محبت کی ترقی کے سفر میں

شہلا اعجاز  جمعـء 1 اپريل 2022
فوٹوفائل

فوٹوفائل

جب انسان کو اپنی کامیابی کا یقین ہو تو وہ سمجھتا ہے کہ اب اس کی منزل اس کے سامنے ہی ہے کوئی رکاوٹ نہیں ہے، جیت اس کا مقدر ہے لیکن اچانک اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ وہ تو دراصل اول درجے کا احمق بن چکا ہے ، جسے وہ کامیابی سمجھ رہا تھا وہ تو دراصل ناکامی ہے، جسے اس نے جیت سمجھا وہ تو ہار تھی اور پھر اس کے اعصاب اس قدر تن جاتے ہیں کہ ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔

ایسے میں اگر ان کو سہارا دے دیا جائے، تھام لیا جائے تو ان کے بچ جانے کے، زندگی میں آگے بڑھنے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں جب کہ دوسری صورتحال انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے۔

اس کی رہائش سرجانی ٹاؤن میں ہے عمر اندازاً بائیس تئیس برس ہوگی ، وہ ایک ماہرکاریگر کے طور پر پہچانا جاتا ہے ، نجانے کب کیسے اس بے وفا لڑکی سے بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا ، جو آج کل کے دور میں موبائل فونزکی صورت میں نہایت آسان ہو گیا ہے، خاص کر نوجوان نسل اس کے نقصانات سے ہرگز بھی محفوظ نہیں ہے۔ وہ لڑکی کیسی ہے، کیا کرتی ہے؟ ہمیں اس سے غرض نہیں لیکن وہ منگنی یافتہ ہے یہ بھی ایک انکشاف تھا۔

محترمہ نئے دورکی آسائش فون کی سہولت کے باعث نوجوانوں کو اپنی سنہری گفتگو سے متاثر کردیتی تھی ، وہ بھی اس کے متاثرین میں سے ایک تھا ، لیکن اس کی بے بہا محبت کے سامنے جب کہا گیا کہ میں تو صرف مذاق کر رہی تھی اس نوجوان کے اعصاب کو شکستہ کر گیا اور اس نے اپنی سچی محبت کے ثبوت کے طور پر اس بے وفا کی خاطر زہر کو منہ سے لگا لیا۔

آج کل ترقی کی دوڑ میں بھاگتے زمانے میں ایسا کون ہوگا جو یوں اپنی جان ہلکان کرے گا، لیکن محبت کے جس سمندر میں وہ کب سے ڈبکیاں لگا رہا تھا اس کا خیال تھا کہ اس کا کنارہ اب نزدیک ہی ہے لیکن اس کی توقعات کے برخلاف جو کچھ بھی ہوا اس نے دل دہلا کر رکھ دیا۔ اسے لمحہ بھر میں ساری دنیا سے گلہ پیدا ہو گیا اور اس نے اپنا ہی نقصان کرنے کی ٹھان لی۔ آئی سی یو وارڈ میں موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا وہ نوجوان اپنے گھر والوں کے لیے تکلیف اور اذیت کے در کھول چکا ہے۔

’’ڈاکٹر نے جواب دے دیا ہے۔‘‘

’’لیکن اللہ نے تو جواب نہیں دیا نا۔‘‘

’’بس اللہ سے ہی امید ہے، وہ چاہے تو میرے بھائی کو زندگی دے سکتا ہے، نجانے وہ کس کی دعا قبول کرلے۔‘‘

شکستہ دل لیے بہن اپنے بھائی کے لیے دعا گو تھی۔

’’لیکن پھر بھی اس قدر احمقانہ حرکت کس طرح کی آپ کے بھائی نے؟‘‘

’’بس محبت نے اس کی آنکھیں بند کردی تھیں ، حالانکہ وہ لڑکی تو میرے دیور سے بھی باتیں کرتی تھی۔ اس کی منگنی بھی ہو چکی تھی، بس وہ ایسے ہی لڑکوں کو بے وقوف بناتی تھی۔‘‘

یہ انسانی فطرت ہے، ناراضی منفی نفسیات کی وجہ بنتی ہے اور یہی اس نوجوان کے ساتھ بھی ہوا، بے وفا لڑکی کا سچ برداشت نہ ہوا اور اس نے اپنے اندر اٹھنے والے طوفان کے آگے ہار مان لی اور اپنا ہی نقصان کر ڈالا۔ آج وہ اسپتال میں زندگی و موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔ کیا زندگی کی جانب ایک بار پھر سے لوٹ کر وہ بے وفائی کی اس تحریرکو اپنے دل و دماغ سے مٹا سکے گا؟

’’ لڑکیوں کو اس طرح نہیں کرنا چاہیے ، یہ ہمارے معاشرے اور مذہب کے منافی ہے۔ میرے ابو کے دوست کے بیٹے کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ اس کوکسی لڑکی سے محبت ہوگئی، لڑکی نے انکار کردیا تو جذبات میں آکر اس نے اپنے ابو کی گن سے خود کو شوٹ کر لیا، اس کے ابو پولیس میں تھے۔

ان کی گن اس نے استعمال کی، آج بھی ہم سب لوگوں کے لیے اس واقعے کو بھلانا مشکل ہے۔‘‘ایک مقامی کالج کی اس چھوٹی سی لڑکی نے نہایت سنجیدگی سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

اسی طرح ایک سماجی کارکن کا کہنا تھا:’’کیا والدین اپنے بچے پال پوس کر اس لیے جوان کرتے ہیں، جو وہ یک طرفہ محبت کی حماقتوں میں اپنا آپ کھو دیتے ہیں اور اپنے گھر والوں کے لیے تکلیفوں اور دکھوں کا ایک باب کھول دیتے ہیں۔‘‘ترقی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اس کا غلط استعمال شروع کردیں، ٹھیک ہے موبائل فونز ایک خوف ناک چھلاوا ہے جو پل بھر میں انسان کو کہاں سے کہاں کا سفر کرا دیتا ہے، بہ ظاہر ہم سب ایک گھر میں ایک ہی چھت کے تلے رہتے ہیں لیکن ہمیں نہیں علم کہ ہمارے گھر کا کون سا فرد کس طرح کسی دوسرے انجان شخص سے کس طرح کے روابط میں ہے۔

یہ ایک انتہائی خوفناک سچویشن ہے کہ آپ نہیں جانتے کہ آپ کے بچے آپ کے بہن بھائی انٹرنیٹ کے ذریعے کہاں کہاں اور کیا کچھ کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ نہ صرف معاشرتی طور پر خطرناک ہے بلکہ ہمارے ملک کے اندرونی اور بیرونی عوامل کے لیے بھی صحت مند نہیں ہے۔ حکومت اس حوالے سے پابندیاں عائد کرتی ہی یوں ہے کہ خدا نخواستہ کسی طرح کی ناموافق صورتحال یا ایشو نہ اٹھ کھڑا ہو، ورنہ سوچیے کہ کیا کچھ نہیں ہو سکتا۔ اب بھی سننے میں آ رہا ہے کہ غیر قانونی سمز اور اسی طرح مفت سمز کے سلسلے میں انگوٹھوں کے امپریشن لے کر کیا کچھ نہیں پلان ہو رہا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اپنی حدود میں اپنی اولاد کی اسی طرح تربیت کی ضرورت ہے جس طرح کبھی ہمارے دادا دادی کے زمانے میں ہوا کرتی تھی۔ مجھے لگتا ہے کہ جس طرح پرانے فیشن لوٹ کر آتے ہیں اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے تو حالات دیکھ کر محسوس یہ ہو رہا ہے کہ انسان مادی ترقیوں کی بدولت جتنا آگے جا رہا ہے، اخلاقی معیار کے حوالے سے اتنا ہی پیچھے جا رہا ہے اور مجھے یوں لگتا ہے کہ یہ موبائل فونز، ٹیبلٹس، کمپیوٹرز وغیرہ آنیوالے وقتوں میں ڈمپ ہو جائیں گے اور ہمارا ماضی مستقبل بن کر ابھرے گا، جس طرح پرانے فیشن کچھ جدت کے ساتھ نئے بن کر آرہے ہیں۔

مستقبل میں بھی ماضی کی چیزیں جدت کے ساتھ یا موجودہ اشیا زندگی جو اب ناگزیر بھی ہیں انتہاء ماڈرن ہو کر سامنے آئیں گی ، کیونکہ آج سائنسی ترقی نے جس طرح آلودگی کو خطر ناک حد تک بڑھا دیا ہے۔

اس کے سدباب کے لیے بھی تو کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ یہ موبائل فونز کی شعاعیں کیا اتنی ہی بے ضرر ہوتی ہیں کیا ان سے ماحول یہ فضا متاثر نہیں ہوتی، اسی طرح اخلاقی حوالے سے بھی ہمیں اپنے بچوں کی تربیت کے لیے سوچنا ہوگا ، بے لگام گھوڑوں کی طرح چھوڑ دینے سے سوائے نقصان اور کچھ نہیں ملنا۔ اس کے لیے ہم سب کو صرف سوچنا ہی نہیں بلکہ عمل بھی کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔