دہشت گردوں کی سرکوبی

عبدالقادر حسن  اتوار 23 فروری 2014
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

وطن عزیز کو اندرونی بحران کیا کم تھے کہ گھر بیٹھے بیٹھے ہمیں ایک بیرونی بحران بھی لاحق ہو گیا جو ایک خونی بلکہ خوفناک خونی بحران ہے۔ اس بیرونی بحران نے قوم کو غم اور غصے میں مبتلا کر دیا ہے۔ قوم کے فرزند اور محافظ جنہوں نے زندگیاں اس قوم کی حفاظت کے لیے وقف کر دی تھیں، جیتے جی ان کے گلے کاٹ دیے گئے، ایک ایسا ظلم اور سفاکی جو پہلی بار ہم نے دیکھی اور سنی، میں نے ٹی وی پر دشمن کے ہاتھوں پاکستانیوں کا خون پاکستانی مٹی پر بہتے دیکھا۔ ایک چینل کی اسکرین نے بڑا حوصلہ دکھایا کہ زندہ انسانوں کے گلے کاٹے گئے اس حد سے زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہم آزاد ایٹمی طاقت والے پاکستانیوں کو اپنے وطن میں یہ منظر دیکھنا تھا۔ پاکستان میں ہر روز سڑکوں پر حادثے ہو رہے ہیں۔ آتشزدگیاں ہو رہی ہیں، قتل و خونریزی ایک معمول بن گئی ہے، ایسے لگتا ہے جیسے ملک پر کوئی عذاب نازل ہو گیا ہے۔ ہمیں ہمارے اعمال کی سزا مل رہی ہے۔

یہ وقت ہے اپنے گناہوں کے استغفار کا اجتماعی استغفار اور فریاد کا ہمارے حکمران اگر اپنے غیر ملکی دوروں سے فارغ ہونے والے ہیں اور کسی نئے غیر ملکی دورے کے لیے سامان باندھ کر تیار ہو چکے ہیں تو وہ تھوڑا سا وقت اپنے ملک کے حالات تازہ پر بھی دے دیں ورنہ ہم خاک ہو جائیں گے، تم کو خبر ہونے تک۔ فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کے ایک ترجمان نے گزشتہ روز لاہور کے چند صحافیوں کو ان حالات تازہ سے آگاہ کیا۔ ملک کے مضطرب علاقوں کے نقشے دکھائے۔ فوج کی جدوجہد اور فوجی کارروائیوں کا تذکرہ کیا۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ کم از کم ہماری فوج ان حالات کو محض امن و امان کا مسئلہ نہیں سمجھتی اس سے زیادہ ایک سنگین فوجی مسئلہ سمجھتی ہے اور فوجی ہتھیاروں سے اس کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس انتہائی مشکل علاقے میں وہ ان علاقوں کے باشندوں سے نبرد آزما  ہے۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت کا اسلحہ سرمایہ اور فوجی تربیت اس بحران میں پوری طرح برسرکار ہے۔ مثلاً ان دنوں کوئی تیس ہزار افغان فوجی بھارت میں زیر تربیت ہیں۔

کیا ان فوجیوں کو امریکا سے لڑنے کی تربیت دی جا رہی ہے یا چین سے۔ کون نہیں جانتا کہ بھارت براستہ اور بذریعہ افغانستان پاکستان پر بالواسطہ حملہ آور ہے۔ بھارت مروجہ طریقے سے فوجی حملہ نہیں کر سکتا لیکن اس سے زیادہ خطر ناک یہ خفیہ طریقہ ہے اور اس کے لیے بھارت کو پاکستان کے پرانے مہربان افغان حکمرانوں کی حمایت حاصل ہے۔ ہوتا یہ رہا ہے کہ افغانستان کے عوام پاکستان کے ساتھ رہے لیکن ان کے حکمران بھارت کے ساتھ آج جب یہ خطہ حالت جنگ میں ہے تو افغانستان کے حکمران بھارت کے دست و بازو بنے ہوئے ہیں۔ امریکا نے گیارہ برسوں میں اپنی رسوائی تو خوب کرا لی لیکن افغانستان کے حالات کو اس قدر الجھا دیا اور افغان قوم کو اس قدر پریشان کر دیا کہ وہ پاکستان جیسے مفید  پڑوسی اور جائے پناہ کو بھی ناراض کر رہی ہے۔ پاکستان کی شاید سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس کی بااثر اور با اختیار اشرافیہ امریکا کو ناراض نہیں کر سکتی اور اب تو شاید بھارت کو بھی کیونکہ بھارت ہمارے لیے ایک چھوٹا امریکا بن گیا ہے۔

پاکستان میں قبائلی طرز کی دہشت گردی پریشان کن ضرور ہے لیکن ہماری افواج کے لیے کوئی بڑی مشکل نہیں ہے۔ فوج سول حکومت کے احکامات کے مطابق ہی ایکشن کر رہی ہے۔ فی الحال فضائی آپریشن کیا جا رہا ہے اور ضرورت پر زمینی آپریشن بھی ہو گا لیکن اگر دہشت گردوں اور ان کے پاکستانی سرپرستوں میں عقل باقی ہے تو وہ فوج کے زمینی آپریشن کی نوبت نہ آنے دیں ورنہ ان کا بہت زیادہ نقصان ہو گا اور اس علاقے کے کئی بے گناہ پاکستانی بھی زد میں آ سکتے ہیں جو ہماری قومی فوج کے لیے بھی پریشان کن ہو گا اور اس سے صرف بھارت جیسے دشمنوں کی تسلی ہی ہو گی۔ مذاکرات کا سلسلہ اسی صورت حال سے بچنے کے لیے شروع ہوا تھا لیکن جس کمزوری کے ساتھ ہماری طرف سے شروع کیا گیا تھا اس سے مذاکرات کی کامیابی کا امکان نہیں تھا۔ ہمارے کم علم اور کم فہم دہشت گرد غلط فہمی کے شکار تھے جو فضائی حملوں سے ہی بڑی حد تک دور ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

پورے پاکستان کی رائے عامہ دہشت گردوں کی سفاکی دیکھ کر ان کی دشمن بن چکی ہے اور پاکستان کے عوام میں اس طبقے کی جو عزت تھی اس کو زبردست ٹھیس پہنچی ہے اور اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ان کی زندگی مشکل ہو سکتی ہے اگر فوج زمینی آپریشن پر مجبور ہوئی تو صورت حال بہت مشکل ہو جائے گی۔ اس وقت تک فوج نے جو کچھ کیا ہے اس کی معلومات  فوجی ترجمان کے حوالے سے آپ کو اخبارات سے مل چکی ہیں۔ میں ان کی تکرار نہیں کرتا لیکن میں فوجی ترجمان کے ساتھ ملاقات میں یہ اطمینان لے کر آیا ہوں کہ ہماری فوج کے جذبات وہی ہیں جو ایک عام پاکستانی کے ہیں کیونکہ ہماری فوج ہم میں سے ہے، وہ تو قوم اور فوج کی بدقسمتی کہ اس پر کچھ غلط لوگ مسلط ہو گئے جنہوں نے نہ صرف ملک توڑ دیا بلکہ پاکستانیوں کو امریکا کے ہاتھوں بیچنے کا اعتراف بھی کر لیا بہر کیف آج فوج ایک ایسے سپاہی کی کمان میں ہے جس کے والد ماجد میجر شریف نے جب لاہور جمخانہ کے کارڈ روم میں جنرل نیازی کو بیٹھے دیکھا تو اس بوڑھے نے تڑپ کر کہا کہ کوئی غدار یہاں بیٹھا ہے، وہ اٹھ جائے نہیں تو میں اسے گولی مار دوں گا تو وہ فوراً چلا گیا اور میں نے میجر صاحب کو پانی پلا کر کرسی پر بٹھا دیا جن پر غصے سے کپکپی طاری تھی۔

میں ایک فوجی علاقے سے تعلق رکھتا ہوں اور ایک پاکستانی سپاہی کے جذبات سے خوب واقف ہوں۔ 65ء کی جنگ میں چھٹی پر آئے ہوئے ایک فوجی نے ریڈیو پر خبر سنی تو اس نے فوراً اپنا بیگ تیار کیا اور بس کے انتظار میں سڑک کر بیٹھ گیا کہ مجھے تو بلاوا آ گیا ہے۔ ہماری ایٹمی فوج کو صحیح قیادت میسر ہو تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہے کہ وہ اللہ کی فوج ہے بہر کیف جنگ زندگی کا کھیل ہے۔

ایک ضروری اعلان ملاحظہ فرمائیے۔

محترم سید سرفراز شاہ صاحب کے بارے میں ایک کالم لکھا گیا جس کے بعد ملک اور بیرون ملک سے لاتعداد درخواستیں اور پیغام موصول ہوئے کہ شاہ صاحب کا پتہ اور فون وغیرہ بتایا جائے، ان دنوں پیغامات زیادہ تر برقی ذرایع سے موصول ہوتے ہیں چنانچہ قبلہ شاہ صاحب کے معتقدین کی بے قراری دنیا بھر سے آنے والے ان پیغامات سے ظاہر تھی لیکن میرے پاس شاہ صاحب کا فون نمبر نہیں تھا اور جو ان کی نشست کا پتہ تھا پتہ وہ ہی بتاتا رہا لیکن میرے تو دن رات اسی خط و کتابت میں گزرنے لگے۔ اس پر شاہ صاحب کے ایک خاص مرید نے جو ان کے نمایندے کے طور پر کام کرتے ہیں شاہ صاحب کی اجازت سے اپنا فون نمبر دیا ہے جس پر آپ ان کے ذریعے شاہ صاحب سے بالواسطہ رابطہ کر سکتے ہیں ان کا اسم گرامی صابر ملک صاحب اور فون نمبر0321-4443533۔ آپ ان سے رابطہ کر کے شاہ صاحب تک اپنی بات پہنچا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔