دھمکی آمیز خط اور بیرونی مداخلت کا بیانیہ

مزمل سہروردی  جمعـء 1 اپريل 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

عمران خان کے مطابق قومی اسمبلی میں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے سے ایک دن قبل انھیں ایک بیرونی طاقت سے دھمکی آمیز خط موصول ہوا، جس میں نہ صرف تحریک عدم اعتماد کا ذکر موجود تھا بلکہ انھیں اقتدار سے نکالنے اورتحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی بھی بات تھی۔عمران خان کے مطابق خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ اگر یہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گئی تو اس کے بہت خطرناک نتائج ہوں گے۔

اس خط کی بنیاد پر عمران خان کا سیاسی مقدمہ ہے کہ انھیں اقتدار سے نکالنے میں بیرونی طاقتیں ملوث ہیں۔ یہ عدم اعتماد بیرونی اشاروں پر آئی ہے اور اس کے تمام تانے بانے بیرون ملک سے ملتے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ انھوں نے ملک کو ایک آزاد خارجہ پالیسی دی ہے، اس لیے عالمی طاقتیں جو پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی نہیں دیکھنا چاہتیں، وہ انھیں اقتدار سے ہٹانا چاہتی ہیں۔

عمران خان کے مطابق وہ یہ خط چیف جسٹس پاکستان کو دکھانے کے لیے تیار ہیں تا کہ قوم اور ملک کو یقین آجائے کہ وہ ٹھیک بات کر رہے ہیں،لیکن پھر گزشتہ دنوں انھوں نے چند صحافیوں کو بلایا کہ انھیں خط دکھایا جائے گا، تا ہم انھیں بھی خط نہیں دکھایا گیا۔ بس صرف بریفنگ دی گئی۔

حالانکہ بریفنگ تو وہ پوری قوم کو پہلے ہی اسلام آباد کے جلسے میں دے چکے تھے۔ بعد ازاں قوم سے خطاب کی بھی شنید آئی۔ لیکن وہ بھی ملتوی کر دیا گیا۔ اس دوران ایک ریاستی ذمے دار بھی وزیر اعظم کو ملے۔ اسی لیے خط صحافیوں کو بھی نہیں دکھایا گیا اور قوم سے خطاب بھی نہیں ہوا۔

یہ خبر بھی آئی کہ کہ وزیر اعظم نے اپنے اتحادیوں کو خط دکھانے کی کوشش کی تاہم ناراض اتحادیوں نے خط دیکھنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔ کابینہ ارکان کو دکھایا گیا اور انھیں اعتماد میں لیا گیا۔ وزیر اعظم اب پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کو دکھانا اور بریفنگ دینا چاہتے ہیں لیکن تحریک عدم اعتماد جس نہج پر پہنچ گئی، شاید وہاںآنے پر بھی اپوزیشن کی کوئی دلچسپی نہیں ہوگی۔

جن صحافیوں کو خط دکھانے کے نام پر بریفنگ دی گئی، ان کے مطابق یہ کسی حکومت کا خط نہیں ہے بلکہ پاکستان کے سفیر کا ایک میٹنگ کا حوال نامہ ہے۔ بقول حکومت، سفیر موصوف وہاں کے اہم ذمے داران سے ملے تو انھوں نے کہا کہ ہم آپ کے وزیر اعظم کی خارجہ پالیسی سے خوش نہیں ہیں۔ لیکن اب آپ کے ملک میں تحریک عدم اعتماد آرہی ہے، اگر وہ کامیاب ہو گئی تو نئی حکومت کے ساتھ نئی حکمت عملی سے کام ہوگا اور اگر نا کام ہو گئی تو پھر طے کریں گے کہ پاکستان سے کیسے تعلقات رکھنے ہیں۔

اگر خط کے یہی مندرجات ہیںتو اس میں دھمکی والی بات تو کہیں نظر نہیں آتی ، اگر پاکستان میں لوگوں کو پتہ ہے کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد آرہی ہے اور اس کی کامیابی امکانات موجود ہیں تو بیرونی ممالک کو اس بارے میں کیسے نہیں معلوم ہو سکتا۔ یہ کوئی راز ہی نہیں ہے۔

عمران خان کے دور حکومت میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کتنی آزاد یا غیر جانبدار رہی ہے، میں اس پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا۔ کیونکہ آئی ایم ایف کے دباؤ پر اسٹیٹ بینک کی قانون سازی جس کے بارے میں تمام معاشی ماہرین نے کہا ہے کہ یہ ملک کی معاشی خود مختاری بیچنے کے مترادف ہے، سب کے سامنے ہے۔ اس کے بارے میں تحریک انصاف کے گورنر چوہدری سرور نے بھی کہا کہ ہم نے ایک ارب ڈالر کے لیے اپنے اسٹیٹ بینک پر اپنا کنٹرول بیچ دیا۔ اسی طرح کلبوشن کے حوالے سے قانون سازی اور دیگر مثالیں سامنے ہیں۔ اس کے باوجود عمران خان کا موقف ہے کہ انھیں بیرونی قوتوں کے اشاروں پر ہٹایا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے ایک ٹی ٹاک شو میں، میں نے پاکستان وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی جو اس خط کی تصدیق کر رہے ہیں سے پوچھا کہ کیا یہ خط حکومت پاکستان  نے پاکستان کی عسکری قیادت کو دکھایا ہے تو انھوں نے کہا کہ جی ہم نے یہ خط دکھایا ہے۔

اسد عمر نے بھی اس حوالے سے تصدیق کی ۔ شاہ محمود قریشی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ بھی درست ہے کہ اس خط کو دیکھنے کے بعد بھی اسٹبلشمنٹ نے تحریک عدم اعتماد کے تمام معاملے میں نیوٹرل رہنے کا اپنا فیصلہ برقرار رکھا۔ جب پوچھا گیا کیوں ؟ تو انھوں نے کہا کہ میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ یہ ان کا فیصلہ ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ خط میں کوئی ایسی بات نہیں جو پاکستان کے لیے خطرنا ک ہو۔

میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے دفاع اور سلامتی کے ذمے دار حلقے اس خط کو زیادہ سنجیدہ نہیں لے رہے ہیں تو میں اس سے یہی سمجھتا ہوں کہ حکومت اور پی ٹی آئی تھنک ٹینک اس خط کو صرف سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اگر اس میں کوئی دھمکی ہوتی تو پاکستان کے دفاع کے ذمے دار ضرور اس پر کوئی نوٹس لیتے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ صرف ایک سیاسی اسٹنٹ ہی ہے۔ اس سے عوام کی ہمدردیاں اکٹھی کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس سے زیادہ کوئی مقصد نہیں ہے۔

جہاں تک حکومت کی اس پیشکش کا تعلق ہے کہ وہ یہ خط چیف جسٹس پاکستان کو دکھانے کے لیے تیار ہے ، کیا اب حکومت یہ چاہتی ہے کہ ریاست کے معتبر اور قابل احترام ادارے کو بھی سیاست میں گھسیٹ لیا جائے ۔ ذرا حکومت کی شرارت اور نیت دیکھ لیں، بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ کیا چیف جسٹس پاکستان ایسے کر سکتے ہیں؟ کیا حکومت انھیں پاکستان کی سیاست میں ملوث کرنا چاہتی ہے۔کیا یہ ملک کے ساتھ ہمدردی ہے ؟ ۔

میں سمجھتا ہوں حکومت پاکستان کو آئین پاکستان کے تحت اس خط کو ملک کی نیشنل سیکیورٹی کے اداروں کو تفتیش کے لیے دینا چاہیے۔ کیا چیف جسٹس بھی خط کا جائزہ لینے کے بعد اسے قومی سلامتی کے کسی ادارے کو نہیں دیں گے کہ وہ اس خط کی تہہ تک پہنچے۔

بغیر تحقیق اور تفتیش کے اس کو خط کواصلی کیسے مانا جا سکتا ہے۔ کیوں نہ یہ مان لیا جائے کہ حکومت نے سیاسی مفاد کے لیے یہ ساری کہانی بنائی ہے اور وہ سیاسی شہپید بننے کے لیے خارجہ پالیسی سے کھیل رہی ہے۔ ابھی تک قومی سلامتی کے ادروں کی خاموشی بھی یہی بتا رہی ہے کہ حکومت کا موقف درست نہیں ہے۔ ورنہ ڈان لیکس ہمارے سامنے ہیں۔

ویسے بھی اگر یورپی یونین کے سفیروں کی پریس ریلیز پر اتنا شور مچایا جا سکتا ہے اور جلسوں میں ان پر تقریریں ہو سکتی ہیں تو یہ خط بھجوانے والے ملک کا نام بتانے میں کیا حرج ہے۔ اگر مندرجات بتانے میں مسئلہ بھی ہے تو جب اتنا شور مچاہی دیا ہے تو ملک کا نام بتانے میں کیا حرج ہے۔ کم از کم قوم کو پتہ تو ہونا چاہیے کہ کس ملک نے دھمکی دی ہے اور کونسا ملک اس بیرونی مداخلت میں ملوث ہے۔

کیونکہ ابھی تک جو خبریں سامنے آئی ہیں ، ان کے مطابق یہ خط کسی ملک نے نہیں لکھا بلکہ ایک پاکستانی سفارتکار نے لکھا ہے اور پاکستانی سفارتکار اور اس کی تحریر کو حکومت بیرونی مداخلت اور دھمکی کہہ رہی ہے۔ کم از کم پاکستانی سفارتکار کا خط تو دھمکی اور بیرونی مداخلت نہیں کہلا سکتا۔

میں سمجھتا ہوں یہ معاملہ بہت سنجیدہ ہے۔ خط کی حقیقت قوم کے سامنے آنی چاہیے کیونکہ اب خاموشی بنتی نہیں ہے۔ عوام کو حقیقت سے بے خبر رکھنا قومی مفاد نہیں کیونکہ حقیقت سامنے نہ آئی تو کچھ لوگ اسے بیرونی سازش کہیں گے اور کچھ حکومت کو جھوٹا کہیں گے ، یہ کوئی اچھی صورتحال نہیں۔ ہمیں پاکستان کا مفاد سامنے رکھنا چاہیے۔ بیرونی مداخلت پر بری سے بری حکومت بھی تبدیل نہیں ہونی چاہیے اور اچھی سے اچھی حکومت بھی بیرونی مدد سے قائم نہیں رہنی چاہیے۔ یہی ہماری خود مختاری کی پہچان ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔