چلڈرن لٹریچر فیسٹیول: بچوں کی تخلیقی صلاحیتیں مہمیز کرتا میلہ

عارف عزیز  اتوار 23 فروری 2014
20 فروری کو کراچی میں گیارہواں چلڈرن لٹریچر فیسٹیول منعقد کیا گیا، جو تین روز جاری رہا۔  فوٹو : فائل

20 فروری کو کراچی میں گیارہواں چلڈرن لٹریچر فیسٹیول منعقد کیا گیا، جو تین روز جاری رہا۔ فوٹو : فائل

 مطالعہ غوروفکر پر آمادہ کرتا ہے۔

یہ تخیل کو تحریک دیتا ہے اور تخلیق کی طرف دھکیلتا ہے۔ جاننے اور سیکھنے سے نئے امکانات کا راستہ کُھلتا اور ترقی کا سفر شروع ہوتا ہے، لیکن ہمارے نظامِ تعلیم اور طریقۂ تدریس نے طلبا کو نصاب اور امتحانات کے خوف سے باہر ہی نہیں نکلنے دیا، جس سے ان کی صلاحیتیں ضایع اور فکر و عمل کا راستہ مسدود ہورہا ہے۔ وہ جدید اور نئی تکنیکیں، جو رنگوں، بصری مواد اور کھیلوں کی مدد سے طلبہ و طالبات کی صلاحیتوں کو مہمیز کرتی ہیں، ہمارے ہاں مفقود ہیں۔ خصوصاً سرکاری درس گاہوں میں تو اس کا تصور ہی محال ہے۔ دیہی اور پس ماندہ علاقوں کے اسکولوں کا ذکر ہی کیا، کراچی جیسے بڑے شہر میں بھی شعبۂ تعلیم زبوں حال ہے۔

ایک خیال تھا، ایک سوچ تھی کہ روایتی اور لگا بندھا طرزِ تدریس خواندگی کے اعداد و شمار پر تو اثر انداز ہو رہا ہے، مگر یہ حقیقی ترقی اور کام یابی نہیں۔ نسل نو کتابوں سے دور ہو رہی ہے اور مطالعہ کرنے کا رجحان دم توڑ رہا ہے۔ ان حالات میں بچوں کے تخیل کو تحریک دینے، سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بڑھانے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ماضی سے زیادہ ہے۔ یہی سوچ کر بیلا رضا جمیل نے چلڈرن لٹریچر فیسٹیول کی بنیاد رکھی۔ یہ طلبا کو فقط نصاب اور امتحانات میں کام یابی حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنے سے آگے لے جانے کی ایک سوچ تھی، جس میں امینہ سید کی فکر اور تجربہ بھی شامل ہو گیا اور یوں فیسٹیول کی شروعات ہوئی۔ 20 فروری کو کراچی میں گیارہواں چلڈرن لٹریچر فیسٹیول منعقد کیا گیا، جو تین روز جاری رہا۔ اس میلے کا پہلا دن اساتذہ کے نام کیا گیا تھا۔

’’ادارۂ تعلیم و آگاہی‘‘ پڑھنے لکھنے اور جاننے کو ہر شہری کا بنیادی حق مانتا ہے اور تعلیم کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے کوشاں ہے۔ بیلا رضا جمیل اس کی ڈائریکٹر پروگرامز ہیں۔ یہ ادارہ سرکاری، نجی تعلیمی اداروں اور تنظیموں کے تعاون سے ہر سال اس میلے کا انعقاد کرتا ہے۔ اکسفرڈ یونیورسٹی پریس کی مینیجنگ ڈائریکٹر امینہ سید بھی علم و ادب کے فروغ اور تعلیم کے شعبے میں بہتری کے لیے اس منصوبے میں بیلا رضا جمیل کے ساتھ ہیں۔ ادارۂ تعلیم و آگہی اور اکسفرڈ یونی ورسٹی پریس کے کراچی میں فیسٹیول کو اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن کراچی، یوتھ انیشیٹو اور آرٹس کونسل کے علاوہ متعدد سرکاری اور غیرسرکاری اداروں کا تعاون بھی حاصل تھا۔

اس فیسٹیول کا بنیادی مقصد بچوں میں مطالعے کی عادت کو فروغ دینا اور اس کے ذریعے تخلیقی صلاحیت بہتر بنانا ہے۔ یہ میلہ طلبا کو نصابی کتب اور امتحانات سے ہٹ کر سوچنے سمجھنے پر تیار کرنے کی کوشش بھی ہے۔ اس کے لیے سب سے پہلے اساتذہ کی ذہنی اور فکری تربیت کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی اور منتظمین نے پہلی مرتبہ چلڈرن لٹریچر فیسٹیول کا ایک دن ٹیچرز کے لیے مخصوص کیا۔ اس دن سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کے اساتذہ نے مختلف سیشنز اور سرگرمیوں میں حصّہ لیا۔ منتظمین کے مطابق تقریباً دو ہزار اساتذہ اس میلے میں شریک تھے۔ آرٹس کونسل کے مختلف حصّوں کو داستاں سرائے، شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ، کتاب گھر، طلسمِ ہوش ربا، ٹوٹ بٹوٹ، اوطاق، توتا کہانی، شاہی گزرگاہ جیسے ناموں سے منسوب کیاگیا، جو شرکا کی توجہ اور دل چسپی حاصل کرنے میں کام یاب رہے۔ یہاں تربیتی سیشنز میں اساتذہ کو بچوں کو سکھانے کا معیار بہتر بنانے اور درپیش مشکلات کا حل بتاتے ہوئے دل چسپ اور آسان طریقہ ہائے تدریس سے آگاہی دی گئی۔

اس موقع پر مطالعے کے فن، اساتذہ کی تعلیم اور ادب، اساتذہ کی آواز کے عنوان سے اہم نشست ہوئی، جس میں امینہ سید اور دیگر موجود تھے، نقاد اور ادیب آصف فرخی، نصرت علی، فواد خان، مونا قیصر اور دیگر نے تخلیقی تحریر پر ورکشاپ کی، ڈرامائی آرٹ پر گفت گو اور ’’ٹرانسفارمیشنل تدریس اور استاد کا لیڈر شپ کی حیثیت سے تعارف‘‘ کے عنوان سے نشست میں اساتذہ نے دل چسپی لی۔ سابق وفاقی وزیر اور ماہرِتعلیم محترمہ زبیدہ جلال نے ادبی ورثے کو فعال بنانے سے متعلق سیشن میں شرکا کی راہ نمائی کی۔ میلے میں آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس نے شرکا کو کاپی رائٹس اور ڈیجیٹل مصنوعات کے بارے میں آگاہی بھی دی۔ ماہرین نے مختلف نشستوں میں اساتذہ کو مؤثر طریقہ ہائے تدریس سے آگاہی دیتے ہوئے کلاس رومز میں کارکردگی بہتر بنانے سے متعلق بات چیت کی۔ انہیں مختلف اشکال، رنگوں، کہانیوں، پتلی تماشوں، ویڈیوز اور دوسرے دل چسپ طریقوں سے طالب علموں کی توجہ حاصل کرنے سے متعلق بنیادی باتیں بتائی گئیں۔ منتظمین کی کوشش تھی کہ اساتذہ روایتی تصور سے ہٹ کر کلاس رومز میں بچوں سے تعلق قائم کرنے کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانیں اور اسے دوران تدریس برتیں۔

بچوں کے ادبی میلے کی ڈائریکٹر رومانہ حسین نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس میلے کا محور بچوں میں مطالعے کی عادت کو فروغ دینا ہے۔ اس میں بچوں کا ادب سادہ اور دل چسپ پیرائے میں پیش کیا جارہا ہے، جس سے وہ کتب بینی کی طرف راغب ہوں گے۔ یہاں اساتذہ کو تربیت دی جارہی ہے کہ وہ بچوں کو کس طرح مختلف سرگرمیوں میں حصّہ لینے کے لیے تیار کریں۔ یہ ایک منفرد اور صحت مند سرگرمی ہے، جسے مستقبل میں بھی جاری رکھا جائے گا۔ اساتذہ کا یہ میلہ شام پانچ بجے تمام ہوا۔

21 فروری کی صبح آرٹس کونسل میں ہر طرف خوشی سے دمکتے ہوئے چہروں کے ساتھ اسکول یونیفارم پہنے بچے نظر آئے۔ یہ اپنے اساتذہ اور والدین کے ساتھ میلے میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ بچوں کے میلے کا آغاز بیلا رضا جمیل کے خطاب سے ہوا۔ اس تقریب سے امینہ سید، اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن کی نرگس سلطانہ، آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ، کراچی یوتھ انیشیٹو کے پروگرام ڈائریکٹر مشہود رضوی اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری ایجوکیشن سندھ ڈاکٹر فیض اﷲ پیچوہو نے بھی خطاب کیا۔ احمد شاہ کا کہنا تھا کہ یہ المیہ ہے کہ ہم ادب اور ادیبوں کو فراموش کرتے جارہے ہیں۔ یہ فیسٹیول بچوں میں کتب بینی کا رجحان پیدا کرنے اور سکھانے کی کوشش ہے۔

امید کرتا ہوں کہ اس قسم کے پروگرامز جاری رہیں گے اور آرٹس کونسل بھی ان کے انعقاد میں تعاون کرتا رہے گا۔ ایسے تمام افراد اور اداروں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی، جو علمی اور ادبی سرگرمیوں کا فروغ چاہتے ہیں۔ میلے کے آغاز سے پہلے فیسٹیول کی شریک بانی امینہ سید نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ اس قسم کے پروگرامز بچوں کو کتابوں کی دنیا کی طرف لانے کی ترغیب دینے کے ساتھ ان کا کتابوں سے تعلق جوڑنے میں معاون ہوتے ہیں۔ ایسے پروگراموں سے انہیں یہ جاننے کا موقع ملے گا کہ چھپے ہوئے لفظوں اور اس کے ساتھ تصاویر کی شکل میں ان کے لیے خوشیوں کا خزانہ موجود ہے۔

یہ میلہ چند مخصوص تعلیمی اداروں یا شہریوں کے لیے نہیں تھا بل کہ اس میں ہر علاقے، ہر زبان بولنے سمجھنے والے اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے اساتذہ، طلبا اور والدین شریک ہوئے۔ یہاں شہر کے معروف اور بڑے نجی اسکولز کے طلبا کے ساتھ سرکاری اور پس ماندہ تصور کیے جانے والے علاقوں سے بھی بچوں نے شرکت کی۔ یہ رنگا رنگ میلہ معروف گلوکار خالد انعم کے میوزیکل سیشن، علی بابا اور چالیس چور، چلغوزے اور موزے پر تھیٹر، ٹوفی ٹی وی کے کہانی ٹائم اور کٹھ پتلی تماشے سے سجا۔ آرٹس کونسل میں مختلف اسٹالز پر بچوں کی کتابیں موجود تھیں۔ ان میں کہانیوں اور نظموں کی کتب بچوں کی توجہ کا مرکز رہیں۔ اس موقع پر مختلف اسٹالز پر بچوں کی دل چسپی کے لیے سرگرمیاں دیکھی گئیں۔ بچے ذہنی آزمائش کے چھوٹے چھوٹے اور دل چسپ کھیلوں سے لطف اندوز ہوئے۔ کتابوں کے اسٹالز کے بعد سب سے زیادہ ’’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘‘ کے عنوان سے ہونے والی سرگرمی میں بچوں نے دل چسپی لی۔ یہاں انہیں کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرنے اور کہنے کا موقع ملا۔ یہاں بچوں نے چھوٹی چھوٹی کہانیاں، نظمیں، لطیفے، گانے، اقوال اور معلومات شیئر کیں۔

میلے میں سی ایل ایف ڈھابا کے نام سے کھانے پینے کا اسٹال بھی لگایا گیا تھا، جب کہ ایک اسٹال پر بچوں کے ہاتھوں اور گالوں پر نقش و نگار بنائے جارہے تھے۔ یہ اسٹال چھوٹے بچوں کی توجہ حاصل کرنے میں کام یاب رہا۔

اس دن نصاب اور نصابی کتب سمیت تعلیمی شعبے کے مسائل اور ان کے حل پر بات چیت، بچپن ہی سے مطالعے کی عادت ڈالنے پر ماہرین کی گفت گو قابل ذکر رہی۔ طلبا کے لیے شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ پر ادبی سیشن بھی پہلے دن کی سرگرمیوں کا حصہ تھا۔ داستان گوئی کا سلسلہ اس فیسٹیول میں سبھی کی دل چسپی سمیٹنے میں کام یاب رہا۔ صدیوں پرانے اس فن سے استفادہ کرتے ہوئے مختلف زبانوں میں داستانیں بیان کی گئیں۔ اس سلسلے میں عطیہ داؤد، عامرہ عالم، سیمی زیدی، عائشہ عمر، فواد خان، فاطمہ نعیم، علی ناصر آفریدی اور صائمہ اصغر ریاض پیش پیش رہے۔ سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے رنگارنگ اسٹالز بچوں کی توجہ کا مرکز رہے۔ طلبا کو رنگین پُتلیوں سے سیکھنے کا موقع فراہم کیا گیا تھا۔

انوشہ ریاض کا سیشن ’’کہانی کیسے لکھی جائے‘‘ کے عنوان سے ہوا، آصف سنین نے موسیقی کے بارے میں ورکشاپ کی، عمرانہ مقصود نے کہانیاں لکھنا سکھایا، یوسف کیرائی اور شہروز حسین نے جنوبی ایشیا کی موسیقی پر بچوں کو معلومات دینے کا سلسلہ کام یابی سے تمام کیا۔ اس موقع پر مختلف کتابوں کی رونمائی بھی ہوئی۔ عامرہ اسلم کی مرتب کردہ ’’اڑن طشتری‘‘ کے چوتھے ایڈیشن، فریدہ مرزا کی’’سورج دی ٹائیگر کب‘‘ کا اجراء ہوا۔ اسی طرح رومانہ حسین کی بچوں کے لیے چار کتابیں منظرِ عام پر آئیں۔ میلے کا اختتام معروف گلوکار شہزاد رائے کی پرفارمینس پر ہوا۔

چلڈرن لٹریچر فیسٹیول کے تیسرے دن بھی نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچے قطار بنا کر آرٹس کونسل کی عمارت میں داخل ہوئے۔ مسرت کا احساس اور خوشی کی جھلک ان کے چہروں سے نمایاں تھی۔ اس روز بھی خالد انعم کا میوزک سیشن بچوں کی توجہ کا مرکز بنا، دل چسپ کہانیوں اور داستانوں سے لطف اندوز ہوئے۔ اسد میاں کی بلونگڑا سیریز نے انہیں اپنی جانب کھینچا تو رومانہ حسین کی فیض احمد فیض اور بیگم رعنا لیاقت علی خان پر تحریریں بھی ان کی معلومات میں اضافے کا باعث بنیں۔

اس روز ’’بلوچستان میں چلڈرن تھیٹر‘‘ کے عنوان سے قابل توجہ سرگرمی بھی ہوئی۔ اس کا سہرا بلوچستان سے میلے میں شریک ہونے والے ایوب بلوچ کے سر ہے۔ تیسرے روز بچوں کے لیے میورل پینٹنگ کا اہتمام بھی کیا گیا۔ یہ سرگرمی آرٹسٹ اور رائٹر فوزیہ من اﷲ کی قیادت میں جاری رہی۔ اس میں بچوں نے بھرپور دل چسپی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کاٹن کے ایک لمبے کپڑے پر مختلف تصاویر بنائیں اور اپنے جذبات اور خیالات کو رنگوں کی صورت میں پیش کیا۔ تیسرے روز بھی ’’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے‘‘ کا کیمپ بچوں سے بھرا رہا۔ میلے کے اختتام پر منتظمین اور رضا کاروں کی تین روزہ محنت اور کاوشوں پر انہیں مبارک باد پیش کی گئی۔ اس موقع پر میلے کے بانیوں اور دیگر شخصیات نے اساتذہ، والدین اور بچوں کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ اس میلے میں سکھائی گئی باتوں اور پیغام کو آگے بڑھائیں اور اس تحریک کا حصّہ بن جائیں، جو ملک بھر میں تعلیم کے شعبے میں مساوات اور بہتری لانے کے لیے شروع کی گئی ہے۔

یہ میلہ بچوں کو مطالعے کی طرف راغب کرنے کی کوشش ہے: بیلا رضا جمیل
فیسٹیول کی بانی بیلا رضا کہتی ہیں کہ یہ تعلیمی میدان میں تبدیلی کی کوشش ہے۔ معیاری اور بہتر تعلیم سب کا حق ہے اور یہ فیسٹیول اسی پیغام کو آگے بڑھاتا ہے۔

یہ میلہ بچوں کو مطالعے کی طرف راغب کرنے کی کوشش ہے۔ تدریسی عمل میں معمولی تبدیلیوں اور بچوں کی دل چسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے کلاس روم میں ان سے تعلق بنانے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔ اساتذہ کی توجہ اور کوشش نئی نسل کو جدید دنیا کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے قابل بنا سکتی ہے۔ اسی لیے میلے کا پہلا دن اساتذہ کے لیے مخصوص کیا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔