پاکستان، سعودی عرب تعلقات تاریخ کے نئے موڑ پر

عبدالقیوم فہمید  اتوار 23 فروری 2014
تیل کی دولت سے مالا مال مملکت سعودی عرب نے پاکستان کی ہر مشکل میں بھرپور مدد کی فوٹو : فائل

تیل کی دولت سے مالا مال مملکت سعودی عرب نے پاکستان کی ہر مشکل میں بھرپور مدد کی فوٹو : فائل

 پاکستان کے برادر اسلامی ملکوں کے ساتھ تعلقات ہمیشہ خوش گوار رہے ہیں، تاہم حکومتوں کے بدلنے سے خارجہ پالیسیوں میں آنے والے تغیرات خارجہ تعلقات پر اثر انداز ضرور ہوتے رہے ہیں ۔

پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات کی اپنی ایک تابناک تاریخ ہے۔ تاریخ  پاکستان کے چھ عشروں میں پاک سعودی تعلقات میں معمولی اتار چڑھاؤ کے کئی دور بھی آئے ہیں ۔ پاکستان کے سابق صدر ایوب خان مرحوم اور سعودی عرب کے شاہ فیصل بن عبدالعزیز کے درمیان دوستانہ تعلقات نے دونوں ملکوں کو ایک ساتھ آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا ۔ عالم اسلام کے تنازعات کے حل میں پاکستان کے ثالثی کے کردار نے بھی سعودی حکمرانوں کی نظروں میں اسلام آباد کے قد کاٹھ میں اضافہ کیا۔

قدرتی وسائل بالخصوص تیل کی دولت سے مالا مال مملکت سعودی عرب نے پاکستان کی ہر مشکل میں بھرپور مدد کی ۔ پاکستان کو جب بھی کسی قدرتی آفت نے آگھیرا سعودی عرب مصیبت زدہ پاکستانیوں کا پہلا سہارا ثابت ہوا۔ سنہ 1965ء کی پاک ، بھارت جنگ کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کو 09 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔ سابق صدر جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں جب افغانستان پر روسی فوج نے یلغار کی تو اس کے نتیجے میں لاکھوں افغان باشندے ہجرت کرکے پاکستان پہنچے۔ سعودی عرب افغان پناہ گزینوں کی بحالی کے لیے امداد فراہم کرنے والا پہلا ملک تھا، جس نے مختلف ادوار میں کم سے کم35 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔ آج تک سعودی عرب کے کئی ادارے پاکستان کی سر زمین سے افغان مہاجرین کی مدد کر رہے ہیں ۔

ضیاء الحق کی طیارہ حادثے میں وفات کے بعد پاکستان سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار رہا تاہم اس عرصے میں بننے والی بے نظیر اور نواز شریف کی حکومتوں کے ساتھ بھی ریاض کے تعلقات یکساں رہے۔ سعودی اخبار’’المدینہ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق سنہ 1998ء میں جب پاکستان نے ایٹمی دھماکوں کا فیصلہ کیا تو پوری دنیا بالخصوص مغرب اور امریکا نے پاکستان پر سخت دباؤ ڈالا اور بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں اسلام آباد کو دھماکوں سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ ایسے میں سعودی عرب نے پاکستانی حکومت کے حوصلے بلند رکھے اور یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ایٹمی تجربات سے پیچھے نہ ہٹے۔ اس پر سعودی عرب کے مغربی بہی خواہوں کو سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یوں پاکستان کے ایٹمی دھماکوں میں سعودی عرب کی منشاء بھی شامل تھی‘‘۔

اکتوبر2005ء میں پاکستان میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد سعودی عرب پاکستان کو امداد فراہم کرنے والے ڈونر ممالک میں بھی پہلے نمبر رہا ۔ پاکستان میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے سعودی حکومت کے براہ راست تعاون سے ہمہ وقت آج بھی کئی ادارے سرگرم ہیں جو سالانہ سیلاب سے متاثرین کی امداد پر ایک ملین ڈالر سے زائد کی رقم صرف کرتے ہیں ۔ یوں سعودی عرب پاکستان کا ہمیشہ مشکل کا ساتھی رہا۔

سابق فوجی صدر اور سعودی عرب کے درمیان آغاز میں تعلقات اچھے رہے۔ دونوں ملکوں کی مسلح افواج نے متعدد مرتبہ مشترکہ جنگی مشقیں بھی کیں۔ تاہم مشرف کے آخری دور اور صدر آصف علی زرداری کے پانچ سالہ دور حکومت میں سعودی عرب سے تعلق قدرے سرد مہری کا شکار رہے۔ اس کی بنیادی وجہ پاکستانی حکومت کی داخلی معاشی پالیسیاں بالخصوص کرپشن نے سعودیوں کو ناراض کیے رکھا۔ گذشتہ برس مسلم لیگ نون کی حکومت کے قیام کے بعد دونوں ملکوں کے مابین خوشگوا ر تعلقات کا از سر نو آغاز ہوا ہے۔ اس ضمن میں تازہ پیش رفت2013ء کے اختتام کے ساتھ ہوئی ۔ بعض مغربی اخبارا ت یہ الزام لگا چکے ہیں کہ سعودی عرب نے پاکستان کے جوہری پروگرام میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ ان افواہوں کی غیر جانبدار ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ البتہ اس ضمن میں تازہ پیش رفت 2013ء کے اختتام پر صدر پاکستان ممنون حسین کے دورہ سعودی عرب سے شروع ہوئی ہے۔ اخباری ذرائع بتا تے ہیں کہ سعودیہ اور پاکستان نے 2014ء کے اوائل میں ایک نئی تزویراتی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنے کافیصلہ کیا ہے۔

اس حکمت عملی کے تحت دفاعی شعبے میں دونوں ملک ایک دوسرے کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں بھرپور مدد فراہم کریں گے۔ آغاز کا ر کے طور پرسعودی عرب نے پاکستان اور چین کے تعاون سے تیار کردہJF17 تھنڈر طیاروں، آگسٹا آبدوزوں اور دیسی ساختہ الخالد ٹینک کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔گو کہ ابھی جنگی جہازوں اور الخالد ٹینک کی خریداری کی بات چیت پائپ لائن میں ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان جلد ہی اس ضمن میں عملی معاہدہ طے پا نے والا ہے۔ سعودی نائب وزیردفاع کے دورہ پاکستان میں ان کے ہمراہ آنے والے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سعودی اخبار ’’الحیاۃ‘‘ کو بتایا کہ اسلام آباد اور ریاض ایک بڑے تزویراتی دفاعی تعاون کے منصوبے کی منظوری کی طرف بڑھ رہے ہیں، تاہم انہوں نے دفاعی منصوبے کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے پاکستان کا تین روزہ دورہ کیا اور اس دوران صدر مملکت ممنون حسین ، وزیراعظم میاں نواز شریف ، آرمی چیف جنرل راحیل شریف ، مشیر خارجہ سرتاج عزیز، وزیر دفاع خواجہ آصف اور سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے بھی ملاقاتیں کیں اور دفاعی اوراقتصادی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ سعودی ولی عہد نے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو تاریخی قرار دیا اور کہا کہ پاکستان سعودی عرب کا قریب ترین دوست اور حلیف ہے اور یہ تعلقات وقت گزرنے کے ساتھ مزید مستحکم ہوں گے۔ صدر مملکت ممنون حسین نے کہا کہ پاکستانی حکومت سعودی عرب کے ساتھ جامع سٹریجک تعاون کو مزید مستحکم بنانا چاہتی ہے۔ سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبد العزیز کے اس تین روزہ دورے کے دوران ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور یوریا کھاد کی خریداری کے معاہدوں پر دستخط کئے گئے۔

غیرملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق پاکستانی آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے چار فروری کو دورہ سعودی عرب، جنوری میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل اور نائب وزیردفاع شہزادہ سلمان بن عبداللہ بن عبدالعزیز کے دورہ پاکستان کے دوران پاکستان سے اسلحہ کی خریداری سے متعلق تفصیلی بات چیت کی گئی ہے۔ جنرل راحیل شریف کے دورہ ریاض کے دوران دونوں ملکوں کی مسلح افواج کی مشقیں شروع کرنے پراتفاق کیا گیا ہے۔ یہ مشقیں بھی جلد شروع ہونے والی ہیں۔

ذرائع کے مطابق سعودی نائب وزیردفاع شہزادہ سلمان نے ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد کے ہمراہ اپنے تین روزہ دورے کے دوران پاکستان کے محکمہ دفاع سے متعلق اہم اداروں کا بھی ’’دورہ‘‘ کیا۔ سعودی وفد نے مسلح افواج کے جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو)، ایئر ڈیفنس کمانڈ آف پاکستان ائیر فورس، پاکستان آرڈیننس فیکٹریز اور پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ PAC کا بھی دور ہ کیا ۔ کامرہ کمپلیکس دورے کے دوران سعودی نائب وزیردفاع نے پاک، چین مشترکہ مساعی سے تیار ہونے والے’’جے ایف 17 تھنڈر‘‘ کا بھی معائنہ کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے چار ماہ کے دوران صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ کئی دوسرے خلیجی ملک بھی پاکستان سے دفاعی تعاون بڑھانے پر بات کر چکے ہیں ۔ اس سلسلے میں سعودی وفد کی آمد سے قبل عراق ، یمن اور اردن کے وفود بھی کامرہ ایروناٹیکل کمپلیکس کا دورہ کر چکے ہیں۔ سعودی عرب پاکستان سے نہ صرف تیار شدہ اسلحہ حاصل کرنا چاہتا ہے بلکہ ریاض کی اصل خواہش اپنی ڈیفنس انڈسٹری کے لیے پاکستانی ماہرین کی خدمات کا حصول ہے۔ ذرائع کے مطابق اب تک ہونے والی بات چیت میں پاکستانی ماہرین کی خدمات پربھی تبادلہ خیال ہوا ہے۔

پاکستان کے بعض اخبارات نے سعودی عرب کی جانب سے دو ڈویژن فوج کی فراہمی کی ضرورت سے متعلق بھی خبریں چھاپی ہیں، تاہم سعودی ذرائع ابلاغ ان خبروں کی تصدیق نہیں کر رہے۔ البتہ کچھ غیر ملکی بالخصوص پاکستان سے فی سبیل اللہ کی دشمنی رکھنے والے بھارتی اخبارات نے اطلاع دی ہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان تہران کے جوہری معاہدے پر ہونے والی ڈیل کے بعد سعودی عرب دفاعی پوزیشن میں آگیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ جنگی طیاروں ، ٹینکوں ، آبدوزوں اور میزائل ٹیکنالوجی کے لیے ہونے والی بات چیت اسی کا نتیجہ ہے۔ پاکستان مشکل حالات میں پہلے بھی اپنی افواج کو سعودی عرب بھجوا چکا ہے۔1990میں خلیج جنگ کے دوران 15ہزار پاکستانی سپاہی سعودی عرب میں مقدس مقامات کی حفاظت کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس لیے ریاض کی جانب سے اسلام آباد سے ہنگامی ضرورت کے لئے فوج کا تقاضا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔

گوکہ ابھی جنگی جہازوں اور الخالد ٹینک کی خریداری کی بات چیت جاری ہے۔ سعودی نائب وزیردفاع کے دورہ پاکستان میں ان کے ہمراہ آنے والے ایک عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک سعودی اخبار ’’الحیاۃ‘‘ کو بتایا کہ اسلام آباد اور ریاض ایک بڑے تزویراتی دفاعی تعاون کے منصوبے کی منظوری کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آیا سعودی عرب اسلحہ کی بڑی بڑی ڈیلیں کرنے میں کیوں دلچسپی لے رہا ہے۔ اس ضمن میں عرب ذرائع ابلاغ کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ عرب ممالک میں آنے والی سیاسی تبدیلیوں کے تناظر میں سعودی عرب اندرونی اور بیرونی اثرات سے بچنے کے لیے حفاظتی تدابیر کر رہا ہے۔

سعودی عرب کی دفاعی صلاحیت
عرب خطے میں سعودی عرب بہترین ، پیشہ وارانہ طاقتور مسلح افواج کا حامل ملک ہے۔ مسلح افواج میں سعودی عریبین آرمی، سعودی رائل ایئر فورس، رائل سعودی نیوی ، رضاکار فورس اور سعودی عریبین نیشنل گارڈ(SANG) جیسے بڑے ادارے شامل ہیں جن کی مجموعی افرادی قوت چارلاکھ پر مشتمل ہے۔ مسلح افواج 400 اینٹی ایئر کرافٹ گنیں، پیشگی وارننگ پر فوری کارروائی کی صلاحیت کے حامل F 15 اسٹرائیک ایگل، جدید ترین یورو فائیٹر ٹائیفون، پا نیوا ٹو رنیڈو، جدید ترینF15 SA، جدید ترین راڈار سسٹمAESA ،جوائنٹ ہیلمٹ ماؤنٹڈ کیوننگ سسٹم جیسے دفاعی آلات سے لیس ہے، درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل 500 الفارس آرمرڈ کیرئیر وہیکل۔ رائل سعودی اسٹریٹیجک میزائل فورس(RSSMF) کے پاس طاقت ور ترین میزائلوں میں چینی ساختہ ’’ڈونگ فنگSS4‘‘ میزائل ہے۔ گوکہ اس کی ہدف کو نشانہ بنانے کی رینج درمیانی ہے لیکن کارکردگی کے اعتبار سے یہ ایک مؤثر ہتھیار ہے۔

پاکستان کیلئے سعودی عرب کی دفاعی اہمیت
ہر چند کہ پاکستان دفاعی طور پر ایک ناقابل تسخیر اور کسی حد تک خود کفیل ملک بن چکا ہے تاہم سعودی عرب جیسے دیرینہ دوستوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ حالات حاضرہ میں پاکستان اندرونی اور علاقائی طور پر ایک بڑی تبدیلی سے گزر رہا ہے۔ پاکستانی حکومت نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات شروع کیے ہیں۔ ظاہر ہے مذاکرات کی یہ کوشش محض اتمام حجت کے لیے ہے۔ اگر فریق ثانی(طالبان) کی جانب سے عسکریت پسندی کا سلسلہ بند نہ ہوا یا انہوں نے اپنے مطالبات کے حوالے سے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا تو پاکستان کے پاس طاقت کے استعمال کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہے گا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے سے قبل اسلام آباد نے اپنے سب سے قریبی اتحادی سعودی عرب کو اعتماد میں لیا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے اس ضمن میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے مابعد انخلاء جو منظرنامہ سامنے آ رہا ہے، اس کے لیے پاکستان اور سعودی عرب کے لئے سرجوڑ کر بیٹھنا ضروری ہے۔

افغان طالبان سعودی عرب پر کسی دوسرے مسلمان ملک کی نسبت زیادہ اعتبار کرتے ہیں ۔ اس لیے افغانستان کو ممکنہ خانہ جنگی کی آگ سے بچانے کے لیے پاکستان اور سعودی عرب کلیدی کردار اد ا کر سکتے ہیں ۔ افغان عوام بھی اسی کی توقع رکھتے ہیں۔ بعض ذرائع بتاتے ہیں کہ پاکستانی اور سعودی حکام کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں میں امریکیوں کی واپسی کے بعد کے افغانستان کے معاملات پر خاص طور پر تبادلہ خیال ہوتا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کی طرح سعودی عرب بھی موجودہ افغان حکومت سے خوش نہیں ہے۔ ریاض کی خواہش ہے کہ افغانستان میں طالبان سمیت تمام نمائندہ دھڑوں پر مشتمل قومی حکومت کا قیام عمل میں لایا جانا چاہیے کیونکہ ملک کو خانہ جنگی سے بچانے کا صرف یہی ایک نسخہ کیمیا ہے۔ اگر کسی ایک گروپ کو بھی نظرانداز کیا گیا تو کشت و خون کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ دوبارہ شرو ع ہو سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔