یہ استنبول ہے

حمید احمد سیٹھی  اتوار 23 فروری 2014
h.sethi@hotmail.com

[email protected]

استنبول روانگی سے پہلے دوستوں نے مشورہ دیا کہ ماہ فروری میں لاہور کے مقابلے میں وہاں بہت ٹھنڈ ہو گی اس لیے اوور کوٹ ساتھ لے جانا نہ بھولنا اس کے علاوہ پیٹ اور گلے کی خرابی کی ادویات ضرور بیگ میں رکھ لینا کیونکہ سردی لگنے یا بد پرہیزی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ مشورہ مخلصانہ تھا لہٰذا اس پر عمل کیا۔ اوورکوٹ لیا، فل سلیوز سویٹر لیے، تھرمل خریدے اور گرم جرابوں کے علاوہ اون سے بنی ٹوپی سے بکس بھر کر اتاترک ایئرپورٹ پر اترے۔ فوری ردعمل تو ایئرپورٹ کی کشادگی، اس کا شاندار انٹریئر، اس کی صفائی، مسافروں کا ہجوم، اس کا شاپنگ ایریا، اس کے جہازوں کی آمد و رفت بتانے کے کمپیوٹرائزڈ بورڈ، اس کے WC ایریاز کی ڈائریکشن بتانے والے ایروز، اس کے ایکسلریٹر اور مسافروں کی رہنمائی والے بوتھ دیکھ کر یہ احساس ہوا کہ ہاں یہ واقعی اتاترک ایئرپورٹ ہے۔ مصطفے کمال پاشا کے نام پر رکھا گیا اتا ترک ایئرپورٹ بلا شبہ اس شخص کی عظمت کی دلیل تھا اور اس کے نام اور مقام کے شایان شان تھا۔ اپنے یہاں تو سنا ہے ایک گلی کی نالی کے منہ پر ایک زندہ ممبر پارلیمنٹ کا نام لکھا پڑھ کر یہ ان کی عظیم کاوش سے معرض وجود میں آئی ہے، ہمارے ایک دوست کو ابکائی آ گئی تھی اور اس جیسے اکثر منصوبوں کے یادگاری پتھروں پر بہت سے نام لکھے ملتے ہیں جنھیں پڑھنے والے شرمندہ ہو ہو جاتے ہیں۔

دس روز تک استنبول میں گھومنے کے دوران موٹر سائیکل یا اسکوٹر کی کسی بھی جگہ زیارت نہ ہوئی تو حیرت ہوئی لیکن اس پُھرتیلی سواری پر پابندی کا علم ہوا تو غور کرنے پر جواز کی سمجھ بھی آ گئی کہ اگر پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم تیز رفتار، محفوظ، ہر جگہ موجود، ارزں اور پابند وقت ہو اور پھر اس سسٹم میں منی بس، بڑی بس، میٹرو، ٹرام کے علاوہ مخصوص علاقوں میں چھوٹے بحری جہاز بھی ہوں تو موٹر بائیک کی پاکستان جیسے ترقی پذیر غربت و جہالت زدہ ملک میں تو ضرورت ہو لیکن ترکی جیسے خوشحال اور ترقی یافتہ ڈسپلن اور اصولوں کے پابند ملک کے لیے غیر ضروری اور خطرناک سواری ہو گی اسی لیے میری نظریں چھ سواریاں بٹھائے ہیوی ٹریفک کے بیچ میں سے ڈھائی فٹ رستہ نکال کر موٹروں کے بیک ویو شیشے توڑ کر گزرنے والی موٹر سائیکلوں کو دیکھنے کے لیے ترس گئیں۔

دس روز کی صبح سے شام تک کی سیاحت میں ہمیں دو جگہ نیم گداگر نظر آئے لیکن ایسا کہنا بھی شاید پیشۂ گداگری کی توہین ہو ہمارے ہاں تو ہٹے کٹے لوگ کندھوں پر کرائے کے اپاہج اٹھائے اور نوجوان صحت مند عورتیں چھ ماہ کا بچہ گود میں لیے اور دودھ کی خالی بوتل پکڑے آپ کی کار کے شیشے کو انگوٹھی سے ٹھونک کر پیسے کا تقاضا کرتے اور بھیک نہ ملنے پر بڑبڑاتے ہوئے شاید بددعا بھی دیتے ہیں لیکن استنبول میں ایک جگہ ایک نابینا شخص اپنے سامنے ترک زبان میں لکھا ہوا بورڈ رکھے فٹ پاتھ پر خاموش بیٹھا دیکھا اور دوسری جگہ سمندر کے کنارے جہاں لوگ جہاز سے اتر کر اپنی اپنی اگلی منزل کی طرف جا رہے تھے رستے میں دو بچوں کو زمین پر ساتھ ساتھ بیٹھے دو وائلن نما آلات سے موسیقی کی دھن بجاتے دیکھا۔ ان کے آگے رومال پڑا تھا ہم نے بھی ترک کرنسی کے دو چھوٹے سکے وہاں رکھ دیے تا کہ اتنا تو ثابت کر دیں کہ ہم عالمی گداگر ہی نہیں بھیک دیتے بھی ہیں۔

استنبول میں ہمیں ہر سڑک گلی اور عمارت کے پاس اشیائے ضروری کے بے تحاشہ بارونق اسٹور دیکھنے کو ملے جن میں خریداروں کی بھی کمی نہ تھی لیکن بیازت مسجد کے قرب میں گرینڈ بازار تو دیکھنے کی جگہ تھی جس میں قالین، پیتل، سلک اور لیدر کی حکومت تھی۔ گرینڈ بازار مکمل کورّڈ تھا۔ اس میں 22 اطراف سے داخلہ ہو سکتا تھا سج میں 64 گلیاں اور تین ہزار سے زیادہ دو کانیں تھیں۔ ادھر کوئی ساتھی بھیڑ کی وجہ سے نظروں سے اوجھل ہوا تو سمجھئے گم ہو گیا۔ اس لیے دکانداروں کی اردو یا انگریزی سے قعطی لاعلمی کی وجہ سے موبائل فون ہی ملاپ کا ذریعہ تھا۔ جیسا کہ اس کے ترکی نام ہی سے ظاہر ہے یہ واقعی گرینڈ بازار تھا۔ اگر کسی نے لاہور کی اچھرہ کی مارکیٹ دیکھی ہے تو اسے سو سے ضرب دیں یہاں خریداری مطلوب ہے تو کھانے پینے، سجانے، پہننے، تحفے میں دینے، زیور کے طور پر استعمال کرنے غرضیکہ قسم قسم اور ہر قسم کی خریداری کے لیے اس بازار کو دیکھے بغیر استنبول کا سیاح واپس جا ہی نہیں سکتا۔ گرینڈ بازار اس لحاظ سے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کے عقب میں 1506ء میں تعمیر ہونے والی شاندار مسجد بیازت ہے۔ اسی طرح ایمینونو میں نئی مسجد (News Mosqe) کے قریب ایک اور انوکھا بازار Spice Bazzar بھی دیکھنے کی چیز ہے جہاں دنیا کے پودوں اور پھلوں کے قہووں کی اقسام اور بیج ملتے ہیں۔ اکثر لوگوں نے تو پوری پوری زندگی ان مصالحوں اور کھانے کے بیجوں کو نہ تو دیکھا، چکھا یا ان کے بارے میں سنا ہو گا جو سپائس بازار کی سیکڑوں دکانوں میں موجود ہیں۔

باسفورس کے سمندر کے ذریعے جب بھی کیدی کویا سے جہاز لینے پہنچے ساحل کے ساتھ ساتھ دس بارہ جفت سازوں کے کھوکھوں پر اور سستی خوراک کی اس سے بھی زیادہ ریہڑیوں پر بزنس ہوتا دیکھا۔ امریکا میں ایسے جفت ساز زیادہ تر روسی ہوتے ہیں جن کا کام جوتے مرمت اور پالش کرنا ہوتا ہے لیکن بحیرہ باسفورس کے کنارے جفت ساز اور ریڑھی بان ترک ہیں لیکن بہت چھوٹے کاروباری ہونے کے باوجود اپنے کاروباری اصولوں میں بیحد پکے ہیں۔ بہت سے لوگ مہنگی جوتوں کی دکانوں پر نہیں جا سکتے اسی طرح کئی مسافر یا سیاح ریہڑھی کی سستی خوراک سے پیٹ بھرتے ہیں۔ ہمارے ایک ساتھی نے ایک جفت ساز سے اپنے بوٹوں کے لیے تسمے خریدے دوسرے روز اس نے اسی موچی سے کہا کہ وہ تسمے چھوٹے ہیں اس لیے وہ خریدے ہوئے تسمے لمبے تسموں سے ایکسچینج کرنا چاہتا ہے۔ موچی نے صاف انکار کرتے ہوئے ہمارے ساتھی کی خواہش رد کر دی اور اسے دوسرے لمبے تسمے خریدنے کے لیے کہا۔ ریڑھی بانوں کے پاس Chestnuts، گرما گرم بھٹے اور تِلوں والی گول رسہ نما روٹیاں برائے فروخت ہوتی ہیں جنھیں وہ SIMIT کہتے ہیں۔

ہمارے ساتھی نے Chestnut خریدیں لیکن ان میں سے چند تبدیل کرنے کی خواہش کی جس پر ریڑھی بان نے لفافہ واپس پکڑ کر اسے Chest Nut فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔ ہمارے ساتھی نے وہی لفافہ لے لینے کی کوشش کی تو بھی ریڑھی بان نے انکار کرتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے اس طرح وہاں سے چلے جانے کے لیے کہا جس کا واضح مطلب ’’دفع ہوجاؤ‘‘ جیسا تھا۔ استنبول میں بڑے بڑے کاروباری نہایت شائستہ اور اکاموڈیٹ کرنے والے ہیں لیکن ان دو یعنی موچی اور ریڑھی بان لیول کے کاروباریوں کا رویہ ہمارے ساتھی کے لیے ناقابل فہم تھا۔ کیا موچی اور ریڑھی بان صحیح کاروباری اصول پر چل رہے تھے۔ یہ اب تک ایک سوالیہ نشان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔