سیاسی عدم استحکام اور معیشت

تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود برآمدات کے اہداف پورے ہوئے ہیں، نہ لگژری اشیاء کی درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی ہے


Editorial March 30, 2022
موجودہ حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں نے عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل بنایا ہوا ہے۔ فوٹو: فائل

کراچی: ڈالر کے انٹر بینک ریٹ 182روپے اور اوپن مارکیٹ ریٹ 183روپے سے بھی تجاوز کرگئے۔

معاشی ماہرین کے مطابق 2 ہفتے میں روپے کے مقابلے میں ڈالر مہنگا ہو گا اور یہ عالمی مارکیٹ میں درآمدی اجناس کی قیمت میں اضافے کے بھی اثرات ہیں، جب کہ گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستانی برآمدات بڑھانے کی بیش بہا صلاحیت موجود ہے۔

دوسری جانب رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی ملک بھر میں اشیاء ضروریہ کی مہنگائی کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جاری سیاسی بحران ملکی معیشت کو بہت بری طرح متاثر کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ کاروباری اور معاشی سرگرمیاں اس کے منفی اثرات کی زد میں ہیں۔

ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کے پیش نظر سرمایہ کاروں نے بھی فی الحال نئی سرمایہ کاری کے فیصلے معطل کر دیے ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج میں بھی صورتحال بہتر نہیں ہے ، فوڈ اور نان فوڈ انفلیشن میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، جس سے عام آدمی کی زندگی مزید مشکلات کا شکار ہے۔

غیر مسلم ممالک بھی ماہ صیام میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی کر دیتے ہیں۔ خصوصی رمضان ڈسکاؤنٹ پیکیج متعارف کرائے جاتے ہیں ، مسلم بھائیوں کے لیے بڑے بڑے افطار و دستر خوان سجائے جاتے ہیں ، لیکن پاکستان میں رمضان جیسے با برکت اور رحمت کے مہینے کی آمد سے پہلے ہی کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر جوتوں اور ملبوسات تک کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان شروع ہوجاتا ہے۔ اس بار بھی رمضان المبارک کی آمد سے قبل اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ شروع ہوچکا ہے، ملک کے بعض شہروں میں مرغی کا گوشت 400 روپے فی کلو گرام سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔

یوٹیلیٹی اسٹورز پر گھی و آئل سمیت بیشتر اشیاء مہنگی ہو گئیں۔ کراچی شہر کی مختلف مارکیٹوں میں تیل 490 روپے فی کلو تک پہنچ گیا ہے جب کہ گھی 450 سے 460 کے درمیان میں فروخت ہورہا ہے۔ مارکیٹ میں ریٹیل کی سطح پر ماش کی دال 260 روپے فی کلو گرام ہوگئی ہے جب کہ مسور کی دال ریٹیل مارکیٹ میں 220 روپے ہوگئی ہے۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھنا شروع ہوچکی ہیں گوشت سے لے کر دالوں، سبزیوں، پھلوں سمیت ہر چیز کی قیمت میں ہوش ربا اضافہ ہو گیا ہے۔

موجودہ حکومت کی غلط معاشی پالیسیوں نے عام آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل بنایا ہوا ہے ، کورونا وائرس نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے۔ سفید پوش طبقے کو اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق گزرے دوبرسوں میں بیس لاکھ کے قریب لوگ بے روزگار ہوئے ہیں۔

ان حالات میں حکومت کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر ٹھوس اقدامات کرے۔ تھوک منڈی اور پرچوں منڈی میں ریٹ لسٹ آویزاں کرنے کی پابندی کرائی جائے اور خلاف ورزی پر سخت ایکشن لیا جائے۔ ضلع سطح پر ڈی سی اوز اور اسسٹنٹ کمشنرز کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ حکومت کی جانب سے مقررکی گئی ریٹ لسٹوں پر عمل درآمد یقینی بنائیں ۔مختلف ایشاء پر عائد درآمدی ڈیوٹی، ایکسائز ڈیوٹی اور دیگر ٹیکسوں کو رمضان کے پورے ایک ماہ کے لیے ختم کردیا جائے تو مہنگائی میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

ملک کی کاروباری اشرافیہ کو بھی ایسے اقدامات کرنے چاہیے جس اشیاء کی قلت پیدا نہ ہو ، اگر بڑے بڑے کاروباری اپنے منافعے کی شرح میں پچاس فیصد کمی کردیں تو بھی صارفین کو خاصا ریلیف مل سکتا ہے اور کاروباری ادارے کی فروخت میں بہت زیادہ اضافہ ہوسکتا ہے۔ لیکن ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ جس کا جہاں داؤ لگتا ہے وہ ڈنڈی مارنے سے باز نہیں آتا۔ کسی کو ہمارے خلاف سازش کرنے یا ہمیں تباہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہم خود ہی کافی ہیں۔

اپنی تباہی کا سامان پیدا کرنے کے لیے۔ اپنی انا اور خود غرضی میں ہم اتنے اندھے اور اخلاقی طور پر اتنے دیوالیہ پن کا شکار ہو چکے ہیں کہ ہمیں بس اپنا مفاد عزیز ہے چاہے اس میں میرے ملک یا میرے معاشرے کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔

کیا ہوگا اگر ہم لوگ اس رمضان میں ناجائز طریقوں سے پیسے کمانے کے بجائے کاروباری اصولوں کو مدنظر رکھ کر کاروبار کریں، لیکن اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک کا المیہ تو یہ ہے کہ پورے سال کا جتنا گلا سڑا پھل ہے، وہ رمضان میں بکے گا۔ ملاوٹ دگنی ہو جائے گی۔ رمضان جیسے مقدس مہینے میں بھی رب کی رحمتوں کو سمیٹنے کے بجائے الٹا عذاب کو دعوت دیتے ہیں۔ ذرا اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں کتنے ہی ایسے لوگ تھے جو گزشتہ رمضان تو ہمارے ساتھ تھے لیکن اس رمضان میں ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے۔

اس وقت یورپی خریدار موسم سرما کے آرڈرز فائنل کر رہے ہیں لیکن ہمارے ایکسپورٹرزکو یہ پتہ نہیں ہے کہ ان کو دی جانے والی مراعات چند ہفتوں بعد بھی جاری رہیں گی یا نہیں ، پاکستان میں سیاسی بحران کو جلد سے جلد حل ہونا چاہیے اور اپوزیشن اتحاد کو فوری طور پر یہ اعلان کرنا چاہیے کہ وہ موجودہ اقتصادی پالیسیاں نہیں بدلیں گے، اگر حکومت آنے والے دنوں میں ٹیکسوں میں اضافے پر مجبور ہوئی تو اس سے ٹرانسپورٹ کے کرایوں، اسکولوں کی فیسوں اور یوٹیلٹی بلوں کے نرخوں میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے جس سے عام آدمی کی زندگی بہت مشکلات کا شکار ہو جائے گی۔

اس وقت ملک میں جو سیاسی عدم استحکام کی صورتحال ہے اس سے ملکی معیشت پر فوری، وسط مدتی اور طویل مدتی اثرات مرتب ہو نے کا امکان ہے۔ اقتصادی گروتھ کی رفتار سست ہونے اور مہنگائی میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ آگے چل کر غربت اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہونے کا امکان ہے۔

طویل المعیاد اثرات یہ ہوں گے کہ معیشت کے لیے اصلاحات اور اسٹرکچرل تبدیلیوں کی جو اشد ضرورت ہے، وہ اب اور مشکل ہو جائیں گی۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ درست نہیں ہے کہ صرف چند دنوں کی وجہ سے معیشت متاثر ہو رہی ہے، ان کی رائے میں یہ حکومت کی نا اہلی اور غلط پالیسیاں ہیں جن کی وجہ سے پہلے ہی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ دوسری طرف وزارت خزانہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ درست نہیں ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے حکومتی فیصلہ سازی کی رفتار کم ہو گئی ہے۔

معیشت میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کا حصہ نمایاں ہے، یہ صنعت گزشتہ تین ، چار برسوں سے کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ کمی کے باعث زبوں حالی کا شکار چلی آ رہی ہے۔ حالات یہ ہیں کہ جب کپاس دستیاب تھی، تب توانائی کا بحران درد سر بنا رہا اب ٹیکسٹائل کے شعبے میں توانائی کا مسئلہ نسبتا حل ہوا ہے ، تو کپاس دستیاب نہیں۔

یہ افسوس ناک صورت حال فوری توجہ طلب ہے۔ یہ تحقیق ہونا ضروری ہے کہ کپاس میں خود کفیل پاکستان اب ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے کپاس درآمد کرنے پر کیوں مجبور ہے؟ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی طرح ملک میں چھوٹی صنعتوں کو فروغ دینا بھی اشد ضروری ہے ، اس اقدام سے ایک دو سال میں بے روز گاری میں کمی ہو سکتی ہے۔

حکومت کی طرف سے مفاد عامہ کے نام پر سہانے خوابوں کی تکمیل کے لیے جاذب نظر ناموں پر مبنی درجنوں منصوبوں کے اجراء کی خبریں اکثر نظر نواز ہوتی رہتی ہیں مگر بظاہر ان منصوبوں کے ثمرات عوام تک پہنچتے نظر نہیں آ رہے، ایسا ہونا حکمرانوں کی ہی بد تدبیری کا نتیجہ ہے ، جس سے مفاد پرست طبقے، جن میں مصنوعی مہنگائی اور اشیائے ضرورت کی ذخیرہ اندوزی کرنے والے عناصر سر فہرست ہیں، بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مافیا معاشی بد حالی میں بھی میڈیا میں حکومت کی '' کارکردگی '' کے گن گا رہا ہے اور ارباب اختیار یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پس پردہ یہ چاپلوس طبقہ کتنا خطر ناک ہے، یہی وہ طبقہ ہے جو مفاد عامہ کے منصوبوں میں حکومت کی طرف سے ملنے والی سبسڈی سے ، سب سے زیادہ استفادہ کرنے میں کامیاب رہتا ہے۔

معاشی ترقی جمودکا شکار ہے۔ ملک میں شرح نمو کو فوری طور پر پانچ سے سات فیصد تک لے جائے بغیر معیشت کی فعالیت محض خواب رہے گا۔ ملک میں ایسی تمام مصنوعات کی تیاری کا عمل رک چکا ہے جن سے ہزاروں لوگوں کا روز گار بلواسطہ یا بلاواسطہ وابستہ ہے ، معاشی اعتبار سے یہ ایک ایسا درد ناک پہلو ہے، جس سے کم سرمائے والا تاجر طبقہ اور روزانہ اجرت پر کام کرنے والے کروڑوں مزدور براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔

اب بھی وقت ہے حکومت کاروباری سرگرمیوں میں تیزی لانے کے لیے ملک میں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے قانون کی بالا دستی پر توجہ دے اور سیاسی وجوہ کی بنا پر صرف اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے بجائے خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے کروڑوں عوام کی مشکلات پر توجہ دی جائے۔

تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود برآمدات کے اہداف پورے ہوئے ہیں، نہ لگژری اشیاء کی درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی ہے تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر کا توازن برقرار رہ سکے۔ پاکستانی کرنسی مسلسل دباؤ کا شکار چلی آ رہی ہے، جب کہ ڈالر کے نرخ مسلسل بلند ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں تیزی سے بڑھتی مہنگائی، ملکی معاشی صورتحال اور ملک کی سمت پر عدم اطمینان کا اظہار کرنے والوں کی شرح میں مزید اضافہ ہوگیا ہے، یہ وہ مسائل ہیں جن پر فوری اور بھر پورتوجہ دینے کی اشدضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں