45فٹ اونچی اور17فٹ وسیع ہے

عمرکوٹ قلعہ مستطیل شکل میں 946×784 فٹ ہے،قلعے کی بیرونی حفاظتی دیوار45فٹ اونچی اور17فٹ وسیع ہے جس کی موٹائی 8فٹ کے لگ بھگ ہے،قلعے کی فصیل پرممکنہ حملہ آوروں کوروکنے اورنگرانی کے لیے 7 توپیں بھی نصب ہیں جن ایک توپ حضورﷺ کے نام سے منسوب ہے۔

قلعہ عمرکوٹ پر بیرونی جانب نصب ایک آہنی تختی پرلکھی تحریر کے مطابق عمرکوٹ کے تاریخی قلعے نے مختلف حکمرانوں کے عروج وزوال کو دیکھا ہے،عمرکوٹ شہرسومراگھرانیسن 1050سے1350زیرتسلط رہا اوراسی دورحکومت میں سومراکے پہلے حاکم نے اس قلعے کو بنوایا۔

تیرہویں صدی کے آخری حصے میں راجپوت راجہ پرمارسوڈھونے قلعے پرقبضہ کرلیا،اس کے جانشین رانا پرشاد نے مغل شہنشاہ ہمایوں کو 1541میں اس وقت پناہ دی جب وہ شیرشاہ سوری سے شکست کھاکرادھرادھربھٹک رہے تھے،ان کا ناموربیٹا اکبرعمرکوٹ میں پیداہوا،راجپوت حکمرانوں سے کلہوڑوحاکموں نے قلعہ چھین لیا تھا بہرحال کلہوڑوحاکموں کے ورثا نے قلعے کو جودھپورکے راجہ کو بیچ دیاتھا۔

1813میں ٹالپورحکمرانوں نے قلعے پرواپس قبضہ کرلیا

1813میں ٹالپورحکمرانوں نے قلعے پرواپس قبضہ جمالیا،1843میں انگریزوں نے سندھ پر قبضہ کیا توقلعہ ان کے تصرف میں آگیا،مستطیل شکل والے قلعے کی دیواروں کے چاروں کونوں پرآدھی گولائی والے دفاعی دیوار اوردوسری جانب محراب والا داخلی دروازہ ہے۔

عمرکوٹ قلعے کے داخلی دروازے پر نصب تختی پر لکھی تحریر کے برعکس مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کی جائے پیدائش کے آثار کچھ فاصلے پر ملتے ہیں،یہ زمین کا ایک سرسبز قطعہ ہے جس کو اکبربادشاہ کی جائے پیدائش قراردیا جاتا ہے،اس مقام پر مغلیہ طرز آرائش کی ایک سرخ اینٹوں والی گنبد نما عمارت ہے جو 4ستونوں اورآرچ نما دروازوں پرمشتمل ہے اس جگہ کے اردگرد کھیت اور قدآور درختوں کی ایک طویل قطار دکھائی دے رہی ہے۔

اس جائے پیدائش کے قریب ایک تختی پرلکھی تحریرکے مطابق مغل بادشاہ ہمایوں کا بیٹا اکبراعظم جو اپنے وقت کا ایک عظیم شہنشاہ کہلایا،23نومبرسن 1542میں اسی مقام پرپیداہوا جب ہمایوں افغان گورنربہارشیرخان سے لڑائی میں پسپائی کے بعداس جگہ قیام پذیرہوا،یہ وہ وقت تھا جب غریب الوطن مغل بادشاہ ہمایوں کے ہمراہ صرف چند سواراوران کی رفیقہ حیات حمیدہ بانو تھیں۔

اکبربادشاہ کی جائے پیدائش کے اردگردہرے بھرے درخت ہیں

اکبربادشاہ کی جائے پیدائش کے اردگرہرے بھرے درخت ایک طویل قطارمیں دکھائی دیتے ہیں،ہزیمت خورہ بے تاج بادشاہ نے اپنے بیٹے کی پیدائش کی خوشی کے موقع پراپنے رفیقوں میں مشک نافہ تقسیم کیا اوریہ الفاظ کہے جوآنے والے وقت میں سچ ثابت ہوئے کہ جس طرح بوئے مشک اپنے اطراف کو معطرکرلیتی ہے،ایک دن اس بچے کی شہرت تمام دنیا میں پھیلے گی۔

میوزیم میں بادشاہوں کے زیراستعمال ہتھیاراورجنگی سامان رکھا ہے

عمرکوٹ قلعے سے محلقہ تھرمیوزیم عمرکوٹ میں مغلیہ، سومرو، کلہوڑا اور قدیم ادوار کے بادشاہوں کے زیراستعمال ہتھیاراور جنگی سامان موجود ہے جبکہ ہتھیار، زیورات،سکے، شاہی فرمان، خطاطی کے نمونوں علاوہ قدیم مورتیاں اوردیگرتاریخی نسخے بھی موجود ہیں جن میں کچھ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے خستہ حالی سے دوچار ہیں اوران کے نقوش عدم توجہی کی وجہ سے مٹتے جارہے ہیں،حکومت سندھ اورمحکمہ آثارقدیمہ کی خصوصی توجہ کے منتظرہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔