مسلح جتھوں سے لشکرکشی اور جارحانہ رویے

ظفر سجاد  اتوار 3 اپريل 2022
غلبہ اسلام کیلئے جہاد کی نو عیت بدل چکی، اب سائنس وٹیکنالوجی میں عروج ہی اصل جہاد ہے ۔ فوٹو : فائل

غلبہ اسلام کیلئے جہاد کی نو عیت بدل چکی، اب سائنس وٹیکنالوجی میں عروج ہی اصل جہاد ہے ۔ فوٹو : فائل

 جہاد دین اسلام کا ایک اہم ترین فریضہ ہے ، ہر دور میں جہاد کی نوعیت مختلف رہی ہے۔

اسلام کے اوّلین دور میں جہاد بقا ء کی جنگ تھی، پھر جہاد کی نوعیت غلبہ اسلام کی جدوجہد میں بدل گئی ، پوری دنیا میں اسلا م کا آ فاقی پیام بھیجا گیا ، عام مسلمانوں اور انسانوں کی مالی حالت بہتر بنانے کیلئے اُن جابر حکمرانوں کے خلاف جہاد کیا گیا کہ جو جبر واستحصال کے ذریعے اپنے خزانے بھر رہے تھے اور اپنی رعایا پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہے تھے ، مگر اُن ممالک پر لشکرکشی کرنے سے پہلے انھیں دعوت اسلام دی گئی ، ان حکمرانوں تک اللہ کا پیام پہنچایا گیا کہ وہ حکمران اسلام قبول لیں اور اگر ان کی رعایا اسلام کی جانب مائل ہوتی ہے تو وہ رکاوٹ نہ بنیں۔

دین حق آ نے کے بعد دنیا بھر کے تمام آ ئین منسوخ ہو گئے تھے، اللہ تعالیٰ کا حکم تھا کہ اب وہ آئین نافذ ہوگا کہ جس میں دنیا بھر کے تمام انسانوں کیلئے سراسر بھلائی ہے، جس میں تمام انسانوں کیلئے ابدی سکون اور سکھ ہے، اللہ کا حکم تھا کہ دعوت اسلا م کو دنیا کے کونے کونے تک پھیلایا جائے، دین اسلام دنیا بھر کے جابر انہ، آ مرانہ اور ظالمانہ نظام کے خلاف تھا۔ اس دین نے انسانیت کو وقار بخشا، کچلی ہوئی انسانیت کو عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا راستہ بتایا۔

مسلمانوں کے کردار نے دنیا بھر کے لوگوں کو بہت متاثر کیا کہ اسلام کے پیروکار اپنی خواہشات پر قابو پا کر دوسروں کی فلاح وبہبود کیلئے زندگیاں گزارتے تھے ، جہاد کا مفہوم غلبہ اسلام تھا۔ اس دین کا غلبہ تمام اقوام کی بھلائی کیلئے تھا ۔

خلفائے راشدین کے بعد بہت سے دنیا پرست مسلمان حکمرانوں نے اپنی سلطنت کو وسعت دینے کیلئے بھی لشکر کشی کو جہاد کا نام دیا ، مگر ان دنیا پرست مسلمان حکمرانوں نے دین اسلام کے غلبہ کی بجائے اپنی سلطنت کو وسعت دینے اور ذاتی خزانے بھرنے میں زیادہ دلچسپی لی ۔

جس سے اسلام کے اہم تر ین اور پاکیزہ فریضہ کے متعلق ابہام پیدا ہوا، اسلام مخالف اقوام نے جہاد کو ہوس سلطنت کا ذریعہ قرار دیا، حالا نکہ جہاد ایک ایسا مقدس فریضہ ہے کہ جان دینے والے شہید اور بچ جانے والے غازی کہلائے، شہید کو وہ مقام حاصل ہوا کہ بغیر حساب کتاب وہ جنت کا حقدار ٹھہرا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے !

’’ شہید کو مردہ مت کہو اِسے وہا ں سے رزق مل رہا ہے کہ جس کا تمھیں گمان بھی نہیں۔‘‘

جہاد کا اصل فلسفہ اور روح وہ جدوجہد ہے، جو خالصتاً غلبہ اسلام کیلئے کی جائے۔

موجودہ وقت میں اسلام کا پیغام دنیا کے کو نے کونے تک پہنچ چکا ہے، شاید ہی کوئی ایسا ملک یا علاقہ ہو، جہاں مسلمان نہ ہوں۔ ذرائع ابلاغ نے بھی ترقی کر لی ہے، کچھ ہی دیر میں آ پ کا پیغام دنیا بھر میں پھیل جاتا ہے، اس وقت ان اقوام کو دنیا بھرمیں غلبہ حاصل ہے۔

جنہوں نے سائنس و ٹیکنالوجی میںدسترس حاصل کی، اپنی اقتصادی اور معاشی حالت کو بہتر بنایا بلکہ اس قدر مضبوط کیا کہ اپنی عوام کی حالت بہتر بنا کر دوسرے ممالک کو قرضے بھی دئیے، ایسا جنگی سا زوسامان تیار کیا کہ دنیا بھر کی کمزور اقوام مغلوب ہو گئیں، ان ممالک کی ترقی دیکھ کر دنیا بھر کی اقوام کیلئے یہ ممالک ’’ رول ماڈل ‘‘ بن گئے۔

اس بات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر کے غر یب و امیر مسلم ممالک کے زیادہ تر لوگوں کا ایک ہی خواب ہے کہ وہ امریکہ ، برطانیہ اور یورپ کے کسی بھی ملک کے شہری بن سکیں ، جس کو موقع مِلتا ہے وہ فوراً ان ممالک کا رُخ کرتا ہے ، وہاں رہنا پسند کرتا ہے اپنا پیسہ اور جا ئیداد بھی ان ممالک میں رکھنا پسند کرتا ہے۔ جو لوگ وہاں نہیں جا سکتے وہ ان ممالک کا کلچر اپناتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان ممالک نے نہ صرف مسلمان ممالک پرغلبہ حاصل کر رکھا ہے بلکہ ان کا کلچر بھی مسلمانوں پر غالب آ تا جا رہا ہے ۔

کیا مسلح جتھے طاقتور اقوام پر غلبہ پا سکتے ہیں؟

کا فی عرصہ سے جہاد کے اصل مفہوم سے ہٹ کر جہاد کی جو تشریح بیان کی جا رہی ہے ۔ اُس سے یہ تا ثر اُ بھرتا ہے کہ دل میں جذبہ جہاد ہونا چاہیے اور مسلمان کو بغیر تلوار ہی لاٹھیوں اور ڈنڈوں کے ذریعے دوسری اقوام پر حملہ کر دینا چاہیے، اگر ایسا ممکن نہ ہو تو اپنے ملک کے افراد کو ہی صحیح مسلما ن بنانے کیلئے جتھے بنا کر ان پر پل پڑنا چاہیے ، بعض اوقات سادہ لوح ’’ جہادی ‘‘ خودکش حملے کرنا بھی جہاد سمجھتے ہیں۔

پاکستان میں بھی بے شمار دینی جماعتوں نے لشکر اور جتھے بنا لئے ہیں، جب یہ لشکر اور جتھے کچھ زیادہ ہی طاقت ور ہو نے لگے تو ان پر پابندیاں لگائی جانے لگیں، مگر جن سیا ستدانوں نے اپنے مدرسوں کے ذریعے ’’طالبعلموں‘‘ کی ایک کھیپ تیار کر لی ہے اور سکیورٹی کے نام پر لشکر بھی بنا لئے ہیں ، وہ اپنے لشکروں پر پا بندی لگنے ہی نہیں دیتے، ان لشکروں کا ’’ جہاد ‘‘ بھی اپنے وطن کے شہریوں اور اپنے مخالفوں کے خلاف ہی ہے۔

اس قسم کے جتھوں اور لشکروں نے ’’ جہاد ‘‘ کا اصل تصور بُری طرح متا ثر کیا ہے، مسلمانوں کو ایک خونخوار اور امن شکن قوم سمجھا جاتا ہے، دوسری اقوام کے امن پسند شہری اس روّیے کو غیر مُہذبانہ سمجھتے ہیں ۔ ان روّیوں سے دین اسلام کی ساکھ بُری طرح متا ثر ہوئی ہے۔

اب جہاد کی نوعیت کیا ہو سکتی ہے ؟

اسلام سے پہلے عربوں کو ایک اُجڈ، جاہل اور غیرمہذ ب قوم سمجھا جاتا تھا ، مگر جب حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبیں ﷺ اور خلفائے راشدین کے دور میں فتوحات حاصل ہوئیں تو ایران اور روم جیسے ممالک کی عوام بھی مسلمانوں کے اعلیٰ کردار اور مہذبانہ روّ یے سے اس قدر متا ثرہوئے کہ وہ جوق در جوق دائرہ اسلام میں شامل ہو نے لگے۔ اسلام کے پیرو کاروں نے ان ممالک میں امن قائم کیا ، ان ممالک کی رعایا کو ہر قسم کا تحفظ مہیا کیا۔ مسلمان گورنروں اور امیروں نے ریاست اور عوام کے حقوق وفرائض میں توازن پیدا کیا۔

اِن علاقوں میں اگر کسی گروہ یا جتھے نے بذریعہ طاقت بغاوت کرنے کی کوشش کی تو اس بغاوت کو کچل دیا گیا ۔ مسلمانوں کے عروج کی اصل وجہ دنیا وی علوم میں ترقی تھی، اب بھی غلبہ اسلام کیلئے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ جدید علوم میں دسترس حاصل کرے، سائنس ، ٹیکنالوجی ، انجیئرنگ ، معاشیات اور اقتصادیات سمیت تمام شعبوں میں دوسری اقوام سے سبقت حاصل کریں ، مسلمانوں کو عیش وعشرت کی زندگی گزارنے سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔

ہر لمحہ جدوجہد کا حکم دیا گیا ہے ، اپنا مال دوسرے مسلمانوں پر خرچ کرنے کا حکم ہے ، نفس کے خلاف جہاد کا حکم دیا گیا ہے ، تعلیمی میدان میں دسترس حاصل کرنا بھی جہاد ہے ، تمام علوم پر عبور حاصل کرنا بھی جہاد ہے ، ایسا علم حاصل کر نا بھی جہاد ہے ، جس سے دوسری اقوام کی محتاجی ختم ہو ۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہم اپنی بقاء اور دفاع کیلئے اسلحہ بھی دوسری اقوام سے خریدنے پر مجبور ہیں ، اپنی بقاء کیلئے دوسری اقوام سے قرضے لینے پر مجبور ہیں ، علاج کیلئے دوائیاں بھی دوسرے ممالک سے خریدنے پر مجبور ہیں، ہر معاملے میں اغیار کے محتاج ہیں ، ہر چیز کی بھیک دوسروں سے ما نگ رہے ہوتے ہیں۔

اس وقت پاکستان کی آ بادی ساڑھے تیئس) 23) کروڑ ہے مگر اپنی بقاء کی جنگ کیلئے کبھی آئی ایم ایف کے پا ؤں میں گِر جاتے ہیں کبھی کسی ملک کے، کبھی کسی ملک کے ، یہ سوچ ہی مفقود ہو چکی ہے کہ اسلام کے عروج کیلئے ہر مسلمان پر جہاد فرض ہے اور یہ جہاد اعلیٰ اور جدید تعلیم حاصل کرنے کا ہے ۔ جہاد کی اہمیت اُسی طرح قائم ہے مگر فلسفہ جہاد کو سمجھنا اشد ضروری ہے ، فلسفہ جہاد سمجھنے کیلئے قرآنی تعلیمات ، حدیث و سنت کو اور اسلام کے اولین دور کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے ۔

جہاد تما م اقوام پر زبردستی دین اسلام مسلط کرنے کا نام نہیں ہے ، یہ جبرو استحصال کے خلاف جد وجہد کا نام ہے ، انسانوں میں مساوات پیدا کرنے اور انھیں انصاف فراہم کرنے کا نام جہاد ہے اللہ کے نظام کو دنیا میں نا فذ کرنے کیلئے ہے ۔

اس نظام میں کمزور کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے ، اور مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد کی گئی کہ وہ اللہ کے نظام کی تشریح کریں ہر فرد تک اللہ کا پیغام پہنچائیں ۔ مگر اب مسلمانوں کی حالت اس قدر ابّتر ہے کہ دوسری اقوام انھیںحقارت کی نظر سے دیکھ رہی ہیں ، مسلمانوں کی شخصیت با لکل ہی متا ثر کُن نہیں ہے اس کی وجہ مسلمانوں کی زندگی کا محور ان کی اپنی ذات بن چکی ہے اور جب انسان خود غرضی ، نفسا نفسی اور خواہشات ِ نفس کا اسیر ہو جاتا ہے تو اس وقت وہ دوسری تمام اقوام کی نظر میں گِر جاتا ہے ، مگر حیرت کا مقام ہے کہ مسلمانوں کو اس بات کا احساس بھی ہے کہ دوسری تما م اقوام انھیں حقارت کی نظر سے دیکھتی ہیں مگر وہ اپنی اصلاح کرنے پر تیار ہی نہیں ہیں ۔

ہر مسلمان پر جان و مال سے جہاد ہر دور میں فرض رہا ہے ، صرف نوعیت بدلتی رہی ہے ۔ اب تمام مسلمانوں کو جان و مال سے اس طریقے سے جہاد کرنے کی ضرورت ہے کہ متمول طبقہ اپنی ساری دولت مسلمان بچوں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت پر خرچ کرے اور مسلمان اعلی ٰ تعلیم حاصل کرنا فرض سمجھے ، تمام مسلم ممالک خاص طور پر پا کستان میں راہنما ء اور علماء کرام عوام میں یہ شعور بیدار کریں کہ وہ حالت جنگ میں ہیں ، دوسری اقوام پر سبقت حاصل کرنے کیلئے انھیں بھر پور طریقے سے جنگی تیاریاں کرنی ہونگی ، مگر یہ جنگی تیاریاں یہ ہیں کہ ہر شعبے میں دسترس حاصل کی جائے۔

 ہر شعبے میں مہارت اور دسترس حاصل کرنا ہی جہاد ہے

گو کہ یہ سفر مختصر نہیں ہے اور آ سان بھی نہیں ہے ، کیونکہ دوسری اقوام ترقی کی دوڑ میں بہت آ گے نِکل چکی ہیں مگر ایک دفعہ صدق دل سے نیت کر لی جائے تو اللہ تعالیٰ کی تا ئیدو مدد بھی حاصل ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں میں ایسے افراد پیدا کر دے گا کہ جو ہر شعبے میں جدید علوم، مہارت اوردسترس حاصل کر کے دوسری اقوام پر سبقت لے جائیں گے ۔

 اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو غالب کرے گا

اگر آج تمام مسلمانوں کے ذہن میں جہاد کی موجودہ نوعیت کا تصور واضح ہو جائے اور ہر فرد غلبہ اسلام کیلئے جدوجہد شروع کر دے تو شائد صرف بیس سال میں ہم دوسری اقوام سے آ گے نِکل جائیں گے ، سب سے زیادہ ذ مہ داری امراء پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے خزانوں کے دروازے مسلمانوں کی اعلیٰ تعلیم وتر بیت اور ریسرچ کیلئے کھول دیں ۔

’’ایک غزوہ کی تیاری کیلئے حضرت عمر فاروقؓ اپنے کل اثاثے کا آ دھا حصہ لے آ ئے تھے، اور حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنا کل اثاثہ ہی غزوہ کی تیاری کیلئے لے آ ئے تھے ‘‘ مگر اب امراء ہوس زر میں مبتلا ہیں اپنی دولت کو اندرون اور بیرون ملک سمیٹ کر رکھ رہے ہیں ، مسلمان معاشرہ زوال پذیر ہے ، دوسری اقوام مسلمانوں پر غالب آتی جا رہی ہیں ۔ ناخواندگی میں اضافہ ہو رہا ہے ، مسلمان معاشرہ تنزلی کا شکار ہے ، پسماندگی انتہا پر ہے ۔

قرآن پاک میں جہاد کی اہمیت پر اس قدر زور دیا گیا ہے کہ کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی ، مگر پاکستان جیسے ممالک میں جہاد کا مفہوم یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ (ڈنڈے سوٹے لیکر اپنی ہی عوام پر پَل پڑیں ) جہاد کا مطلب دین اسلام کی سر بلندی و سرفرازی ہے اور یہ سرفرازی اور سر بلندی جدید علوم میں عبور اور دسترس حاصل کئے بغیر حاصل نہیں ہو گی ۔

ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ مدرسوں کے علاوہ پا کستان بھر کے تمام تعلیمی اداروں کے طالبعلم بھی اپنے آ پ کو جہاد ی سمجھیں ، اپنے آپ کو جہاد کی تیاریوں میں مصروف رکھیں ، ہر فرد یہ سمجھ کر تعلیم حاصل کرے کہ وہ اپنے دین ِاسلام کی سرفرازی اور دوسری اقوام پر سبقت حاصل کرنے کیلئے تعلیم حاصل کر رہا ہے ، اس وقت یہی جہاد ہے ، یہی اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہے ۔

ہر سطح پر موجودہ جہاد کی تشریح کی اشد ضرورت ہے ، موجودہ دور میں مسلمان جس کسمپرسی کا شکار ہیں اس کی وجہ سے ہر مسلمان پر جہاد فرض ہے مگر اس جہاد کی نوعیت سمجھنا بہت ضروری ہو گی ، ڈنڈوں، لاٹھیوں ، بندوقوں اور خود کش حملوں سے نہ فتح حاصل ہو گی اور نہ ہی مہذب دنیا میں عزت و وقار حاصل ہو گا بلکہ پسماندگی میں مزید اضافہ ہی ہو گا ۔

وقت کی ضرورت جہاد کا صرف ایک طریقہ ہے کہ سب ملکر ملک میں تعلیمی انقلاب برپا کریں، اگر امراء اپنی دولت کا سارا حصہ اس کام کیلئے خرچ نہیں کر سکتے تو کم از کم ایک چوتھائی حصہ اس کام پر خرچ کریں ۔

مدرسوں میں دینی تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے طلباء کو بھی جہاد کی موجودہ نوعیت کے متعلق سمجھایا جائے کہ اسلام کا غلبہ کیسے حاصل ہو گا ؟ اقتصادی ومعاشی دسترس کیسے حاصل ہو گی؟ جدید اسلحہ کے مقابلے کیلئے مسلمانوںکو کونسی ٹیکنالوجی درکار ہے اگر سب طالبعلم اپنی زندگی سائنس و ٹیکنالوجی اور دوسرے جدید علوم کے حصول کیلئے وقف کر دیں تو یقیناً اللہ تعالیٰ کی تائید و مدد حاصل ہو گی!!!

جہاد کا اعلان سر براہ مملکت کر سکتا ہے
دین اسلام کے مطابق جہاد کا اعلان صرف ریاست کر سکتی ہے ، اسلامی ریاست میں کوئی گروہ ، جتھا یا لشکر اپنے طور پر جہاد کا فیصلہ نہیں کر سکتا ، اور نہ ہی اُسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے طور پر یہ فیصلہ کرے کہ حکومت وقت یا عوام ان کے ’’اپنے دینی نظریات ‘‘ کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں یا نہیں ۔ البتہ جن ریاستوں میں ھندو ، یہود اور دوسری غیر اقوام نے قبضہ کیا ہو ، وہاں کے تمام مسلمان باشندوں پر آزادی کیلئے جہاد فرض ہو جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔