لالٹین، چاچا درد مند اور امریکا

شیریں حیدر  اتوار 23 فروری 2014
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

بہت بچپن کی یاد ہے ، ہمارے گاؤں میں چاچا دردمند نام کے ایک آدمی تھے، نام تو جانے ان کا کیا تھا مگر ان کی دردمندی اور ہر کسی کا احساس کرنے کی عادت کی وجہ سے ان کا یہی نام پڑ گیا تھا۔ وہ ہر کسی کو مشورہ بھی بظاہر عقلمندانہ دیتے، آنیوالے ممکنہ خطرات سے آگاہ بھی کر دیتے اور گفتگو کی حد تک انتہا کی ہمدردی بھی کرتے تھے۔ ان کی شخصیت کا فسوں ایسا تھا کہ وہ خود بھی جال بچھا کر کسی کو اس میں پھانس لیتے تو پھنسنے والے کو شک تک نہ ہوتا کہ اس میں کتنا ہاتھ چاچا کا ہے۔ چاچا اس سارے سلسلے میں اپنا کام بھی نکال لیتے اور پھر اپنی ہمدردی سے اگلے کے دل میں اپنا اچھا تخیل بھی قائم کر لیتے تھے ، کبھی کسی کے دل میں یہ خیال نہ آیا کہ ساری مصیبتیں ان لوگوں کے لیے کیوں ہیں، کیوں کبھی چاچا دردمند کسی مصیبت میں نہیں پھنستا؟؟؟

پچھلے دنوں دو ایسی خبریں سننے اور پڑھنے کو ملیں کہ خواہ مخواہ مجھے چاچا یاد آ گئے، مصیبت میں نانی کا یاد آنا تو محاورتاً سنا تھا، چاچا کا پہلی بار سنا۔

پہلی خبر مجھے بہت دلچسپ لگی، 2020ء میں امریکا مریخ پر ایک مشن بھیجنے کی تیاریاں کر رہا ہے، اس سلسلے میں بکنگ جاری ہیں، مریخ پر جن لوگوں کو بھیجا جائے گا ان کی بکنگ اور جاری ہونیوالے ٹکٹ یک طرفہ ہوں گے، یعنی جانے والے لوگ واپس نہیں آ سکیں گے، ایک نئی دنیا بسائیں گے، اس کی تفصیلات تو انٹر نیٹ پر چیک کی جا سکتی ہیں، چند اہم نکات جن کا مجھے علم ہے وہ بیان کرتی ہوں ۔ کوئی شادی شدہ جوڑا اس مشن پر نہیں جا سکتا، جانے والے اپنے ڈھنگ سے وہاں زندگی کا آغاز کریں گے، اپنی تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خود وسائل پیدا کریں گے… اس مشن کی تمام live transmission ہمارے ٹیلی وژن کے کسی چینل سے ہمہ وقت دکھائی جائے گی، جیسے ہم میں سے بہت سے لوگوں نے ’’ بگ باس ‘‘ نامی پروگرام کو جانے کتنے عرصہ تک دیکھا یا برداشت کیا۔

…ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

امریکا کو چونکہ کسی طور قناعت نہیں اور وہ خود کو دنیا کی قسمتوں کا بنانے والا سمجھتا ہے… اس کو ثابت کرنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، اب اس تجربے سے وہ کیا ثابت کرنا چاہتا ہے، نعوذ باللہ بتانا چاہتا ہے کہ ایک نئی دنیا بسانے کا اہل ہے؟ اللہ نے کائنات کی وسعتیں ہمارے لیے تخلیق کی ہیں اور انھیں exploreکرنے کا حکم بھی ہے اور اسی نے انسانی دماغ کو ان صلاحیتوں سے مالا مال کیا ہے ، آج ہم اپنے ارد گرد جو دیکھتے ہیں اس کی تشریح کرنے سے بھی عام دماغ قاصر ہے۔ ہمارے دماغوں کو بنانیوالا خود کن صلاحیتوں کا حامل ہے ، یہ بات ہماری سوچ اور اختراع کی حدود سے بہت باہر ہے۔

دوسری خبر میں نے چند دن قبل ایک اخبار میں پڑھی ،’’ امریکی ماہرین نے تیسری دنیا کے ممالک کے لیے ایک ایسی جدید لالٹین ایجاد کر لی ہے جسے روشنی پھیلانے کے لیے مٹی کے تیل یا برقی توانائی کی نہیں بلکہ سورج کی قدرتی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لوسی نامی اس لالٹین کو پلاسٹک کے لچکدار اور شفاف مٹیریل سے ایک باکس کی شکل میں تیار کیا گیا ہے، اس جدید لالٹین میں شمسی توانائی کو روشنی میں بدلنے والے سولر پینل نصب کیے گئے ہیں… ‘‘ واہ واہ واہ… میں نے دل سے امریکا کو داد دی، ہم سب کو اس ’’عظیم ‘‘ ایجاد کے لیے امریکا کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ اوپر والی دونوں خبروں کا موازنہ کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ امریکا ہمارا چاچا دردمند ہی تو ہے، کیسے ہمارے درد ، تکلیف اور محرومیوں پر تڑپ اٹھتا ہے، ہمیں تاریکیوں میں خود دھکیل کر… اب ہمیں روشنی کی امید بھی دلا رہا ہے۔ ہمارے ہاں کے اندھیرے بھی اسی کے احسان ہیں اور ان اندھیروں کو مٹانے کو اس نے اپنے ملک کے جانے کتنے سائنس دانوں کو اس کام پر لگا دیا ہو گا کہ ہمارے لیے شمسی توانائی سے چلنے والی لالٹین ایجاد کریں…

اللہ کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے سورج ، چاند، ستاروں اور باقی سب فطری طاقتوں کو اپنے اختیار میں رکھا ہے… ورنہ امریکا ہمارے اوپر یہ ساری چیزیں بھی بند کر دیتا اور ہم اس سے یہ چیزیں اپنی عزت، انا اور غیرت کے عوض خریدتے اور ان پر عمر بھر سود دیتے دیتے اپنے وجود بھی گروی رکھ دیتے۔

ملک جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے، بلاشبہ ہمارے اپنے اعمال کا شاخسانہ بھی ہے مگر ہمیں ان حالات کے لیے امریکا کا ’’ احسان ‘‘ نہیں بھولنا چاہیے۔ خود سے پوچھنا چاہیے کہ امریکا کیوں ہمارے درد میں تڑپ رہا ہے؟ ہمارے خطے میں آ کر ہمارے مفادات کی جنگ کیوں لڑ رہا ہے؟ جن دہشت گردوں سے مقابلے کے لیے وہ اپنی پوری طاقت ہمارے ہاں جھونکے ہوئے ہے ، جن طالبان کا خاتمہ کرنے کو ڈرون حملے کیے جا رہے ہیں… ان میں سے کتنے دہشت گردوں یا طالبان نے جوابی حملوں میں امریکیوں کو مارا ہے؟ کہنے کو امریکا کے ڈرون حملوں سے ان کے دشمن لوگ مرتے ہیں اور جواباً ہمارے معصوم شہری مارے جاتے ہیں، امریکا اور اس کے ساتھ مل کر اتحادی افواج اپنے دشمنوں پر حملے کرتے ہیں اور ان حملوں سے متاثرہ گروپ جوابی طور پر ہمارے شہری اور آبادی والے علاقوں پر خود کش حملے کروا کر کتنے ہی لوگوں کو زندگی سے محروم کر دیتے ہیں۔

ہم کس سے احتجاج کریں… ہر حملے کے جواب میں ہماری قاتلانہ خاموشی نے ہمیں ایک بزدل قوم بنا کر دنیا کے سامنے لا کھڑا کیا ہے… کون سی مصلحت ہے جو ہمارے لب سی لیتی ہے، کون سے مفادات ہیں جن پر حکومتیں اپنے لب سی لیتی ہیں اور ان کی مجرمانہ مفاہمت ہمارے طاقتور اداروں کے ہاتھوں کو باندھ کر رکھے ہوئے ہے؟ ہم اپنے ملک کی سیاست میں امریکا کے کردار کو نہ پہچان سکے ہیں نہ ان کی حدود کا تعین کر سکے ہیں، نہ ان کی آنکھوں میں آنکھیںڈال کر انھیں کہہ سکے ہیں کہ ہمیں اپنی جنگ خود لڑنے دو…

ہم کیوں نہیں سمجھ سکتے کہ خود تو وہ ستاروں پر کمند ڈالنے کی تیاریاں کر رہا ہے… نئی دنیائیں بسانے کو کوشاں ہے اور ہمارے لیے کس نہج پر سوچتا ہے۔ اگر اسے معلوم ہے کہ ہمارے ہاں بجلی کا بحران ہے تو کیا اس کا حل یہ ہے کہ ہمیں پتھر کے دور میں واپس دھکیل دیا جائے… یہی ہو رہا ہے، وہ کیوں چاہے گا کہ ہمارے لوگوں میں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت ہو، وہ کیوں چاہے گا کہ کوئی ایسی حکومت قائم ہو جائے جو اپنا کشکول لے کر باربار اس کے پاس نہ جائے اور امریکا ازراہ ہمدردی چند سکے اس کشکول میں ڈال دے اور اس کے عوض کئی چیزوں سے محروم ہوجائے جس میں سے اولین تر ان کی عزت نفس ہے… ایک عام آدمی بھی اس ملک میں کہتا ہے کہ اس ملک میں حکمران ہمارے ووٹوں سے نہیں بلکہ امریکا کی ایما پر بنتے ہیں، جن سے امریکا کی ’’ ڈیل‘‘ طے ہوتی ہے ان کے حق میں بند بکسوں میں سے ووٹ بھی نکل آتے ہیں۔ہمارے گھروں کے معاملات ہم خود ہی طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کبھی اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ کوئی ہمسایہ یا کوئی قریبی رشتہ دار بھی ہمارے گھر کے معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لے کر انھیں سلجھانے کی آڑ میں الجھانے کی کوشش کرے۔ جو مسئلہ ہمارا ہے اس کا شعور ہمیں ہی بہتر ہو سکتا ہے، کوئی چاچا دردمند اسے نہیں سمجھ سکتا، ہاں فقط اسی صورت میں کہ جب اس نے خود ہی یہ مسئلہ پیدا کیا ہو۔ ہم خود اپنی حالت بدلنے کی خواہش رکھتے ہوں، کوشش کریں تو ہی بدل سکتے ہیں کہ … نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں!

تاریخ ان ممالک اور ان قوموں کی مثالوں سے بھری پڑی ہے جنھوں نے اپنی آزادی کی قدر نہ کی، اپنی عزت نفس قائم نہ رکھی، اپنے نظام سے بغاوت کی… آج کہاں ہیں وہ سب، فقط تاریخ کے اوراق میں، ہم ان کو پڑھ کر بھی سبق حاصل نہیں کرتے اور انھیں ماورائی قصے کہانیوں کی طرح پڑھ کر بھول بھال جاتے ہیں، بالکل اسی طرح جب ہم کسی کی قبر پر مٹی ڈال کر فارغ ہوتے ہیں تو ہاتھ جھاڑ کر اپنی زندگی کی طرف لوٹ رہے ہوتے ہیں، دل میں یہی خیال ہوتا ہے کہ صرف اسی کو مرنا تھا جسے ہم دفن کر کے جا رہے ہیں!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔