مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور پاکستان

زمرد نقوی  اتوار 23 فروری 2014

نیا سال شروع ہوتے ہی پاکستان اہم بین الاقوامی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ہے جس کا آغاز سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل اس کے بعد سعودی نائب وزیر دفاع اور اب حال ہی میں سعودی ولی عہد سلمان بن عبدالعزیز کے دورے سے ہوا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات بہت پرانے ہیں۔ لاکھوں پاکستانی بسلسلہ روزگار سعودیہ میں مقیم ہیں جو ہر سال چار ارب ڈالر وطن بھیجتے ہیں۔ آج کل یہ پاکستانی وہاں قانونی مشکلات کا شکار ہیں اور یہ صورتحال خلیج کی بیشتر ریاستوں میں پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ بھی بین الاقوامی معاشی بحران ہے۔ عراق کے کویت پر حملے نے معاشی  تنزلی کا آغاز کر دیا۔ امریکا کے  فوجی آپریشن کے اخراجات سعودیہ اور دیگر خلیجی بادشاہتوں کو اٹھانے پڑے۔

اب انھیں خسارے کے بجٹ کا سامنا ہے۔ غیر ملکی ذرایع ابلاغ کے مطابق اب سعودی نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 40 فیصد ہو گئی ہے۔ چنانچہ اپنے لوگوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے وہاں تمام غیر ملکیوں کو نکالا جا رہا ہے۔ خاص طور پر وہ جو وہاں  غیر قانونی  ہیں اور جو وہاں قانونی طور پر مقیم ہیں ان کی مدت میں کمی کی جا رہی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں مقیم پاکستانیوں کے مجھے اکثر ٹیلیفون آتے رہتے ہیں جو حکومت پاکستان سے درخواست کرتے ہیں کہ پردیسی پاکستانیوں کے مسائل کا حل نکالا جائے جن میں سے اکثریت نے زیور، مال مویشی اور گھر بیچ کر یہ ویزے حاصل کیے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان اتنا تو کرے کہ ان کے ویزہ کی رقم انھیں کما لینے دے۔

اس حوالے سے ایک انتہائی منفی پہلو یہ ہے کہ پاکستانی معیشت جو اس وقت اپنے بدترین دور سے گزر رہی ہے اگر یہ تارکین وطن واپس پاکستان آ گئے تو ہماری معیشت کی تو کمر ہی ٹوٹ جائے گی۔ خلیجی ریاستوں میں اب ایک انتہائی منفی صورت حال یہ پیدا ہو رہی ہے کہ وہاں مذہب و مسلک کی تفریق کرتے ہوئے لوگوں کو نکالا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوئی جب بحرین میں وہاں کے حکمران کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے لیکن مظاہرین کو پوری طاقت سے کچل دیا گیا۔  پاکستانیوں کو بھی چاہیے کہ ان کے اندرونی معاملات میں دخل نہ دیں۔ بہرحال یہ بات بڑی خوش آیند ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے سعودی ولی عہد  سے ان مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔ مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات سعودی عرب میں ہی ہیں۔ سعودی حکمران تمام مسلمانوں کو چاہے وہ کسی مذہب و مسلک سے تعلق رکھتے ہوں بلا تفریق سب کو مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے سہولتیں مہیا کرتے ہیں تو اس معاملے پر بھی سعودی حکمران ان شکایات کا امید ہے اپنی پہلی فرصت میں ضرور ازالہ کریں گے۔

سعودی حکمرانوں کا بلند مذہبی مقام بھی تقاضا کرتا ہے کہ وہ تمام لوگوں کو ایک نظر سے دیکھتے ہوئے معاشی تفریق نہ کریں۔ سعودی ولی عہد کے ساتھ آنے والے سعودی وزیر اطلاعات کا یہ بیان بھی بڑا خوش کن ہے کہ سعودی عرب اور ایران میں کوئی اختلافات نہیں صرف معمولی اختلافات ہیں جن کی کوئی اہمیت نہیں۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو اور اس کا ثبوت مستقبل قریب میں ملے۔ ابھی تک تو یہ صورت حال ہے کہ ملک شام کے معاملے پر دونوں ملکوں میں شدید اختلافات ہیں۔پاک سعودی عرب مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ شام میں بشارالاسد کی جگہ عبوری حکومت قائم کی جائے۔ جب کہ سعودی ولی عہد کے دورے سے پہلے پاکستان کا سرکاری مؤقف بشارالاسد کی حکومت کی حمایت اور شام سے غیر ملکی باغیوں کا نکلنا رہا ہے جو دنیا بھر سے اکٹھے ہو کر بشار حکومت کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

ان باغیوں کو یورپ‘ خلیجی بادشاہتوں اور امریکا کی حمایت حاصل ہے۔ مسئلہ کی اصل جڑ یہی ہے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے پاکستانی ریاست کو شکست دینے کے لیے باغیوں کو غیر ملکی امداد اور افرادی قوت مل جائے۔ جب خطے میں کہیں بھی غیر ملکی امداد اور بیرونی مسلح افراد آتے ہیں تو حالات ہمیشہ خراب ہی ہوتے ہیں کیونکہ بیرونی ہاتھ مفت میں باغیوں کو امداد نہیں دیتا جب تک کہ اس میں اس کا اپنا مفاد شامل نہ ہو۔ یہ ہولناک تجربہ سوویت یونین کے خلاف ہم افغانستان میں کر چکے ہیں۔ یہ بات خطے کے تمام ملکوں کو اب تو سمجھ لینا چاہیے کہ جہاں جہاں غیر ملکی مداخلت ہو گی وہاں کا نہ صرف امن تباہ ہو گا بلکہ اس کے اردگرد کے ممالک بھی اس آگ کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔

طاقت کے ذریعے ریاستوں کو توڑا نہیں جا سکتا۔ اگر شام ٹوٹ جاتا ہے تو اس کے منفی اثرات نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پاکستان پر بھی مرتب ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ اس طرح مشرق وسطیٰ کی ری برتھ کا آغاز ہو جائے جب کہ پاکستان بھی مشرق وسطیٰ کا حصہ ہے۔

تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ بشارالاسد نے دوبارہ صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے۔ جب کہ امریکا القاعدہ کے شام پر قبضے کے خطرے کے پیش نظر پیچھے ہٹ گیا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ شام میں بے پناہ قتل و غارت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ باغیوں کی غیر ملکی امداد بند ہو اور وہاں اقوام متحدہ کی نگرانی میں آزادانہ غیر جانبدارانہ شفاف انتخابات منعقد کروائے جائیں۔ کاش کہ شام کے مسئلے پر سعودی عرب ایران کے اختلافات ختم ہوں اور اس میں ترکی بھی شامل ہو جائے اور ان تینوں ملکوں کے وسائل مسلمان کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوں۔ کیا یہ معجزہ ہو سکتا ہے… آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی۔

٭…حکومت طالبان مذاکرات کے حوالے سے 28-26-25 فروری یکم مارچ اہم تاریخیں ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔