کیا لڑکیاں آج بھی خود کو کم تر اور کند ذہن سمجھتی ہیں؟

ویب ڈیسک  پير 14 مارچ 2022
اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 72 میں سے 71 ملکوں کی لڑکیاں خود کو کم تر اور کند ذہن سمجھتی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ 72 میں سے 71 ملکوں کی لڑکیاں خود کو کم تر اور کند ذہن سمجھتی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

پیرس: ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا کی بیشتر لڑکیاں آج بھی امتحان میں ناکام ہوجانے کی وجہ اپنی کم تر ذہانت اور کند ذہنی کو سمجھتی ہیں، جبکہ لڑکوں کی اکثریت ایسا نہیں سوچتی۔

فرانسیسی ماہرین نے یہ انکشاف 72 ملکوں میں اوسطاً 15 سال عمر کی 500,000 سے زیادہ لڑکیوں کے ایک تفصیلی سروے کا تجزیہ کرنے کے بعد کیا ہے۔

یہ سروے ’’پروگرام فار انٹرنیشنل اسٹوڈنٹ اسسمنٹ‘‘ (PISA) کہلانے والے ایک عالمی تحقیقی مطالعے کے تحت 2018 کے دوران 15 سالہ طالب علموں میں ریاضی، خواندگی اور سائنس سے دلچسپی سے متعلق جاننے کےلیے کیا گیا تھا۔

یہ تحقیق ہر تین سال بعد کی جاتی ہے اور اس سلسلے کا حالیہ ترین سروے 2021 میں مکمل ہوا ہے۔ تاہم اس کے نتائج اب تک شائع نہیں ہوئے ہیں۔

’’پیسا‘‘ کے اعداد و شمار سے پتا چلا کہ 72 میں سے 71 ممالک کی نوخیز لڑکیاں خود کو لڑکوں سے کم تر اور کند ذہن سمجھتی ہیں۔

اس سروے میں صرف سعودی عرب کی لڑکیوں نے اعتماد کے ساتھ خود کو لڑکوں جتنا قابل اور ذہین بتایا۔

حیرت انگیز طور پر، یہ کیفیت ان ملکوں میں بھی بہت زیادہ ہے جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کو یکساں آزادی حاصل ہے۔

یعنی زیادہ آزادی مل جانے کے باوجود، آج بھی دنیا کی بیشتر لڑکیوں کے ذہنوں میں یہ بات پختہ ہے کہ لڑکی ہونا، لڑکا ہونے کے مقابلے میں کم تر سماجی اور علمی مقام ہے۔

سروے میں شامل ایک بیان ’’جب میں ناکام ہوجاؤں، تو مجھے خدشہ ہے کہ مجھ میں (کامیاب ہونے کی) قابلیت ہی نہیں‘‘ کے جواب میں اکثر لڑکیوں نے اتفاق کیا، یعنی وہ اپنی ناکامی کی وجہ اپنے ناقص العقل ہونے کو سمجھتی تھیں۔

اس کے برعکس، لڑکوں نے اس بیان کے جواب میں وقت، حالات اور دیگر عوامل کو ذمہ دار قرار دیا؛ یعنی اپنی ناکامی کی ذمہ داری خود قبول نہیں کی۔

اس نتیجے پر ماہرین کو تشویش ہے کیونکہ کئی سال سے آزادئ نسواں کےلیے منظم کوششوں کی سرپرستی اور ان پر عالمی سرمایہ کاری کے باوجود، اکیسویں صدی میں پیدا ہونے والی لڑکیاں بھی اسی دقیانوسی سوچ (اسٹیریوٹائپ) میں مبتلا ہیں جو پچھلی کئی صدیوں سے انسانی سماج کا خاصّہ رہا ہے۔

ترقی پذیر ممالک میں اگر کوئی لڑکی خود کو لڑکوں سے کم تر سمجھے تو بات سمجھ میں بھی آتی ہے کیونکہ ان معاشروں میں گھٹن زدہ پدرسری ماحول کا راج ہے۔

لیکن کم و بیش یہی صورتِ حال ترقی یافتہ ممالک میں بھی دکھائی دیتی ہے جہاں لڑکیوں اور لڑکوں کو بالکل ایک جیسی آزادی حاصل ہے۔

ایسا کیوں ہے؟ اس بارے میں ماہرین خود حیران و پریشان ہیں۔

ریسرچ جرنل ’’سائنس ایڈوانسز‘‘ کے تازہ شمارے میں ماہرین نے اپنی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے یہ مفروضہ پیش کیا ہے کہ شاید زیادہ آزادی مل جانے پر بھی لڑکیوں کو روایتی اسٹیریوٹائپ سے چمٹے رہنے میں زیادہ سہولت محسوس ہوتی ہے لہذا وہ پوری آزادی سے خود کو لڑکوں سے کم تر سمجھتی ہیں۔

یعنی ان کی اس سوچ میں معاشرتی دباؤ کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔

’’جیسے جیسے ملک ترقی کرتے ہیں، لگتا ہے کہ ویسے ویسے صنفی (مرد/ عورت سے متعلق) رواج ختم نہیں ہوتے بلکہ اپنی صورت بدل لیتے ہیں،‘‘ ڈاکٹر تھامس بریڈا نے کہا، جو پیرس اسکول آف اکنامکس میں سماجیات داں اور اس مطالعے کے شریک مصنف بھی ہیں۔

بہرحال، یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ ترقی یافتہ اور صنفی مساوات رکھنے والے ملکوں کی لڑکیاں خود کو کم تر کیوں سمجھتی ہیں جبکہ ان پر کوئی دباؤ بھی نہیں ہوتا؟

اس کا جواب حاصل کرنے کےلیے ایک نئی تحقیق کی ضرورت ہوگی تاکہ خواتین کے حوالے سے خود لڑکیوں میں سوچ کو زیادہ گہرائی میں جا کر دیکھا اور پرکھا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔