مایوسی کون پھیلا رہا ہے

ایاز خان  منگل 25 فروری 2014
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

الزام یہ ہے کہ ہم مایوسی پھیلانے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ صبح کالم میں مایوسی کی بھرمار پھر شام سے رات گئے نجی چینلوں پر بیٹھ کر مایوسی کی یلغار۔ چند دن پہلے پنجاب کے صوبائی وزیر برائے اقلیتی امور خلیل طاہر سندھو کی طرف سے منعقد کی گئی محفل میں ایک دوست حق نواز گھمن ہم پر باقاعدہ برس پڑے۔ ہمارے ایک اور دوست انجم رشید نے اپنا دفاع کرنے کی پوری کوشش کی مگر وہ صاحب اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ میں نے تھوڑی دیر ان دونوں کی بحث سنی اور یہ اعتراف کر لیا کہ واقعی جانے انجانے دن رات اخباروں اور چینلوں میں مایوسی ہی ایک کاروبار ہے جو سب سے زیادہ چلتا ہے لیکن مایوسی پھیلانے والے کتنے قصور وار ہیں‘ انھیں اس کا ملزم قرار دینے والوں کو بھی ضرور سوچنا چاہیے۔

جس ملک میں بم دھماکے‘ خود کش حملے‘ قتل و غارت‘ چوری‘ ڈکیتی‘ رہزنی عام ہو۔ جہاں غربت کی شرح میں ریکارڈ اضافہ ہو رہا ہو۔ انصاف کا حصول بہت مہنگا ہو‘ وہاں کالم نگاروں‘ اینکر پرسنز اور تجزیہ نگاروں سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اہم ترین قومی امور پر زیادہ تر سیاسی قیادت خواہ اس کا تعلق حکمرانوں سے ہو یا اپوزیشن سے‘ ان کے فیصلوں پر ابہام کی دھند چھائی ہو‘ وہاں اخبار کے صفحات اور ٹی وی اسکرینوں پر امید کے چراغ کیسے روشن ہو سکتے ہیں۔ تحریک طالبان سے مذاکرات کے ایشو کو ہی لے لیں۔ اتنے اہم ایشو پر بھی حکومت نے عوام کو کنفیوژن کے سوا کچھ نہیں دیا۔ وزیر داخلہ ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ 23ایف سی اہلکاروں کی شہادت کے بعد مذاکرات ممکن نہیں رہے مگر ساتھ ہی انھیں یہ امید بھی ہے کہ مذاکرات کا سلسلہ بحال ہو جائے گا۔ عمران خان اور منور حسن مذاکرات کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ کچھ اور مذہبی جماعتیں اور میڈیا کے جید ارکان بھی ان کے ساتھ ہیں۔ کپتان تو دورہ برطانیہ سے واپس آگئے ہیں، اگلے روز انھوں نے اسلام آباد میں کہا کہ طالبان فوری طور پر غیر مشروط سیز فائر کا اعلان کریں ، پھر انھوں نے کہا کہ اگر آپریشن لازمی ہے تو اسے سوات طرز پر کیا جائے اور عوام کو وہاں سے نکالا جائے ، اشارے ایسے مل رہے تھے کہ وطن واپسی کے بعد وہ اپنا موقف تبدیل کرسکتے ہیںاور ایسا ہی ہوا۔

ان کی جماعت لاہور میں ایک امن ریلی بھی نکال چکی ہے۔ منور حسن البتہ اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے ہوئے ہیں اور یہاں تک فرما چکے ہیں کہ سو بار بھی مذاکرات ناکام ہوں‘ تب بھی آپریشن آپشن نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ تیزی سے تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔ حکومت اور تحریک طالبان کی طرف سے جو مذاکراتی کمیٹیاں بنائی گئی تھیں قوم ان کی صرف آنیاں جانیاں دیکھتی رہی۔ انھوں نے کچھ دن ٹی وی چینلوں پر ماڈلنگ کی اور قصہ تمام ہوا۔ ان کمیٹیوں کے کچھ ارکان اب بھی اکا دکا بیان داغ دیتے ہیں مگر اب سو من تیل ہو گا تب ہی رادھا ناچے گی۔ سو من تیل تو دور کی بات ہے اب تلوں میں سرے سے تیل ہی نظر نہیں آ رہا۔ وزیراعظم صاحب بھی ’’خاموش‘‘ ہیں۔ انھیں چاہیے تھا کہ وہ قوم کو اعتماد میں لیتے اور مذاکرات یا آپریشن جو بھی کرنا چاہتے تھے اس کا واضح اعلان کرتے۔ اس ساری صورت حال میں اگر کہیں ابہام نظر نہیں آیا تو سیاسی جماعتوں میں پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم‘ اے این پی اور مسلح افواج۔ ایم کیو ایم نے تو اتوار کو کراچی میں پاک فوج کے حق میں ایک بڑی ریلی کا بھی انعقاد کیا۔ یوں متحدہ سب پر بازی لے گئی۔ اب ریاست کو فیصلہ کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آنی چاہیے۔ فوج اور رینجرز کی طرف سے بھی ایم کیو ایم کے اس اقدام کی تعریف کی گئی ہے۔ فوج نے حکومت کی خواہش پر مذاکرات کی حمایت کا اعلان کیا لیکن جب بھی اس کے جوانوں پر حملہ ہوا‘ جوابی کارروائی کے ذریعے یہ پیغام دیا کہ مذاکرات کی حمایت کے باوجود جب بھی ان کا جانی نقصان ہو گا وہ جوابی کارروائی ضرور کرینگے۔

اس وقت ایف 16 طیارے اور گن شپ ہیلی کاپٹر حرکت میں ہیں‘ زمینی آپریشن کے لیے حکومت کے حکم کا انتظار ہے۔ شمالی وزیرستان میں ٹارگٹڈ فضائی آپریشن کا آغاز ہو گیا تو حکومت کی اجازت بھی شامل ہو گئی۔ عسکری ذرایع اب بھی مذاکرات کے مخالف نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مذاکرات جنگ کے دوران بھی جاری رہتے ہیں۔ انھوں نے گیند حکومت کی کورٹ میں ڈال دی ہے۔ حکومت ابھی تک کنفیوژن کا شکار لگ رہی ہے۔ اب اس کنفیوژن کو ختم ہو جانا چاہیے۔ وہ تمام گروپ جو امن چاہتے ہیں انھیں مذاکرات کی دعوت دے کر لڑنے والوں کے خلاف آپریشن کا واضح اعلان ہو جانا چاہیے۔

میں اپنے دوستوں کی مایوسی میں اضافہ نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن لگتا ہے کہ مشکل حالات کا سامنا کرنے کا وقت قریب ہے۔ پیر کو لاہور میں قومی ترانہ گانے کا پروگرام ملتوی کرنا پڑا۔ اس تقریب میں لاکھوں افراد نے شرکت کر کے نیا عالمی ریکارڈ بنانا تھا۔ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ سمیت اہم شخصیات نے شریک ہونا تھا مگر سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر اسے ملتوی کر دیا گیا۔ قانون نافذ کرنے والے سول اداروں کی صلاحیت اور تیاری میں کمی اور خامی ہے تو پھر آپ کو مجھے اور ہم سب کو احتیاط کرنا ہو گی۔ ان کی انٹیلی جنس ٹھیک کام کر رہی ہے تو زیادہ گھبرانے کی ضرورت نہیں اور ہاں بھارت کے ساتھ جنگ کے بارے میں جو پیش گوئیاں کی جا رہی ہیںکا کوئی امکان نہیں۔ پاکستان جس قسم کے اندرونی خطرات کا شکار ہے اس میں بھارت جنگ چھیڑکر اپنا نقصان نہیں کرے گا۔ افغانستان سے نیٹو افواج کے انخلاء کے وقت ایک مستحکم پاکستان‘ بھارت کے مفاد میں ہے۔ بھارتی قیادت یہ کبھی نہیں چاہے گی کہ پاکستان کے لیے خطرہ بننے والے گروپ اس کے لیے مسائل پیدا کریں۔ پاکستان میں انارکی حد سے بڑھ گئی تو بھارت اس سے محفوظ نہیں رہے گا۔میرے پاس اور کوئی خوشخبری نہیں۔ اگر کوئی خوشخبری ہوتی تو کرکٹ کے میدان سے ملے گی۔ میرا وعدہ ہے وہ آپ کے ساتھ ضرور شیئر کروں گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔