موتی مسجد

مدثر بشیر  اتوار 23 فروری 2014
قلعہ لاہور کے عالمگیری دروازے کے قریب ہی تعمیرات کے اس سلسلے کا ایک انتہائی خوبصورت نمونہ ’’موتی مسجد‘‘ کے نام سے ملتا ہے۔  فوٹو : فائل

قلعہ لاہور کے عالمگیری دروازے کے قریب ہی تعمیرات کے اس سلسلے کا ایک انتہائی خوبصورت نمونہ ’’موتی مسجد‘‘ کے نام سے ملتا ہے۔ فوٹو : فائل

 قلعے جوکہ عہد حاضر میں ماضی کی تعمیرات کا ایک اہم نمونہ جانے جاتے ہیں۔دنیا کے اکثر ممالک میں ان عظیم الشان تعمیرات کو زیادہ تر بطور تفریح گاہ یا سرکاری دفاتر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن آج سے صرف دو سو برس قبل تک قلعے کسی بھی شہر، ریاست اور سلطنت کی عظمت اور دبدبے کے نشان مانے جاتے تھے۔

اکثر قلعے دفاعی اور عسکری نقطۂ نظر کو سامنے رکھ کر تعمیر کیے جاتے تھے۔ تاریخ اس بات کی بھی شاہد ہے کہ کئی قلعے پرانے قلعوں کی جگہوں پر تعمیر کیے گئے، توسیع دیئے گئے اور مرمت، تزئین و آرائش کیے گئے۔ قلعوں کی اکثریت ہمیں دریاؤں کے کناروں پر ملتی ہے۔ اس کے علاوہ قلعوں کی بلند و بالا عمارات اور وسیع رقبے بھی ایک اہم جزو تھے۔ مغل عہد میں کئی عظیم الشان قلعے دیکھنے کو ملتے ہیں جیسا کہ دہلی، آگرہ، جے پور اور لاہور کا قلعہ ۔ ان کے علاوہ جہلم کے قریب دینہ کے مقام پر شیر شاہ سوری کا تعمیر کردہ قلعہ رُہتاس اس کی عظمت کا ایک انمٹ نقش ہے۔ اس قلعے کی تعمیر کو آج بھی جنات کی تعمیر کہا جاتا ہے۔

قلعہ لاہور کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ جس میں کئی تہذیبوں کے نشان ڈھونڈنے سے مل سکتے ہیں ۔ ہندو راجاؤں سے ایاز تک، اور پھر ایاز سے اکبر کے عہد تک یہ مرکزی قوت کا نشان رہا۔ اکبر کے عہد میں اس کی ازسرنو تعمیر کی گئی اور قلعہ کی عمارت ایک وسیع رقبے پر تعمیر کی گئی۔ قلعے کے ساتھ ساتھ پورے شہر لاہور کے گرد بھی چار دیواری تعمیر کی گئی۔ قلعے میں تعمیرات کا سلسلہ جو اکبر کے دور میں شروع ہوا تھا وہ خالصہ عہد تک جاری رہا۔ ہر عہد کے حکمران نے اس عظیم الشان قلعہ کے اندر یا اس سے متصل جگہ پر کوئی نہ کوئی یادگاری عمارت ضرور تعمیر کی ۔ یوں ان تعمیرات کے باعث وہ حکمران بھی تاریخ کے صفحات کا حصہ بنتے گئے۔

قلعہ لاہور کے عالمگیری دروازے کے قریب ہی تعمیرات کے اس سلسلے کا ایک انتہائی خوبصورت نمونہ ’’موتی مسجد‘‘ کے نام سے ملتا ہے۔ اس مسجد کے مقام پر عہد اکبری میں بھی ایک مسجد موجود تھی لیکن جہانگیر کے حکم پر اس مسجد کو نئے سرے سے تعمیر کیا گیا اور اس کو خاص خواتین کی جائے عبادت ٹھہرایا۔ ’’موتی‘‘ نایاب پتھروں میں ایک انتہائی قیمتی اور جاذب نظر پتھر ہے۔ مغلوں نے اپنی تعمیرات میں کئی نایاب پتھروں کو اپنی تعمیرات کا حصہ بنایا اور اس کے ساتھ ہی کئی تعمیرات بھی ان پتھروں کے ناموں سے منسوب ملتی ہیں۔ خصوصاً مساجد کے حوالے سے مینا مسجد، نگینہ مسجد قابل ذکر ہیں۔ مسجد کا سنہ تعمیر 1007 ہجری بمطابق 1598 عیسوی ہے اس بات کی گواہی مسجد کی ابتدائی تعمیر میں نصب کردہ اس کتبے سے ملتی ہے جس کا تذکرہ سید لطیف نے اپنی کتاب تاریخ لاہور میں بھی کیا ہے، جس کے الفاظ ہیں:

’’عظیم شاہی دور حکومت کے بارہویں جلوس میں خدا کے سائے کی طرح مہربان (ظل الٰہی)، سلمان کے وقار، قیاموس کی دھوم دھام اور مضبوط فاتح بازو رکھنے والے سکندر (الیگزنڈر) کی مانند ، ایمان کے محافظ ، کفار کو شکست دینے والے عظیم شہنشاہ (بادشاہ) نورالدین جہانگیر بن جلال الدین اکبر نے اس عظیم عمارت کو اپنے انتہائی مخلص شاگرد اور وفادار غلام معمور خان کی کوششوں سے 1007ھ (1598ء) میں مکمل کیا۔‘‘

درج بالا تحریر میں سنہ تعمیر کے ساتھ ایک انتہائی اہم بات جو نمایاں طور پر نظر آتی ہے وہ معمور خان کا تذکرہ ہے۔ جس کے ہاتھوں اس مسجد کی تعمیر پایۂ تکمیل تک پہنچی۔ شاہی اور سرکاری تعمیرات کی تاریخ میں ماسوائے شاہی افراد کے دیگر افراد کا تذکرہ انتہائی کم ملتا ہے۔ ان بادشاہوں سے منسوب تعمیرات کے سلسلے میں ان تمام مزدوروں، مستریوں اور فن کاروں کے ہاتھوں کو سلام ہے جن کی شبانہ روز محنت کے باعث ان عظیم الشان تعمیرات کے خواب پایۂ تکمیل تک پہنچے۔ معمور خان کا تذکرہ ’’تزک جہانگیری‘‘ (ص۔333، ترجمہ: اعجاز الحق قدوسی) نے ایک ہاشیے میں یوں کیا ہے۔

’’عبدالکریم معموری، فن تعمیر کا ماہر تھا اور اپنے زمانے کا بلند پایۂ انجینئر تھا۔ جہانگیری اور شاہجہانی عہد کی بہت سی عمارتیں اسی کے اہتمام میں تیار ہوئی تھیں۔ چنانچہ قلعہ لاہور اور ہتھیاپول دروازے کے ساتھ شاہ برج کی عمارت تھی جو اب دستبرد زمانے سے مٹ چکی ہے۔ شاہ برج کی تعمیر کا آغاز 19 جلوس جہاں گیری میں ہوا تھا۔ جب یہ عمارت بن کر تیار ہوئی تو ماہرین کو پسند نہ آئی۔ اسے گرا کر از سرنو تعمیر کا حکم ہوا ۔ اس کا نقشہ چند ماہرین نے تیار کیا تھا۔ یمین الدولہ آصف خاں نے اس پر نظر ثانی کی ۔ عبدالکریم معموری کو اس کا مہتمم مقرر کیا گیا۔ یہ عمارت 1061ھ میں بن کر تیار ہوئی‘‘

اس کے علاوہ خود جہانگیر نے اپنی تزک میں دو مقامات پر عبدالکریم کا تذکرہ یوں کیا ہے ’’28 ماہ اسفندار 1026ھ (1617ء) کو اس خدمت کے صلے میں کہ عبدالکریم نے مانڈو کی عمارتوں کی نہایت حسن و خوبی سے مرمت کروائی تھی۔ اس کو اصل و اضافے کے ساتھ ہشت صدی ذات و چہار صد سوار کے منصب سے سرفراز کیا اور معمور خان کے خطاب سے نوازا‘‘۔

’’قبل اس کے کہ شاہی لشکر مانڈو کی حدود میں داخل ہو، میں نے عبدالکریم معموری کو وہاں کے قدیم حکام کی بنائی ہوئی عمارتوں کو درست کرانے کے لیے مانڈو بھیجا تھا۔ اس نے اس مدت میں، جب کہ میں اجمیر میں مقیم تھا، بعض قدیم عمارتوں کی مرمت کرائی اور بعض کو ازسرنو تعمیر کروایا اور اور بالکل نئی حالت میں کر دیا۔ مختصر یہ کہ میرے پہنچنے سے قبل میرے ٹھہرنے کی جگہ اس سلیقے سے تعمیر کی اور سجائی کہ میرے علم میں تقریباً تین لاکھ روپے جو ولایت کے دو ہزار تومان ہوتے ہیں، اس پر خرچ ہوئے۔‘‘

موتی مسجد کی تعمیر اور تاریخ کے حوالے سے ایک خاص تحریر نقوش لاہور نمبر (ص544-) پر یوں ملتی ہے۔

’’جہانگیر نے اپنے بارہویں سن جلوس میں بیگمات اور حرم کی خواتین کے لیے اس میں مناسب ترمیم کرائی۔ یہ کام میر عمارت عبدالکریم نے انجام دیا جس کا خطاب معمور خان تھا۔ 1055ھ بمطابق 1645ء میں شاہ جہان نے اپنی نفاست پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے اسے سنگ مر مر کا لباس پہنایا اوراس کا نام موتی مسجد رکھا۔ اس مسجد کے صحن کا طول پچاس فٹ اور عرض 33 فٹ ہے۔ قلعہ لاہور کی موتی مسجد فن تعمیر کا ایک دل پذیر نمونہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سنگ مر مر کے پہاڑ سے کنول کا پھول تراشا گیا ہے۔ جسے دیکھ کر آنکھیں روشن ہوتیں اور قلب کو تسکین میسر آتی ہے۔ آگرہ اور دہلی کے قلعوں کی مسجدوں سے خوبصورتی اور دلکشی میں یہ مسجد کسی طرح کم نہیں‘‘۔

نقوش کی اس تحریر سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ موتی نام کی دو مساجد آگرہ اور دہلی کے قلعوں میں بھی ملتی ہیں۔ آگرہ کی موتی مسجد 1654ء میں شاہ جہاں نے اور دہلی کی موتی مسجد 1662ء میں اورنگ زیب نے تعمیر کروائی تھی۔ اورنگ زیب کے اپنے باپ کے ساتھ اس مقابلے بازی کے باعث ان مؤرخین کی رائے کو بھی صداقت ملتی ہے کہ اورنگ زیب نے اپنے باپ شاہ جہاں کے شروع کئے گئے کچھ کام بند کروا دیئے اور کچھ کام اس کے مقابلے میں بھی کیے۔ جیسا کہ لاہور میں اورنگ زیب کی تعمیر کردہ شاہی مسجد کا نقشہ دہلی کی جامع مسجد کی مانند ہے جوکہ شاہ جہاں نے تعمیر کروائی تھی۔ مغل عہد کے بعد خالصہ عہد میں قلعے میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ رنجیت سنگھ نے موتی مسجد کا نام تبدیل کرکے موتی مندر رکھ دیا۔ لاہور میں کئی دیگر مساجد کی مانند اس مسجد کو بھی عبادت کی بجائے دیگر امور کے لیے استعمال کیا گیا اور اس مسجد سے خزانے کا کام لیا جانے گا۔ خزانے کی حفاظت کے لیے اس کے گرد ایک حفاظتی دیوار تعمیر کروا دی گئی جس سے مسجد کا مرکزی داخلی دروازہ عشرے کے لیے بند ہوگیا۔ انگریز سرکار نے 1903ء میں مسجد کو اصل شکل میں بحال تو کردیا۔ لیکن 1947ء تک یہ محض ایک نمائشی مسجد ہی رہی ۔

انگریز سرکار نے بھی قلعے کی کئی عمارتوں کو گرادیا۔ لیکن خوش قسمتی سے یہ مسجد اپنی جگہ پر قائم دائم رہی۔ ان باتوں کا تذکرہ کنہیا لال ہندی نے اپنی کتاب ’’تاریخ لاہور‘‘ (ص۔353) پر یوں کیا ہے۔
’’سرکار انگریزی نے بے شمار شاہی عمارتیں، جو قلعے کے اندر تھیں، گرا کر گوروں کے رہنے کے لیے بارکیں بنالی ہیں۔ تخت شاہی و دالان محاذ تخت و خوابگاہِ کلان و خرد و مکانات شمس برج و غیرہ چند مکانات باقی ہیں۔ ایک سنگ مر مر کی زنانہ مسجد، جو اس قلعے میں گنبد دار بنی ہوئی موجود ہے، اس کو موتی مسجد کہتے ہیں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اس کا نام بدل کر موتی مندر رکھ دیا تھا اور سلطنت کا خزانہ بھی اسی مسجد میں رکھا جاتا تھا۔ سرکار انگریزی بھی صوبہ پنجاب کا خزانہ اسی میں رکھتی ہے اور بدستور موتی مندر کے نام سے موسوم ہے۔‘‘

عصر حاضر میں قلعہ لاہور کے ٹکٹ گھر سے پہلے اوپر کو ایک راستہ قلعے کی عمارت کو جاتا ہے۔ اوپر جاتے ہی بائیں جانب عہد جہانگیری کا تعمیر کردہ کتب خانہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ جس میں اب کوئی بھی کتاب نہیں محض ایک عمارت ہے۔ اس کے بائیں جانب قلعہ لاہور کی کینٹین اور کتب کی کچھ دکانیں ہیں جہاں پر پرانی اشیاء بھی بکتی ہیں۔ ان اشیاء کو بہت مہنگے داموں سیاحوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ ہی دو قدیم برگد کے درختوں کے عین سامنے مغرب جنوب سیدھ میں یہ خوبصورت مسجد ایک چبوترے پر تعمیر ملتی ہے۔ اس مسجد کی مشرقی سیدھ میں اکبر کے عہد کی تعمیر کردہ ایک اور مسجد کے آثار دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مسجد کا دروازہ ، مسجد کی دائیں جانب کی دیوار میں سے نکالا گیا ہے۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی مسجد کا صحن سنگ مر مر سے مزین ملتا ہے اور چاروں جانب دیواروں پر پھول بوٹیوں کا خوبصورت کام دیکھنے کو ملتا ہے۔ صحن سے آگے ایک برآمدہ ہے جس میں مغل طرز تعمیر کی محرابی دیواریں آج بھی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دیکھی جاسکتی ہیں۔

مسجد کے ہال کی عمارت تین الگ الگ حصوں پر مشتمل ہے۔ اس کی وجہ مسجد کے تین انتہائی خوبصورت گنبد ہیں۔ مسجد میں کوئی بھی جگہ ایسی نہیں جہاں سنگ مر مر کا استعمال نہ ہوا ہو ۔ قیام پاکستان کے بعد سے اب تک قلعہ لاہور کے ملازمین اور سیر کرنے والے حضرات نماز ادا کرتے آئے ہیں ۔ لیکن کچھ برس ہوئے مسجد میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد منتیں مان کر نماز ادا کرنے کو آتی ہے۔ آنے والے ان حضرات اور قریبی آبادی کے لوگوں میں ایک رجحان نے جنم لینا شروع کیا ہے کہ اس مسجد کی جگہ پر پچھلی کئی صدیوں سے جنات کا قیام ہے اور وہ جنات اللہ کے حکم سے ادھر آئے اور لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ اس حوالے سے کئی جید علماء بھی اسی نظریئے کی تقلید کرتے دکھائی دیتے ہیں اور کئی تحریریں بھی مختلف رسائل و جرائد میں دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ عقیدت کے اس رجحان کے پیچھے کیا محرکات ہیں وہ اللہ ہی جانے، لیکن اس وجہ سے نمازیوں کی ایک بڑی تعداد اس مسجد میں نماز ادا کرتی دکھائی دیتی ہے۔ نمازیوں کی اتنی تعداد کے باوجود بھی یہ مسجد جامع مسجد نہیں اور جمعہ کے روز یہاں کے ملازمین بادشاہی مسجد یا بیگم شاہی مسجد میں نماز جمعہ ادا کرتے ہیں۔ تعمیر کے حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس مسجد کا کوئی بھی مینار نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔