سرد جنگ شروع ہوگئی

زبیر رحمٰن  منگل 15 مارچ 2022
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

کچھ عرصے سے سرد جنگ سرد خانے میں چلی گئی تھی۔ ’’ وارسا پیکٹ‘‘ ختم ہو گیا لیکن ’’ نیٹو ‘‘ برقرار ہے۔

’’وارسا‘‘ بنا ہی نیٹوکے مد مقابل تھا۔ جب وارسا پیکٹ نہ رہا تو پھر نیٹو کی کیا ضرورت باقی رہی۔ نیٹو ممالک کو وارسا پیکٹ کا اتنا خوف نہیں تھا ، جتنا سرمایہ داری کے خلاف ابھرنے والی عوامی تحریک سے ہے۔ وارسا پیکٹ سوشلسٹ ریاستوں کا اتحاد تھا تو نیٹو سامراجیوں کا اتحاد ہے۔ سامراجیوں کو سوشلسٹوں سے خطرہ نہیں بلکہ وہ انارکسٹوں سے خوف زدہ ہیں ، جو قومی ریاستوں کو رد کرتے ہیں۔

سابق امریکی صدر نے اپنی ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’’آیندہ آنے والے دنوں میں ہمیں تین گروپس سے خطرہ ہے۔ منشیات فروشوں، دہشت گردوں اور ان سے جو قومی ریاستوں کے خلاف ہیں۔‘‘ اس لیے بھی کہ انارکسٹوں نے دنیا بھر میں جو ہزار’’کمیون‘‘ بنا رکھے ہیں اور جسے وہ بڑی خوش اسلوبی سے چلا رہے ہیں۔

جو کسی قومی ریاست اور سرحدوں کو نہیں مانتے ہیں۔ ویتنام ، ہندوکش، کوہ ، نیپال، اکسائی چین، شمالی پاکستان اور جنوبی افغانستان تک1000 فٹ سے زائد بلند پہاڑی سلسلوں کی وادیوں اور ڈھلوانوں پر کروڑوں لوگ آج بھی صدیوں سے ’’ کمیون ‘‘ کی شکل میں آباد ہیں ، ا ن کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ پا رہا ہے۔ یورپ اور امریکا میں بھی لاکھوں انارکسٹ کمیون چلا رہے ہیں۔

ان کے پھلنے پھولنے سے عالمی سامراج حیران بھی ہیں اور خوفزدہ بھی۔ سرمایہ دار ریاستیں اپنے توسیع پسندانہ عزائم سے باز نہیں آسکتی ہیں ، اس لیے کہ وہ اپنی ریاست کو بچانے کی خاطر اپنے کو مسلح اور توسیع کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔

یہ صورت حال امریکا ، یورپ ، روس اور چین کی سرحدوں سے منسلک علاقے نظر آتے ہیں۔ اس وقت سوشلسٹ بلاک کے انہدام کے بعد یورپ اور امریکا ان کے وسائل پر دھاوا بولنے کے لیے انھیں قرضے دینے کی آڑ میں اپنا ہم نوا بنا رہا ہے ، جیساکہ مشرقی یورپ کے بیشتر ممالک کو یورپی یونین میں شامل کیا ہے اور کچھ کو نیٹو میں۔

ادھر روس اپنے ہم نواؤں کو اپنے ساتھ اسلحے کے بل بوتے پر جوڑ رکھا ہے۔ جس طرح یورپی یونین اور امریکا نے مشرقی یورپ کو اپنا دست نگر بنایا ہوا ہے اسی طرح روس نے بھی وسطی ایشیا، کوہ قاف (قفقاز یا کاکیشیا)، ایشیا کوچک، بیلاروس، منگولیا اور چین نے شمالی کوریا وغیرہ کو۔ امریکا ہو یا روس دونوں نے اپنا اپنا حلقہ بنا رکھا ہے۔ ایک انقلابی شاعر نے ٹھیک کہا ہے کہ

نہ اب وہ کس بل رہا‘ اور نہ اب وہ دم خم

ہاتھ کانپے، پاؤں لڑکھڑائے، نشانہ چوکنے لگا

امریکا کو کئی مقامات پر روس اور چین سے شکست ہوئی ہے۔ جیساکہ تائیوان، عراق، افغانستان، شمالی کوریا، کریمیا اور شام میں شکست کی جانب گامزن ہے۔ عراق اور افغانستان میں تو لاکھوں عوام کا قتل عام کیا گیا اور ہزاروں امریکی افواج جان سے جاتے رہے۔

10 ہزار امریکی فوج عراق اور افغانستان سے فرار ہوکرکینیڈا میں پناہ اختیار کی۔ اب رہا مشرقی  یورپ، یہاں کے بڑے امریکی آلہ کار پولینڈ، ہنگری، رومانیہ، چیک ری پبلک اور بالٹک ریاستوں میں اسٹوینا اور لٹویا وغیرہ ہیں۔ اب یوکرائن یورپی یونین میں اور نیٹو میں شامل ہونا چاہتا ہے جو روسی سرحد سے منسلک ہے ، چونکہ یوکرائن کے کچھ علاقوں میں روسی زبان بولنے والے بستے ہیں اور وہ روس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اس مفروضے پر روس نے یوکرائن پر حملہ کردیا اور یہ حملہ یکطرفہ، جارحانہ اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مترادف ہے۔

اب تک یوکرائن پر بلاسٹک میزائل، بمباری، فوجی کارروائی اور سول آبادیوں پر جس وحشیانہ طور پر حملہ ہوئے، ایسے حملے دوسری عالمی جنگ کے بعد اب دیکھنے میں آ رہے ہیں جب کہ پیوٹن کا مطالبہ مبہم اور غیر واضح ہے۔ روس کے پاس 4 ہزار اور امریکا کے پاس 3 ہزار ایٹم بم ہیں۔ شاید اس لیے روس ایٹمی جنگ کا خوف دلاتا ہے۔ سیز فائر کرنے اور صلح جوئی پر آمادہ نہیں ہے۔ پولینڈ نے یوکرائن کو جٹ فائٹر دینے کا اظہار کیا ہے ، امریکا نے اس کی مخالفت کی ہے۔

امریکا نے روس پر الزام لگایا ہے کہ وہ کیمیائی ہتھیار استعمال کرسکتا ہے۔ جرمنی نے 1000 ٹینک یوکرائن بھیجنے کا اعلان کیا ہے اور فرانس نے اس جنگ کو یورپ تک پھیلنے کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔ امریکا کی یہ پالیسی نظر آ رہی ہے کہ وہ روس پر اقتصادی پابندی لگا کر اسے تن تنہا کرنا چاہتا ہے۔ یوکرائن میں روسی حملے کی چین نے بھی مخالفت کی ہے، البتہ روس پر اقتصادی پابندی لگانے کی مخالفت کی ہے۔ دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ گندم روس پیدا کرتا ہے اور یوکرائن گندم کی پیداوار میں 5 ویں نمبر پر ہے۔

روس مغربی یورپ کو اس کی ضرورت کا 40 فیصد گیس فراہم کرتا ہے۔ روس اور سعودی عرب تقریباً برابر تیل کی پیداوار کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں روس، یوکرائن کے علاوہ دنیا کے بہت سے ملکوں کو اقتصادی نقصان ہو رہا ہے۔ اب غور طلب بات یہ ہے کہ ریاست تنہا ہو یا ریاستوں کا اتحاد، ہر صورت میں جبر و استبداد اس کی فطرت میں ہے۔ اسی لیے قدیم کمیونسٹ نظام میں موئن جو دڑو، ہڑپہ، مہرگڑھ وغیرہ میں جو کمیون نظام ہزاروں سال پر مشتمل رہا کوئی ریاست کا وجود نہیں تھا، طبقات نجی ملکیت اور ذاتی جائیداد ناپید تھی۔

جو وسائل تھے وہ سب کے تھے۔ مل کر پیداوار کرتے تھے اور مل کر بانٹ لیتے تھے۔ کوئی گداگر تھا اور نہ ارب پتی، سکے کا وجود ہی نہیں تھا۔ جنگ میں ایک جانب تباہی اور بربادی ہوتی ہے تو دوسری جانب مہنگائی اور بے روزگار کے بڑھنے سے بھوک، افلاس میں شدت سے اضافہ ہوتا ہے۔

یوکرین پر مسلسل بمباری کے خلاف روسی عوام نے ماسکو میں لاکھوں کا مظاہرہ کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ روسی عوام جنگ نہیں ، امن چاہتے ہیں۔ وہ پڑوسیوں کے ساتھ بھائی چارگی سے رہنا اور جینا چاہتے ہیں۔ جنگی ماحول کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا بھر کے امن پسند عوام ماسکو میں روسی عوام کے جنگ مخالف مظاہرے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔