مسئلہ فلسطین اور عالمی برادری کی بیان بازی

صابر کربلائی  اتوار 13 مارچ 2022

گزشتہ دنوں میونخ میں ہونے والی ایک ملاقات کے دوران جرمنی، مصر، فرانس اور اردن کے وزرائے خارجہ نے فلسطین پر اسرائیلی قبضے کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے مسئلہ فلسطین کے منصفانہ، جامع اور دیرپا امن کے حصول کے لیے اپنے ممالک کے عزم کا اعادہ کیا۔ان وزرائے خارجہ نے زور دیا کہ وہ دو ریاستوں اسرائیل اور فلسطین پر مبنی حل تلاش کر رہے ہیں۔

چاروں وزراء نے اس بات پر بھی زور دیا کہ کسی بھی حل کو’’بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں اور عرب امن اقدام سمیت متفقہ پیرامیٹرز کے مطابق تمام اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے ’جائز حقوق‘کو پورا کرنا چاہیے ۔‘‘

ایک بیان میں، وزراء نے فلسطین میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا اورسنجیدہ، بامعنی اور موثر براہ راست مذاکرات کی بحالی کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ انھوں نے سیاسی اور اقتصادی پیش رفت سمیت فلسطینیوں کے حالات زندگی کو بہتر بنانے کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا۔ساتھ ہی انھوں نے اسرائیل کی جانب سے تمام یکطرفہ اقدامات سے گریز کرنے کی ضرورت پر زور دیا جن میں فلسطینی زمینوں پر صہیونیوں بستیوں کی تعمیر اور توسیع، اراضی کی ضبطگی اور فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنا شامل ہیں۔ انھوں نے مقبوضہ بیت المقدس کے شیخ جراح اور سلوان محلوں میں فلسطینیوں کے مکانات کی بے دخلی روکنے کا مطالبہ کیا۔

کئی دہائیوں سے فلسطینی قیادت جسے امریکا، اسرائیل اور عرب ریاستوں کی حمایت حاصل ہے، عرب، مسلم اور دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے ارکان یہ کہتے رہے ہیں مشرق وسطی میں اسرائیل فلسطین تنازعہ سب سے زیادہ پیچیدہ ہے۔اس کے لیے وہ فوری، لیکن منصفانہ، جامع اور دیرپا حل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔تاہم فلسطینیوں نے صہیونی غاصب ریاست کی جانب سے زمین کی چوری، صہیونی بستیوں کی توسیع، گھروں سے بے دخلی، مقدس مقامات کی بے حرمتی، من مانی اور انتظامی حراست، جبری بے دخلی، روزانہ قتل اور حق کو ترک کرنے کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ دوسری طرف،صہیونی ہیں کہ جو تاریخی فلسطین کی سرزمین پر ہر ایک نعمت سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن اس سرزمین کے حقیقی باشندوں کو ہر لحاظ سے پست بنا کر رکھا گیا ہے۔

فلسطینی عوام ہر روز اس تلخ حقیقت سے گذر رہے ہیں کہ مذاکرات اور امن کے نام پر فلسطینی عوام کو ہمیشہ مغربی دنیا اور نام نہاد عالمی برادری کی جانب سے صرف اور صرف بیانات ہی ملے ہیں جو کہ کسی اہمیت کے قابل نہیں کیونکہ یہی عالمی برادری دوسری طرف اسرائیل کی فوجی اور سیاسی حمایت میں بھی پیش پیش ہے۔اسی عالمی برادری نے ہی فلسطینی عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے والے صہیونیوں کو تحفظ فراہم کر رکھا ہے۔یہی عالمی برادری ہی ہے کہ جس نے فلسطینیوں پر ہونیوالے ہر صہیونی حملہ اور دہشت گرد ی کی براہ راست یا بالواسطہ حمایت کی ہے۔عالمی برادری فلسطینیوں سے کیا چاہتی ہے؟

یہ سوال آج فلسطین کا ہر باسی جانتا ہے کیونکہ فلسطینیوں نے ستر سالہ تاریخ میں عالمی برادری کا کردار اچھی طرح دیکھ لیا ہے کیونکہ یہ صرف اور صرف فلسطین پر اسرائیل کا مکمل قبضہ چاہتے ہیں۔عالمی برادری تنازعات کے حوالے سے اپنی منافقت جاری رکھے ہوئے ہے اور ساتھ ہی ساتھ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی خلاف ورزیوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ فلسطینی اپنی سرزمین سے بھاگ جائیں، قبضے کو قبول کریں یا بھوکے مر جائیں، حراست میں رہیں یا خاموشی سے مارے جائیں۔

جب فلسطینی اپنے دکھوں سے صرف چیختے ہیں تو عالمی برادری فوراً اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور اس چیخ کو تشدد، اشتعال انگیزی یا دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کرتی ہے۔اس عالمی برادری کو صہیونی غاصب ریاست کے مظالم اور تشدد کبھی بھی دہشت گردی محسوس نہیں ہوتا۔

بین الاقوامی برادری کے نزدیک اسرائیلی قبضے کے خلاف پرامن فلسطینی احتجاج کی تعریف ’’پرتشدد کارروائیاں‘‘ ہے جنھیں روکنا ضروری ہے۔ فلسطینیوں کی جانب سے بین الاقوامی فریقوں کے ذریعے اسرائیلی جرائم کی حفاظت یا تحقیقات کے مطالبات کی تعریف ’’اکسانے کی ایسی شکلیں ہیں جن پر لگام لگائی جانی چاہیے‘‘ جب کہ فلسطینیوں کی روزانہ اسرائیلی حملوں، حراستوں اور ہلاکتوں کی فلسطینی مزاحمت ’’دہشت گردی‘‘ ہے۔

یہی عالمی برادری جو دنیا فلسطین، یمن اور کشمیر میں ہونے والے ظلم اور بربریت کی پردہ پوشی کر رہی ہے، دنیا کے دوسرے ممالک کے جائز حقوق کے حصول کی جدوجہد کو دہشت گردی قرار دیتی ہے۔دنیا کی اقوام اب مزید بے وقوف بننا نہیں چاہتے ہیں۔ دنیا کی اقوام کے سامنے اس عالمی برادری پر چڑھایا گیا منافقت کا لبادہ عیاں ہو چکا ہے۔

بلاشبہ، بین الاقوامی برادری کی اپنے دفاع کی تعریف، جس کا حق صرف اسرائیلی قبضے کو ہے لیکن فلسطینیوں کو نہیں۔ان پر محاصرہ کرنا، انھیں بھوکا رکھنا، بجلی کاٹنا، ٹیکس محصولات ضبط کرنا، اقتصادی پابندیاں لگانا، ان پر پابندیاں لگانا۔ ان کے مقدس مقامات تک پہنچنا، ان کو ملک بدر کرنا، ان کے آزادانہ طور پر منتخب ہونے والے ایم پیز کو حراست میں لینا، انھیں بغیر کسی وجہ کے جیلوں میں ڈالنا اور یہاں تک کہ جنگیں چھیڑنا اور ہزاروں لوگوں کو قتل کرنا، ہزاروں کو زخمی کرنا۔

بین الاقوامی برادری کے نقطہ نظر سے اسرائیل کا خود دفاع فلسطینیوں کا پیچھا کر رہا ہے اور انھیں دنیا میں کہیں بھی قتل کر رہا ہے، انھیں ان کے مصائب کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے بین الاقوامی میڈیا اور تعلیمی پلیٹ فارمز کا استعمال کرنے سے روک رہا ہے، اور بین الاقوامی کمپنیوں کو ان کی خلاف ورزیوں کے لیے آزاد کر رہا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ فلسطینی عوام مزید کسی دھوکے کو برداشت کرنا نہیں چاہتے۔فلسطینیوں کا پیغام واضح ہے کہ ہمیں مغرب کے کھوکھلے بیانات سے کوئی امید نہیں ہے۔ان بیانات سے نہ تو مسئلہ فلسطین کا کوئی منصفانہ حل تلاش کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی عملی صورت سامنے آ سکتی ہے۔ فلسطینی یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ فلسطین کے دوست کون ہیں اور دشمن کون ہیں؟ فلسطینیوں نے مشکل اور جنگ کے ایام میں اپنے دوستوں اور دشمنوں کی اچھے سے پہچان کر لی ہے۔

فلسطینی قوم اپنے ماضی کے تمام تر تجربات سے یہ بات اچھی طرح سیکھ چکی ہے کہ فلسطین کا حق صرف اور صرف مسلح جد وجہد سے حاصل ہو سکتا ہے کیونکہ عالمی برادری کے نام نہاد امن مذاکرات نے ہمیشہ فلسطین اور فلسطینیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر فلسطین پر غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے ناجائز وجود کو طاقت پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔

مسئلہ فلسطین نام نہاد عالمی برادری کے بیانات سے نہیں بلکہ فلسطینیوں کی جاری مزاحمت اور جدوجہد کے ساتھ ساتھ دنیا کی باشعور اقوام کی عوامی حمایت سے ہی منصفانہ حل یعنی فلسطین، فلسطینیوں کا وطن بنے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔