بے وقوف کا مال مسخرے کھائیں

وسعت اللہ خان  منگل 25 فروری 2014

انسان چونکہ کسی حال میں خوش نہیں لہٰذا جو وہ ہے وہ رہنا نہیں چاہتا اور جو نہیں بن سکتا وہ بننا چاہتا ہے۔جیسے اکثر خواتین شعوری یا لاشعوری طور پر قائل ہیں کہ وہ دوسری خواتین سے کم جاذبِ نظر ہیں۔کم و بیش ہر پستہ قد کا خیال ہے کہ قدرت نے اسے چھ فٹا نہ بنا کے ناانصافی کی ہے۔تقریباً ہرمرد کے کسی دوردراز ذہنی گوشے میں یہ خیال کلبلاتا رہتا ہے کہ اسے جنسی طور پر مزید بہتر ہونا چاہیے تھا۔بیشتر زن و مرد بھلے زبان سے نہ قبولیں لیکن درونِ دل سمجھتے ہیں کہ ان کا جسمانی وزن یا تو بہت کم ہے یا بہت زیادہ۔اور جو گنجے ہیں ان کا مطمعِ نظر یہی ہوتا ہے کہ کاش کسی طرح بال آ جائیں۔

یہ وہ خواب ہیں جو کچھ گھاگ کاروباری تھوک کے بھاؤ سستے میں خریدتے ہیں اور ان کے عوض مہنگی امیدیں بیچتے ہیں۔نہ خواب ختم ہوں گے اور نہ ہی امید فروش کی دکان بند ہوگی۔ آج ذرا کھل کھلا کے بات کرلیتے ہیں۔

مجھے پر کشش اورگورا بننا ہے۔

اس خواہشِ ناتمام کی لاش پر ملٹی نیشنل کاسمیٹکس انڈسٹری دو سو ارب ڈالر سالانہ کا عالمی کاروبار کررہی ہے۔ اسکن کریمیں ، لوشن ، پاؤڈر، پرفیومز ، لپ اسٹکس ، نیل پالش ، آئی اینڈ فیشل پروڈکٹس ، ہئیر کلرز ، ہئیر اسپرے ، جیل ، باتھ آئل ، باتھ ببلز اینڈ سالٹس اور پھر بیوٹی پارلر انڈسٹری اور پھر مقابلہِ حسن کے ذریعے ان مصنوعات کی مارکیٹنگ۔ کاسمیٹکس انڈسٹری کے عالمی سرخیلوں میں امریکا ، جاپان ، فرانس ، جرمنی اور اٹلی ہیں۔صرف امریکا میں کاسمیٹکس کی خرید و فروخت کا حجم پچاس بلین ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہے۔

پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں سب سے زیادہ کھپت ان کریموں اور لوشنوں کی ہے جن کے متعلق یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان سے رنگ گورا ہوجاتا ہے۔کیونکہ عمومی سماجی رویہ یہی ہے کہ اگر لڑکی کا رنگ گورا نہیں تو کچھ بھی نہیں۔اور اس گورے رویے کے سب سے زیادہ علمبردار کالے بھجنگ خواتین و حضرات ہیں اور یہ وہ رویہ ہے جو ہر بچے اور بچی کو ہوش سنبھالتے ہی گھٹی کے ساتھ پلا دیا جاتا ہے۔

’’ مٹیار سنو،کالے رنگ نوں گورا کردی تے گورے نوں چن ورگا‘‘۔

خریدنے والے جانیں نہ جانیں مگر بیچنے والے خوب جانتے ہیں کہ ایسی کوئی کریم یا لوشن نہیں جو کالا چھوڑ سانولے کو ہی گورا بنا دے۔مگر یہ وہ بات ہے جو نہ خریدنے والا سننا چاہتا ہے اور نہ بیچنے والا بتانا۔کیونکہ خوابوں کی تجارت میں عقل عموماً بھینس سے چھوٹی پڑ جاتی ہے۔

میں گنجا کیوں رہوں۔

کم ازکم میں نے اپنے سمیت کسی گنجے کو نہیں دیکھا جس نے گنجے پن کو خوشدلی سے قبول کرلیا ہو۔حالانکہ مجھ سمیت سب گنجے جانتے ہیں کہ جو بال ایک دفعہ جھڑ گئے سو جھڑ گئے۔آپ مہنگی ٹرانسپلانٹیشن اور لیزر ٹریٹمنٹ کے ذریعے بالوں کی پنیری کاشت تو کرا سکتے ہیں لیکن یہ بال بھی بغور دیکھنے پر اپنی بناوٹ کے لحاظ سے الگ سے نظر آتے ہیں اور کوئی بھی جمیلوا نصیروا یہ اوچھا سوال داغ سکتا ہے کہ واہ جی واہ۔۔۔ گویا آپ نے بھی ٹرانسپلانٹیشن کرا ہی لی۔۔ستم ظریفی یہ ہے کہ جب ہر ساتھ اٹھنے بیٹھنے آنے جانے اور دیکھنے داکھنے والے ماجھوں ساجھوں میں آپ مودے ناریل اور جیدے ٹنڈ کے طور پر مدت سے مشہور ہو چکے ہوتے ہیں، تب کہیں جا کے کسی ایک روز آپ کو ہڑبڑاتا خیال آتا ہے کہ اب ہئیر ٹرانسپلانٹیشن کرا ہی لی جائے ورنہ لوگ کیا کہیں گے۔۔

مگر جو جتنا مہنگا ہئیر ٹریٹمنٹ افورڈ نہیں کرسکتا وہ پھر مغلیہ صدری مجربات یافتہ حکیموں ، مرہم بازوں اور سات دن میں شرطیہ بال اگانے کے دعوے داروں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اور گذرے بالوں کے تعاقب میں ذہنی و جیبی لحاظ سے ہلکان ہوتا چلا جاتا ہے۔مگر وہ جو کہتے ہیں کہ جب تک سانس تب تک آس۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسے خوش گمان گنجوں کے سبب ہی سالانہ پنتیس سے چالیس ارب ڈالر کی دوائیں ، ٹوٹکے اور فارمولے دنیا بھر میں بک پا رہے ہیں۔یوں چند چالاک بال داروں کے لیے کروڑوں سادہ لوح گنجے گنجینہ ثابت ہورہے ہیں۔

مجھے وزن کم کرکے اسمارٹ بننا ہے۔

کوئی بچہ ماں کے پیٹ سے توند لے کر پیدا نہیں ہوتا۔توند انسان خود پالتا ہے اور باقی زندگی اسے کم کرنے کی پریشانی میں گذار دیتا ہے۔وہ نہاری ، پائے ، قورمے، کنے، اوجھڑی ، مغز ، بریانیوں اور متنجنوں کو تو نعمتِ خداوندی سمجھتا ہے مگر یہ بھول جاتا ہے کہ اس کا پیٹ بھی خدا ہی کی عطا کردہ نعمت ہے۔ توند جتنی آسانی سے بڑھائی جاتی ہے اتنا ہی کشٹ کرکے گھٹائی بھی جاسکتی ہے مگربہت کم لوگ کامیاب ہوپاتے ہیں۔بقول یوسفی صاحب کمان سے نکلا تیر ، منہ سے نکلی بات اور پیٹ سے نکلی توند واپس نہیں آتے۔بس یہی وہ مرحلہ ہے جب بنا ورزش ، ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر دواؤں اور سپلیمنٹس کے ذریعے وزن کم کرنے کے دعووں اور ڈائٹنگ کے نئے نئے فارمولے فروخت کرنے والوں کی دوکان اونچی سے اونچی ہوتی چلی جاتی ہے۔

اگر ہم جیسوں کو واقعی اس سچائی پر اعتبار ہوتا کہ توند اور مٹاپے کی فکر میں دل و دماغ پر اور چربی چڑھانے سے کہیں بہتر ہے کہ صبح یا شام آدھا گھنٹہ واک یا مناسب ورزش کرلی جائے اور ایک چوتھائی پیٹ خالی رکھ کے کھانا کھایا جائے تو یار لوگ کاہے کو توند اور وزن کم کرنے کی خواہش کو ساٹھ ارب ڈالر سالانہ کا عالمی کاروبار بنا پاتے۔ اس تناظر میں وہ محاورہ یاد آرہا ہے جو نانی اماں اکثر جڑ دیتی تھیں۔
’’ بے وقوفوں کا مال مسخرے کھائیں ’’۔۔۔۔۔۔۔
میں جنسی لحاظ سے انیس ہوں۔

جنسی کمزوری کا خوف انفرادی نہیں قومی ہے۔ جب ٹرین کسی بھی شہر یا قصبے کی حدود میں داخل ہوتی ہے تو دیواروں پر اس طرح کے اشتہارات ہم سب کو للچواتے ہیں۔

’’ لاکھوں جوڑوں کی ازدواجی زندگی خوشگوار بنانے کے بعد حکیم مولوی مولانا الحاج پھمن خاں پھمن اب آپ کے شہر میں۔فوری رابطے کا نمبر زیرو تین سو چار دو صفر چار دو صفرصفر۔’’

’’ زنبیلی دوا خانہ۔جدید برقی آلات سے ہر طرح کی کمزوری و بے اعتدالی و بچپن کی نادانی کا تسلی بخش علاج۔ جلنے والے کا منہ کالا ’’۔۔۔

’’ المشہور راکٹ کیپسول۔زندگی میں خوشیاں بکھیرنے کا ضامن۔نقالوں سے ہشیار ’’۔۔
’’شادی کا نام سن کے رنگ کیوں پیلا ؟۔آئیے ہم آپ کے چہرے کی سرخی لوٹادیں۔ہر قسم کی مردانہ کمزوری کا علاج پہلے، فیس بعد از علاج قسط وار ’’۔۔۔۔۔
’’ انسان خطا کا پتلا ہے۔مایوسی کفر ہے۔گھبرانے کے بجائے اس نمبر پر فون کیجیے۔۔۔۔چوبیس گھنٹے میں طاقت اور اعتماد شرطیہ بحال۔۔۔ہماری کوئی برانچ نہیں’’۔
’’ ہر قسم کے پوشیدہ امراض سے پندرہ دن میں سو فی صد نجات بذریعہ عالمی شہرت یافتہ سنیاسی باوا ٹیکم داس گولڈ میڈلسٹ جن کے ڈنکے لندن ، برطانیہ ، امریکا ، نیویارک اور یورپ جیسے ملکوں میں پٹ رہے ہیں۔۔۔’’
( میں محوِ حیرت ہوں کہ اگر کوئی مرض واقعی پوشیدہ ہے تو حکیم صاحب کو کیسے اس کا پتہ چل جاتا ہے۔)

چونکہ مردانگی ایک حساس مردانہ معاملہ ہے جس پر علمی و سائنسی بات کرنا اور اس سے متعلق افسانوی مفروضات سے باہر نکلنا جنوبی ایشیائی معاشرے میں بالخصوص معیوب سمجھا جاتا ہے لہذا اس بارے میں عوامی شعور کی کمی کا خلا سانڈے کا تیل بیچنے والوں سے لے کر اصلی سلاجیت کھلانے کے دعویداروں سمیت ہر طرح کے نوسر باز پورا کرتے ہیں۔ اور لوگ بھی خوشی خوشی ان مگرمچھوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔
آپ کسی بھی پتے ، ٹینڈے ، انناس ، اخروٹ ، جڑی بوٹی ، گینڈے کے سینگ ، کیکڑے کے سر ، جھینگے کی کھال ، فلانی مچھلی اور ڈھمکانے عرق کے بارے میں مشہور کردیں کہ یہ جنسی طاقت بڑھانے کے لیے اکسیر ہے۔اس کے بعد آپ کی نسلیں اس خود ساختہ تحقیق کا ثمر گھر بیٹھے مسلسل نہ کاٹیں تو پیسے معہ سودِ مرکب واپس۔۔۔۔کیونکہ کم و بیش ہر شخص اس خوشگوار وہم میں رہنا پسند کرتا ہے کہ ویسے تو خدا کا شکر ہے مگر یار مجھ میں کچھ نہ کچھ کمی ہے ضرور۔۔۔۔۔۔

اور اس ’’کچھ نہ کچھ کمی’’ کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال جتنا کاروبار گورا بنانے ، گنجے کو بال و پر دینے اور سلم اینڈ اسمارٹ نظر آنے کے نام پر ہورہا ہے، ان سب سے زیادہ نفع بخش صنعت انسان کی تصوراتی جنسی کمزوری کے نام پر رواں ہے۔اب تک انسان کے ہاتھوں جتنے جانوروں اور پرندوں کی نسلیں معدوم ہوئی ہیں، ان میں سے لگ بھگ نصف اس لیے معدوم ہوگئیں کیونکہ کسی کی چربی ، کسی کے گوشت ، کسی کے پنجے ، کسی کے دماغ ، کسی کے جگر تو کسی کے خون کے بارے میں مشہور ہوگیا تھا کہ اس کے استعمال سے آدمی میں اتنی طاقت آجاتی ہے کہ پارٹنر تو پارٹنر وہ پہاڑ تک کو گرا سکتا ہے۔حتیٰ کہ یہ کچھ علماِ کرام کا بھی پسندیدہ موضوع بن چکا ہے اور وہ بہانے بہانے سے اہلِ ایمان کو حوروں سے درپیش ممکنہ چیلنج کا مقابلہ کرنے کے رسیلے گر بتانے سے کبھی نہیں چوکتے اور اہلِ ایمان کو گرماتے ہوئے گھر بھیجتے ہیں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔