سی پی او کی عدم تعیناتی، شہر خوف کی آماج گاہ بن گیا

صالح مغل  اتوار 23 فروری 2014
روزِ روشن میں سنگین نوعیت کی ڈکیتیوں اور رہ زنیوں کی بھرمار ہے، سر عام قتل وغارت کی وارداتیں ہورہی ہیں۔  فوٹو: فائل

روزِ روشن میں سنگین نوعیت کی ڈکیتیوں اور رہ زنیوں کی بھرمار ہے، سر عام قتل وغارت کی وارداتیں ہورہی ہیں۔ فوٹو: فائل

راولپنڈی: جرائم کی شرح میں اضافہ کے اسباب و علل میں کئی نوع کے عوامل کار فرما ہوتے ہیں لیکن اصل سبب، وہ بھی جدید معاشرہ میں، قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کم زور گرفت ہے۔

و فاقی دارالحکومت کا جڑواں شہر ہونے کے سبب راول پنڈی میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہاں قانون کی رٹ زیادہ مظبوط ہوتی لیکن ایسا ہے نہیں۔ آبادی کے پیشِ نظر تھانوں کی تعداد میں اضافہ کیے جانے اور پولیس تھانے کی سطح پر سیکیوریٹی برانچ کے نیٹ ورک کے باوجود اگر حالات و واقعات کا جائزہ لیں تو راول پنڈی میں جرائم کی شرح میں بے طرح اضافہ ہوا ہے، بالخصوص سٹریٹ کرائم کی شرح میں تو اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ اب شہری خود کو قطعی غیر محفوظ سمجھنے لگے ہیں۔

روزِ روشن میں سنگین نوعیت کی ڈکیتیوں اور رہ زنیوں کی بھرمار ہے، سر عام قتل وغارت کی وارداتیں ہورہی ہیں جن کی وجہ سے شہر کی مدنی اور معاشرتی زندگی تہ و بالا ہو کر رہ گئی ہے۔ سٹریٹ کرائم کی صورتِ حال کا نقشہ تو یہ بن چکا ہے کہ دن دیہاڑے راہ زن، مصروف بازاروں میں خریداری یا دیگر کاموں کے لیے گھروں سے باہر جانے والی خواتین کے پرس، جیولری اور نقدی چھین لے جاتے ہیں۔ اب تک ایسی لاتعداد وارداتیں ہو چکی ہیں۔ روز روشن میں گھروں میں گھس کر مکینوں سے ان کی جمع پونجی چھین لی جاتی ہے، قیمتی گاڑیان چوری ہونا تو آئے دن کا معمول بن چکا ہے۔

سنگین جرائم کا حال یہ ہے کہ 13 اور 14 فروری کی درمیانی شب معروف قانون دان اور سابق اٹارنی جنرل انوار الحق کے گھر پر کریکر کا ہول ناک دھماکا کیا گیا۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ ان کا گھر پنجاب ہاؤس کے عین سامنے واقع ہے، جہاں پولیس کی بھاری نفری ہمہ وقت موجود رہتی ہے۔ اب اسے چراغ تلے اندھیرا نہ کہیں تو کیا کہیں؟ چند روز پہلے صادق آباد کی جیولری مارکیٹ میں جیولرز شاپ پر مسلح ڈاکوؤں نے ہلہ بول کر صفایا کر دیا۔ جاوید اقبال اپنے کزن خرم کے ہم راہ دوکان میں موجود تھا کہ چار نامعلوم مسلح افراد دوکان میں داخل ہوئے اور اسلحہ کی نوک پر دوکان سے 24 جوڑی کانٹے، 12 چوڑیاں، 3 کیٹھی سیٹ، 4 لاکٹ مع چین، 16 لاکٹ، 15 مردانہ انگوٹھیاں، 60 زنانہ انگوٹھیاں، 24 جوڑی بالیاں، 3 گلوبند سیٹ، 15 بچگانہ انگوٹھیاں، 4 چین، جن کا مجموعی وزن ڈیڑھ کلو گرام سے زیادہ بنتا ہے، اس کے علاوہ ایک لاکھ روپے کی نقدی اور دو موبائل فون بھی لوٹ لے گئے۔

اس دوران تعاقب پر فائرنگ کے دوران ایک ڈاکو اپنے ساتھیوں ہی کی زد پر آ کر دم توڑ گیا جب کہ ایک زخمی ہونے پر بھاگ نہ سکا اور پکڑا گیا، دو فرار ہو جانے میں کام یاب ہوگئے۔ تاجروں اور شہریوں کی اپنی مدد آپ کے تحت کارروائی کے دوران فائرنگ کے نتیجے میں خرم عامر نامی دکان دار بھی شدید زخمی ہوئے۔ اسی طرح 16 فروریکو تھانہ ویسڑیج کے علاقے میں دو مسلح ملزموں نے محمد شفیع کی اہلیہ سے لگ بھگ بائیس تولے طلائی زیورات چھینے اور مزے سے فرار ہو گئے۔ 17 فروری کو ہی تھانہ بنی کے علاقے سے فلنگ اسٹیشن کے کیشیئر افسر خان سے، چودہ لاکھ روپے کی نقدی اس وقت چھین لی گئی، جب وہ یہ رقم بینک میں جمع کرانے کے لیے جارہے تھے۔ 17 فروری کے روز ہی تھانہ نیوٹاؤن کے علاقے میں مسلح ڈاکوؤں نے سپریم کورٹ کے وکلا شفقت علی بھٹی اور ان کے ساتھیوں محمد الیاس، راجہ ناصر اور میاں عمر کی گاڑی زبردستی رکوائی اور ان سے مجموعی طور پر تقریباً 50 ہزار روپے کی نقدی، موبائل فون اور اے ٹی ایم کارڈ لوٹ لیے۔

راول پنڈی کے جرائم کی مجموعی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو رواں سال کے ابتدائی ڈیڑھ ماہ کے دوران مقدمات کے اندراج کی مجموعی تعداد 2200 سے زیادہ رہی۔ قتل کے 29، ڈکیتی کے دوران 2 قتل، اقدام قتل کے 58، اغوا برائے تاوان کے 2، خواتین وغیرہ کے اغوا کے 47، اغوا کی دیگر وارداتوں کے 29 ، ریپ اور گینگ ریپ کے 2 ، پولیس مزاحمت کے 7 جب کہ ڈکیتی، سرقہ بالجبر اور چوری کی مجموعی وارداتوں کے 480 سے مقدمات رپورٹ ہوئے۔ 45 دنوں کے قلیل عرصے میں گاڑیاں چھینے اور چوری کے 150 واقعات رپورٹ ہوئے تو موٹرسائیکل چوری اور چھینے جانے کے ایک سو سے زیادہ مقدمات درج کیے گئے۔

شہر میں امن وا مان کی مجموعی صورتِ حال کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ جمعہ (21 فروری) کو پرانا قلعہ کے گنجان آباد علاقے میں نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے اندھا دھند فائرنگ کر کے دو تاجروں کو موت کی نیند سلا دیا۔ پولیس افسران کا کہنا ہے کہ پانچ مسلح افراد اچانک پرانے قلعے کی سڑک پر موٹرسائیکلوں پر سوار نمودار ہوئے اور اندھا دھند فائرنگ شروع کردی، جس سے کھلی دکانوں کے ساتھ بند دکانیں بھی گولیوں کی زد پر آئیں، ملزم دو افراد کو قتل اور تین کو شدید زخمی کرنے کے بعد بہ آسانی فرار ہوگئے۔ اس سے پہلے ایک اور افسوس ناک واقعے میں قبضہ گروپ کے مسلح ملزموں نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کر دی، جس سے ایک سب انسپکٹر زندگی کی بازی ہار گیا اور ایک راہ گیر شدید زخمی ہو گیا۔

اس کے علاوہ سنگین جرائم کی اور لا تعداد وارداتیں ہیں، جنہیں احاطۂ تحریر میں لانے کو دفتر درکار ہیں۔ قانون کی رٹ کی بات تو الگ رہی، طرفہ تماشہ یہ ہے کہ وہ فورس کیا کرے گی کہ جس کا کوئی سربراہ ہی نہ ہو۔ سٹی پولیس آفیسر ( سی پی او) کی سیٹ سانحۂ راجہ بازار کے بعد سے خالی پڑی ہے، اگرچہ ریجنل پولیس آفیسر( آر پی او) اختر عمر حیات لالیکا، جنہیں سانحۂ راجہ بازار کے بعد انتہائی کھٹن وقت میں آر پی او راول پنڈی کے ساتھ سی پی او راول پنڈی کا اضافی چارج دے کر راول پنڈی میں تعینات کیا گیا اور انھوں نے بہترین حکمت عملی کامظاہرہ کر کے پولیس کے گرے ہوئے مورال کو جس طرح دوبارہ بلند کیا اور شہر میں امن کی فضا بہ حال کی، یقیناً ان کی پیشہ وارانہ صلاحتیوں کا ثبوت ہے لیکن ان کی ذمہ داریوں میں بہ یک وقت راول پنڈی جیسے بڑے ضلع کے ساتھ ریجن میں شامل اٹک، چکوال اور جہلم کے اضلاع کی بھی ذمہ داریاں ہیں، جن کے معاملات دیکھنا تنہا ایک آفسیر کی بس کی بات نہیں ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ گذشتہ دنوں وہ کام کی زیادتی اور دنوں دفاتر میں صبع سے رات گئے تک سرکاری امور سرانجام دینے کے دوران علیل بھی رہے۔ حکومت پنجاب کو چاہیے کہ راول پنڈی میں کمانڈ اینڈ کنڑول اور معیاری پولیسنگ کے لیے جلد از جلد سی پی او راول پنڈی کی تعیناتی کو ممکن بنائے تاکہ امن و امان کی صورت حال کو کنڑول میں رکھنے کے علاوہ شہریوں کے جان ومال کی حفاظت کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔