عوام دشمن سیاستدان

اس لولی لنگڑی جمہوریت کے یہ بدبودار بے ضمیر سیاسی لوگ ہی اصل میں عوام کے دشمن ہیں


یہ سیاسی لوگ اب ایک مافیا کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

ISLAMABAD: گزشتہ دہائیوں میں پاکستان میں جن سیاسی جماعتوں کی حکومتیں رہی ہیں، صاحب نظر اچھی طرح جانتے ہیں کہ انتخابات جیتنے کے بعد حکومت کے شروع کے برسوں میں عموماً عوام کو زیادہ ریلیف نہیں دیا جاتا۔ ظاہر ہے کہ بہت سارا خزانہ تو ان منصوبوں پر صرف ہوجاتا ہے جو گزشتہ حکومت نے عوامی فلاح و بہبود کے لیے شروع کر رکھے ہوتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ملک کو نادہندہ ہونے سے بچانے کےلیے لیے گئے ملکی قرضوں کی ادائیگی کا بندوبست کرنا بھی اب اس نئی حکومت کی ذمے داری بن جاتی ہے۔ لیکن جب کسی سیاسی جماعت کی حکمرانی کا آخری سال آتا ہے تو عوام کو مطمئن کرنے کےلیے مختلف فلاحی منصوبوں کا سنگِ بنیاد رکھنا شروع کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ عوام کو ریلیف دینے کےلیے گویا خزانے کا منہ کھول دیا جاتا ہے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ یہ حربہ تقریباً ہر تجربہ کار سیاسی جماعت کرتی چلی آئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے بعد انتخابات کا سال ہوتا ہے اور حکمران سیاسی جماعت کا یہ سیاسی و انتظامی حربہ دراصل انتخابات میں زیادہ سے زیادہ کامیابی حاصل کرنے کےلیے ہوتا ہے، تاکہ عوام کو مطمئن کرکے ان کا اعتماد ووٹ کی صورت میں حاصل کیا جاسکے۔

اس تاریخی و تمہیدی پیرائے کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو موجودہ حکومت کا بھی یہ آخری سال ہے اور اسی سال مختلف فلاحی منصوبوں کا سنگِ بنیاد رکھنے اور عوام کو ریلیف ملنے کی توقع بھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت میں شامل سیاست دان اور خاص طور پر وزیراعظم عمران خان کے قریبی وزرا بھی تجربہ کار پرانے سیاست دان ہیں۔ لہٰذا وہ اوپر ذکر کی گئی مصلحت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ یہاں اب موجودہ سیاسی افراتفری کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں رہا۔ کیا وجہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کو چار سال تک برداشت کرنے والی حزبِ مخالف سیاسی جماعتیں اب آخری صرف ایک سال مکمل ہونے سے پہلے ہی حکومت گرانے کےلیے متحد و متفق ہوچکی ہیں؟ اور اس کےلیے وہ ہر غیر اخلاقی و غیر پارلیمانی حدود سے تجاوز کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہیں؟

دراصل حزبِ مخالف سیاسی جماعتیں حکومتی مصلحت کو اچھی طرح جان چکی ہیں۔ ایک سرسری نگاہ ڈالنے سے ہی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ حکومت نے شروع کے تین سال میں زیادہ تر ان منصوبوں کو مکمل کیا جو گزشتہ حکومت نے عوامی فلاح کےلیے شروع کر رکھے تھے۔ ان کی پوری ایک فہرست ہے۔ انہی میں سے ایک لاہور کا اورنج لائن میٹرو ٹرین کا بڑا منصوبہ بھی شامل تھا۔ علاوہ ازیں ملکی قرضوں کی واپسی کا انتظام بھی اسی حکومت کی ذمے داری تھی۔ گزشتہ حکومت کے ان ادھورے کاموں سے سبک دوشی کے ساتھ ہی کورونا وبا نے گھیر لیا اور اس طرح پی ٹی آئی حکومت جن وعدوں کی بنیاد پر منتخب ہوکر برسرِاقتدار آئی تھی ان کے ایفا میں مسلسل تاخیر ہوتی رہی۔ اس طرح حزبِ مخالف سیاسی جماعتوں کو عوامی رائے عامہ اپنی طرف موڑنے میں مدد ملتی رہی۔

الحاصل حزبِ مخالف سیاسی جماعتیں ہرگز یہ نہیں چاہتیں کہ پی ٹی آئی حکومت کا آخری سال مکمل ہونے پائے۔ کیوں کہ اگر حکومت کا یہ آخری سال مکمل ہوگیا تو یہ حکومت لازمی طور پر عوام کو ریلیف دینے کے لیے اپنی ساری توانائیاں خرچ کر ڈالے گی۔ فلاح وبہبود کے مختلف نئے نئے منصوبے متعارف کرا دے گی، جس کی ایک مثال چند دن قبل پٹرولیم اور بجلی کے نرخوں میں کمی بھی ہے۔ چنانچہ حکومت کے آخری سال عوام کو بھرپور ریلیف ملنے سے ممکن ہے کہ عوام کی حکومت سے غصہ و ناراضی ختم ہوجائے، اس طرح پی ٹی آئی کی مقبولیت کئی گنا بڑھ جائے۔ لہٰذا نتیجتاً اگلے انتخابات میں بھی پاکستان تحریک انصاف کی نمایاں کامیابی کے امکانات روشن ہوجائیں گے۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ سیاسی گہما گہمی اور کشیدہ ماحول میں کیا حزبِ مخالف سیاسی جماعتیں یا تحریک انصاف کے وہ منحرف ارکان جو حکومت گرانے میں مخالف سیاسی جماعتوں کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں، کیا یہ سب لوگ عوام کے دشمن ہیں یا عوام کے خیرخواہ ہیں؟ یقیناً اسے کوئی بھی صاحب نظر و فکر عوام کی خیر خواہی تسلیم نہیں کرے گا۔ تو ثابت ہوا کہ اس لولی لنگڑی جمہوریت کے یہ بدبودار بے ضمیر سیاسی لوگ اصل میں عوام کے دشمن ہیں جو حکومت کو اپنی مدت پوری کرنے سے روک رہے ہیں۔ یہ سیاسی لوگ اب ایک مافیا کی صورت اختیار کرچکے ہیں جو دراصل اپنے اپنے سیاسی مفاد کی خاطر ممکنہ طور پر حکومت کی طرف سے عوام کو ملنے والے ریلیف کی قربانی چاہتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں