یہ کیسا سیاسی کھیل ہے؟

زبیر رحمٰن  اتوار 13 مارچ 2022
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

سرمایہ داری میں سیاسی، سماجی اور معاشی اتھل پتھل ہوئے بغیر یہ نظام اپنی حیات کو طول نہیں دے سکتا ہے۔ ہرچندکہ سب کو وہی سب کچھ کرنا ہے جو ماضی میں کرتے رہے یا مستقبل میں کرنا ہے۔ ہاں مگر اس میں کبھی کبھی کمی بیشی کرکے اوسطاً برابر کرلینا ہے۔

اب وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے سیاسی جوڑ توڑ جاری ہے ۔ ایک حکومت کا اتحادی گروپ وہ ہے جو مسلم لیگ (ق) لیگ کے نام سے جانا جاتا ہے دوسرا ایم کیو ایم پاکستان اور تیسرا پی ٹی آئی کا ناراض دھڑا ۔ مخالفانہ نعروں سے حزب اختلاف ان کا خیر مقدم کر رہی تھی اور حکومت یہ کہتی رہی کہ کرپشن کوئی بھی کرے اسے نہیں چھوڑنا ہے۔

اب اسی شخص کے پیچھے حزب اختلاف اور حکومت دونوں دوڑ رہے ہیں اس لیے کہ ان کے ساتھ ایک اچھا خاصا اسمبلی ارکان کا گروپ ہے جو کسی بھی جانب پلٹ کھائے گا تو وہ جیت جائے گا۔ اب یہی گروپ ایک نئی چال رہا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو اگر ہٹا دیا جائے تو وہ حکومت کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے،اس تجویز کو عمران خان نے رد کردیا ہے۔ ایم کیو ایم شاید اس تاک میں ہے کہ کس کی حکومت آتی ہے۔ اس لیے وہ کوئی واضح موقف اختیار نہیں کر رہی ہے۔

وزیراعظم عمران خان خفا لگتے ہیں۔ ادھر لانگ مارچ بھی تمام حزب اختلاف مل کر نہیں کر رہی ہے بلکہ پی پی پی ہی نظر آ رہی ہے، مولانا کا مارچ بھی نظر نہیں آرہا ہے۔ تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ اس نظام کے مقابلے میں متبادل نظام تشکیل دینا ہوگا اور وہ نظام ہے غیر طبقاتی جوکہ ان کے بس میں نہیں۔ متبادل نظام کی تشکیل عوام لا سکتے ہیں اور آج کے حکمران عوام پر مکمل انحصار نہیں کرسکتے ہیں پھر تو عوام جاگیرداری ختم کر دینگے، عالمی سامراج سے ناتا ختم کرلیں گے اور سرمایہ داری کو بھی خیرباد کہہ دینگے۔

یہ تو ممکن نہیں کہ عالمی سرمایہ داری اپنی لوٹ کو روک کر ایسا ہونے دے اور نہ اس نظام میں رہتے ہوئے کوئی ایسا کرسکتا ہے۔ فرض کرلیں کہ عدم اعتماد کا ووٹ حزب اختلاف کے حق میں چلا گیا اور وہ اقتدار میں آ گئی پھر وہ عوام کے حق میں کیا کریگی۔ کیا آٹا، چاول، تیل، دال، چینی، گوشت ، انڈا یعنی روز مرہ کی اشیا خور و نوش کی قیمتوں میں کمی کرینگے۔ جسکا امکان بہت کم ہے، اگر ایسا کرلیا تو اس سے خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ چونکہ اس سے قبل ایسا کبھی نہیں ہوا۔

اگر حکومت عوام کی بھلائی کے لیے روزگار مہیا کرنے اور مہنگائی میں کمی لاتی ہے تو اسے بجٹ کے ان شعبوں میں کمی لانی ہے اور دوسرے شعبوں میں اضافہ کرنا ہے۔ ہمارے بجٹ کا بیشتر حصہ آئی ایم ایف اور دفاع کے قرضہ جات اور اس کے سود کی ادائیگی پر نکل جاتا ہے۔ تقریباً ایک تہائی رقم اس کے علاوہ رہ جاتی ہے، اگر آئی ایم ایف کی قسط اور دیگر اخراجات میں 50/50 فیصد کی کمی کردی جائے تو مہنگائی اور بیروزگاری میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ غیر پیداواری اخراجات میں کمی لانی ہوگی۔

وزرا کے اخراجات بیرونی دوروں کے اخراجات، پرتعیش اور غیر ضروری الیکٹرانک کے سامان، قیمتی گاڑیوں کی درآمد کو روکنا ہوگا۔ جو اشیا ہم اپنے ملک میں خود پیداوار کرتے ہیں انھیں بیرونی ملکوں سے درآمد پر پابندی لگانی ہوگی یا بھاری درآمدی ڈیوٹی عائد کرنی ہوگی۔ ملک کے اندر ہزاروں گز کے مکانات کی تعمیر کو رکوانا ہوگا۔ ایک فرد ہزاروں فلیٹ بنو اکر کرایہ پر چڑھا کر ہر ماہ کروڑوں روپے بٹورتا ہے اور دوسری جانب لاکھوں لوگ بے گھر ہیں۔ منافع اور زیادہ میں زیادہ تنخواہوں کی حد مقرر کرنا ہوگا۔

جاگیرداری ختم کرکے 50 ایکڑ سے زیادہ زمینیں بے زمین کسانوں میں تقسیم کرنی ہونگی۔ علاج اور تعلیم مفت کرنا ہوگا۔ ہر فرد کو روزگار دینا ہوگا اور روزگار کے حصول تک بیروزگاری الاؤنس دینے پر پابند ہونا ہوگا۔ اگر کسی غریب آدمی کا علاج پاکستان میں نہیں ہو سکتا ہے تو حکومت اپنی طرف سے اسے بیرون ملک میں علاج کروانے کی پابند ہوگی۔ بھلے 80 گز کا اور ایک کمرے کا مکان ہو، تمام بے گھروں کو مفت مہیا کرنا ضروری ہوگا۔

شہروں میں ٹرام گاڑی، سرکلر ریلوے، ڈبل ڈیکر بسیں اور عام بسیں بڑے پیمانے پر چلانی ہونگی۔ اس سے عوام کی اور حکومت دونوں کی بچت ہوگی۔ پٹرول اور ڈیزل کے اخراجات میں بھی کمی ہوگی۔ دس روپے کی روٹی اور 10 روپے کی دال یا سبزی پکی پکائی حکومت سب کو مہیا کریگی۔ اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے ایسا کرلے تو اس کی عوام میں واہ واہ ہو جائے گی۔ ان کاموں میں بڑی رکاوٹیں ہونگی۔ آئی ایم ایف اور جاگیرداری کے خاتمے میں، مگر دنیا کے بہت سارے ممالک ایسے ہیں کہ انھوں نے ان سب سے نجات حاصل کی ہے۔

لاطینی امریکا کے بہت سے ملکوں نے آئی ایم ایف سے قرضہ لینا بند کردیا ہے، بہت سے دنیا میں ایسے ممالک ہیں جنھوں نے دفاعی اخراجات ہی کو ختم کردیا ہے، جیساکہ کوسٹاریکا اور آئس لینڈ وغیرہ۔ بہت سے ملکوں میں اب جاگیرداری نظام نہیں ہے، اگر ہم ڈٹ کر سنجیدگی سے یہ پالیسی بنا لیں تو ایسا کرسکتے ہیں۔ شروع میں مشکلات اور رکاوٹیں آئیں گی مگر یہ حل ہو سکتی ہیں، اگر ہم ادھار بریانی کھانا بند کرکے دال، چاول کھانے لگیں تو کیا ایسا نہیں ہو سکتا ہے، ضرور ہو سکتا ہے۔

دنیا میں ہزاروں کمیون موجود ہیں جو آئی ایم ایف سے نہ قرضہ لیتے ہیں نہ ان کے پاس کوئی اسلحہ ہے اور نہ نجی ملکیت۔ سب مل کر پیداوار کرتے ہیں اور مل کر بانٹ لیتے ہیں ان کے پاس ایٹم بم ہیں اور نہ پے جارو۔ سائیکل، کشتی یا پیدل سفر کرتے ہیں۔ اگر ہم سادہ زندگی اپنا لیں تو ساری مشکلات اور پریشانیاں ختم ہو سکتی ہیں۔ بہت سارے ملکوں میں بہت سی اچھی مثالیں موجود ہیں۔ جیساکہ بھوٹان کی فضا میں کاربن نہیں ہے۔

میزورام (صوبہ انڈیا) اور کیوبا میں کیمیائی کھاد استعمال نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے وہاں مہلک بیماریاں ختم ہو گئی ہیں۔ کوسٹاریکا میں فوج نہیں ہے اور پٹرول و ڈیزل کا استعمال ممنوع ہے۔ کیوبا میں سو فیصد خواندگی ہے اور علاج مفت ہے۔ فرانس میں ہفتہ میں مزدوروں کی ڈیوٹی 35 گھنٹے کی ہے۔ نیپال کی پارلیمنٹ میں خواتین کی اکثریت ہے، اگر ہم اس طرح کی جرأت اور ہمت نہیں کرسکتے ہیں تو کم ازکم مہنگائی اور بے روزگاری میں کمی کریں۔ بہت سی فیکٹریاں، کمپنیاں اور ادارے ضرورت سے زیادہ اشیا کی قیمتیں وصول کرتے ہیں۔

جیساکہ ادویات کی کمپنیاں، دودھ میں ملاوٹ، کرائے کے مکانوں کے کرایوں میں بہت زیادہ اضافہ، آٹا اور دال کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ وغیرہ۔ اسے حکومت کو سختی سے نمٹنا ہوگا۔ اگر عوام کی بھلائی کے لیے مندرجہ بالا اقدامات نہ کیے گئے تو یہ سارے عمل ڈھاک کے تین پات ثابت ہوں گے اور عوام میں مایوسی پھیلے گی۔ پھر عوام اپنا فیصلہ اپنے ہاتھوں میں لینے پر مجبور ہوں گے، اگر عوام ہی سب کچھ پیداوار کرتے ہیں، بناتے اور سنوارتے ہیں تو پھر اس کا پھل بھی خود حاصل کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔