نظام کیا ہے‘حسن انتظام!

راؤ سیف الزماں  اتوار 23 فروری 2014

بظاہر اس لفظ کے معنی ایک نظام یعنی طریق کار کے طور پر جانے جاتے ہیں لیکن اگر تاریخ عالم کا مطالعہ کیا جائے اور دوران مطالعہ عرق ریزی سے مشاہدہ بھی کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ادوار عالم میں اقوام عالم کی کامیابیوں یا ناکامیوں کا تمام تر دارو مدار اسی ایک لفظ پر رہا ہے۔ گویا ہر اس قوم نے ترقی کی جس نے اپنے ملک یا ممالک میں ایک نظام رائج کیا اور پھر اپنے رائج کردہ نظام کی دیانتداری سے پیروی کی اور ہر وہ قوم تباہ و برباد ہوگئی جس نے کسی نظام کے بغیر زندہ رہنے یا قائم رہنے کی کوشش کی۔ اگرچہ حال میں ہر ماضی قابل بحث ہوسکتا ہے کیونکہ جدت ہمیشہ سے قدامت کی ناقد ہے اور ہر بدلتا ہوا دور ہمیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ماضی میں کیے گئے عمل کو مزید بہتر کیا جاسکتا تھا۔ اس لیے کہ شعوری ترقی مزید تبدیلیوں کی خواہاں ہوتی ہے لہٰذا ارتقائی انسانی معاشرے سے لے کر موجودہ معاشرے تک ہم کہیں پر بھی یہ رائے قائم کرسکتے ہیں کہ فلاں دور میں فلاں نظام رائج ہوتا تو وہاں کے حالات مختلف ہوسکتے تھے۔ وہ سردار، بادشاہ یا خلیفہ اگر وہ System رائج کرتا تو اپنی قوم اور ملک کو زیادہ ترقی یافتہ بناسکتا تھا۔

لیکن ایسی رائے صرف اس وقت دی جاسکتی ہے جب کوئی دور گزر چکا ہو یا کسی واقعے کو وقوع پذیر ہوئے خاصا وقت بیت چکا ہو۔ جب کہ حقیقتاً کسی بھی موجودہ صورت حال کو ہم گزرے ہوئے واقعے پر چسپاں نہیں کرسکتے کیونکہ اس وقت کے حالات، اس وقت کی صورتحال سے صرف وہی لوگ نبرد آزما ہوسکتے تھے جو اس دور میں زندہ تھے۔ انھوں نے اپنے دور کے تمام تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر ہی اپنا System بنایا ہوگا۔ اور صرف وہی لوگ جان سکتے تھے کہ وہ اپنے حالات میں کوئی بھی تبدیلی کس نظام کو رائج کرکے لاسکتے تھے۔ چنانچہ ہم اسی بات کو لے کر ماضی میں لڑی گئی کسی جنگ کے میدان کی سیر بھی کرسکتے ہیں کہ کسی خاص یا عام موقع پر کسی سپاہ سالار نے اپنا لشکر کس نظام کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا ہوگا۔ تاکہ اس کی کوشش کامیابی اور فتح سے ہمکنار ہو۔ ہم کسی مفکر، دانشور، ادیب، خطیب، بادشاہ، فقیر کی زندگیوں میں جھانک لیں یا قدرت کی لامحدود صناعی پر غورکرلیں۔ایک ذرے سے لے کر آفتاب تک، صحرا سے لے کرسمندر تک ہمیں ایک نظام سے جڑے دکھائی دیتے ہیں۔

قارئین کرام! میں اس ضمن میں مزید دلائل سکتا ہوں لیکن مجھے دراصل اس موضوع کے توسط سے اپنے مقصد تحریر پر بھی آنا ہے۔اور زیر گفتگو موضوع کو ملکی حالات سے جوڑتے ہوئے مجھے موجودہ مرکزی حکومت اور صوبائی حکومتوں سے چند ایک گزارشات بھی کرنی ہیں۔ لہٰذا میں تحریر میں ایک موڑ کاٹتے ہوئے محترم وزیر اعظم اور ان کی کابینہ سے یہ درخواست کروں گا کہ آپ طالبان سے مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کے معاملے پر قوم کو بھی اعتماد میں لیں اور میڈیا پر اپنی ایک تقریر میں کم وبیش حقائق و واقعات جو بیان کیے جاسکتے ہوں قوم کے سامنے بیان کریں اور ان سے اس معاملے میں ان کی رائے معلوم کریں۔ ایسا کرنے کے لیے ایک فورم بھی بنایا جاسکتا ہے۔ میڈیا اس کے لیے بہترین ذریعہ ثابت ہوگا۔ پھر جو اکثریتی رائے ہو اس پر بعدازغور خوض کچھ کمی بیشی کے ساتھ عمل کرلیا جائے۔ محترم وزیر اعظم! میرے نقطہ نظر سے۔۔۔۔ایسا کرنے پر حکومت کو اور من حیث القوم ملک کو بہت سے فائدے حاصل ہوں گے۔

جن میں میں اول الذکر ایک فرد سے لے کر ایک قوم تک میں اعتماد نہ صرف یہ کہ بحال ہوگا بلکہ نئے سرے سے پیدا بھی ہوگا کہ ان پر بھروسہ کیا گیا۔ انھیں بھی کسی قابل سمجھا گیا۔ دوئم انھیں پھر سے یقین ہونے لگے گا کہ یہ وہی حکومت ہے جسے انھوں نے مئی 2013 کے الیکشن میں منتخب کیا تھا۔ سوئم مذاکرات کی ناکامی پر جس کے امکانات بتدریج بڑھتے چلے جا رہے ہیں قوم آپ کے اور فوج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہوگی۔ چہارم مذہب معاشروں میں اور ترقی یافتہ اقوام میں قوم کو ہر مسئلے ہر معاملے سے باخبر رکھنے کے عمل کو ناگزیر سمجھا جاتا ہے لہٰذا میں اپنے ابتدائیہ کی تکرار کرتے ہوئے پھر سے اصرار کروں گا کہ آپ کے دور حکومت میں جس شے کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے وہ System کا نہ ہونا ہے۔ حالانکہ گزشتہ دور کے مقابلے میں کرپشن میں خاطر خواہ کمی ہے اور کوئی بڑا اسکینڈل بھی سامنے نہیں آیا۔ انرجی بحران پر بھی جیسے تیسے کام کا آغاز ہوا۔ لیکن جس حسن انتظام کی امید آپ سے آپ کے پچھلے دو (2) ادوار کو دیکھ کر کی جا رہی تھی وہ ہنوز پوری نہیں ہوسکی۔ اور کم از کم دو بڑے مسائل یا تو جوں کے توں موجود رہے یا ان میں کچھ اضافہ بھی دکھائی دیا۔ (1)مہنگائی کی روزمرہ بڑھتی ہوئی شرح۔(2)امن وامان کی مسلسل خراب ہوتی ہوئی صورتحال۔ یعنی کراچی تو ایک طرف رہا صرف لیاری کی گینگ وار۔۔۔۔پولیس اور رینجرز کے محاصرے، دو اطراف کی فائرنگ، بم بلاسٹ، گھر گھر تلاشی، ناجائز اسلحہ۔ آپ صرف سوچ کر دیکھیں اور کبھی تنہائی میں بیٹھ کر غور کریں کیا ایسا لگتا ہے کہ ہم کسی آزاد، خودمختار ملک کے باشندے ہیں۔

جس کا دل چاہتا ہے وہ ایک گروپ بناکر اور کچھ ہتھیار خرید کر ملک سے آزادی کا مطالبہ کردیتا ہے۔اور بے دریغ انسانی جانوں کا قتل عام شروع کردیتا ہے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مکمل بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ حتیٰ کے نجی فوج Private Army تک قائم ہوچکی ہیں۔ B.L.A، S.L.A بلوچستان و سندھ لبریشن آرمی۔ عجیب طرفہ تماشہ ہے کہ ایک طرف نئی بننے والی حکومت ہے جو بالکل پچھلی حکومت کی طرح امن و امان کی مکمل بحالی کا دعویٰ کر رہی ہے۔ اور دوسری طرف پچھلی حکومت کے قائدین ہیں جو حکومت کو کوس رہے ہیں۔ ناکام قرار دے رہے ہیں۔ دہشت گردوں کو تباہ کرنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ یعنی KPK میں مرحوم بشیر بلور سمیت اپنے درجن بھر وزرا کے نقصان کے بعد بھی ANP پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ناکام قرار دے رہی ہے۔ یوسف رضاگیلانی، سابق وزیر اعظم کے بیٹے کے اغوا سمیت متعدد نقصانات اٹھاکر بھی پاکستان پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر طعنہ زن ہے۔میں پورے وثوق اور یقین سے کہہ رہا ہوں کہ اب ملک میں اگر کوئی محفوظ اور بچا ہوا ہے تو وہ قدرت کی مرضی و منشا سے ہے۔ حکومت کا اس میں قطعاً عمل دخل نہیں رہا۔ کوئی صحت مند ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرما رہا ہے۔ ڈاکٹرز کا اور طبی سہولتوں کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں۔رزق کا وعدہ اللہ پاک نے کیا ہے تو ہم روٹی کھا رہے ہیں۔ ورنہ مہنگائی تو ہماری گردنیں ناپ چکی ہے۔ ملک کسی System کے بغیر چل رہا ہے۔ تمام تر منصوبہ بندی روزمرہ کی صورتحال کی بنیاد پر کی جا رہی ہے۔ مجھے تو حکومت کے حوالے سے سابقین و حاضرین میں بہت معمولی سا فرق دکھائی دیتا ہے اور یہ فرق بھی شاید چہروں کی تبدیلی کا ہو۔ بہتری کے حوالے سے تو میں آخر میں یہی کہوں گا:

سمندر تیز‘ طوفانی ہوا‘ ٹوٹی ہوئی کشتی
یہی اسباب کیا کم تھے کہ اس پر ناخدا تم ہو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔