اوتار...سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم

رانا نسیم  اتوار 3 اپريل 2022
 آئیے جانتے ہیں فلم کے پس پردہ دلچسپ اور حیران کن حقائق کے بارے میں ۔ فوٹو : فائل

آئیے جانتے ہیں فلم کے پس پردہ دلچسپ اور حیران کن حقائق کے بارے میں ۔ فوٹو : فائل

ایک فلم کی کامیابی کے لئے بہترین کہانی، عکس بندی، ہدایت کاری، اداکار اور اداکاری جیسے لوازمات ضروری ہوتے ہیں کیوں کہ انہی کی بنیاد پر وہ فلم شائقین کے دلوں کو لبھاتی اور کمائی کرتی ہے۔

فلمی دنیا کا تاریخی اعتبار سے  جائزہ لیا جائے تو آج تک ریلیز ہونے والی لاکھوں فلموں میں شائد سینکڑوں فلمیں ہی حقیقی طور پر اس معیار پر پورا اترتی ہیں۔ تاہم ہم یہاں ایسی ہی فلموں میں سے ایک کا تذکرہ کرنے جا رہے ہیں، جس نے کم بجٹ سے دنیا بھر میں کمائی کا وہ ریکارڈ بنایا جو 12،13 برس گزرنے کے باوجود ٹوٹ نہیں سکا۔ جی ہاں! ہم بات کر رہے ہیں۔

2009ء میں ریلیز ہونے والی فلم اوتار کی۔ اوتار کو صدی کی بہترین فلموں میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے، جس نے مقبولیت اور کمائی کے حوالے سے متعدد ریکارڈ قائم کر ڈالے۔  ڈزنی کو اس فلم کی ریلز کے 10 سال بعد بھی فلم  Avengers: End Game The کو دو بار ریلیز کرنا پڑا تاہم وہ پھر بھی اوتار کا ریکارڈ بریک نہ کر سکے۔ اس فلم کے ڈائریکٹر، پروڈیوسر اور لکھاری معروف کینیڈین ہدایت کار جمیز کیمرون ہیں۔

جیمز کیمرون کو شوبز کی دنیا میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے، تین بار دنیائے فلم کا سب سے بڑا اعزاز آسکر جیتنے والے ڈائریکٹر کے گھر کی الماری ایوارڈز سے بھری پڑی ہے۔ فلم کے مرکزی کردار سیم ورتھینگٹن، زوئی سیلڈانا، مائیکل رودریگز اور سیگورنی ویور جیسے معروف آسٹریلوی اور امریکن اداکاروں نے ادا کئے ہیں۔

فلم کی موسیقی جیمز ہارنر نے دی جبکہ معروف امریکی کمپنی 20th Century Fox نے پروڈکشن کی ذمہ داری سنبھالی۔ 162 منٹس کے دورانیہ پر محیط فلم کا کل بجٹ 246 ملین ڈالر تھا جبکہ باکس آفس پر کمائی 2.847 بلین ڈالر رہی، جو دنیا بھر میں آج تک کی سب سے زیادہ کمائی ہے۔

اوتار کو مجموعی طور پر 148 ایوارڈز کے لئے نامزد کیا گیا، جن میں سے 73 ایوارڈز کو وہ اپنے نام کرنے میں کامیاب رہی، ان ایوارڈز میں 3 آسکر، 2 بافٹا، 2گولڈن گلوب، 4فونکس فلم کریٹکس، ایک سکریم، تین ٹین چوائس اور 7 ویژوئل ایفکٹس سوسائٹی وغیرہ شامل ہیں۔ اس فلم کی کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے جیمز کیمرون نے 20th Century Fox کے ساتھ اسی فلم کے 4 سیکوئلز بنانے کا معاہدہ بھی کر لیا ہے۔

یہ فلمیں یعنی اوتار ٹو، تھری، فور اور فائیو بالترتیب 16 دسمبر 2022، 20دسمبر 2024، 18دسمبر2026 اور 22 دسمبر 2028 میں ریلیز ہوں گی۔ ان میں سے پہلی دو فلموں کی تو ابتدائی عکس بندی بھی مکمل ہو چکی ہے۔

لہٰذا ایسی مقبول زمانہ اور سپر ڈوپر فلم کے بارے میں متجسس ہونا بھی ایک فطری جذبہ ہے، جس کی تسکین کیلئے ہم یہاں آپ کو اس فلم کے پس پردہ دلچسپ اور حیران کن حقائق سے روشناس کروانے جا رہے ہیں۔

سب سے پہلے ہم بات کرتے ہیں کہ جیمز کیمرون کو اس فلم کا خیال کیسے آیا تھا تو کہا جاتا ہے کہ ان کی والدہ کو طویل القامت اور نیلے رنگ والی خاتون کا ایک خواب آیا، جس کے بارے میں انہوں نے اپنے بیٹے کو بتایا تو بیٹے یعنی جیمز کیمرون ماں کے خواب والی لڑکی کا خاکہ بنانے میں جت گئے۔

خاکہ بنانے میں جیمز کیمرون نے ہندی فلموں میں دکھائے جانے والے بھگوانوں کی مورتیوں سے مدد لی۔ہندؤں کے مذہبی عقائد کے مطابق جیسے بھگوان نے دنیا میں آکر اوتار(بھگوان کا خود ہی کسی شکل میں وارد ہونا) لیا تو اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے جیمز نے اس خاکے اور بعدازاں فلم کا نام سنسکرتی زبان کے لفظ اوتار پر رکھا۔

چند ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جیمز کو یہ خیال ڈزنی کی 1995ء میں ریلیز ہونے والی اینیمیٹڈ فلم پوکاہونٹس سے ملا تھا، جو بنیادی طور پر پوکاہونٹس نامی ایک ریڈانڈین لڑکی کی کہانی ہے، جس میں ایک انگریز لڑکی کے گاؤں کی زمین میں چھپے خزانے کی تلاش کے لئے وہاں آتا ہے، لیکن آخر میں وہ پوکاہونٹس کے لئے اپنے ہی لوگوں کے خلاف ہو جاتا ہے، دوسری طرف یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ جیمز کیمرون نے فلم اوتار کا سکرپٹ 1995ء تک تیار کر لیا تھا لیکن انہوں نے 1999ء تک اس کا کسی سے ذکر نہیں کیا تھا۔

اس فلم کو بنانے کے لئے جیمز کیمرون نے 1999ء میں ہی پوری تیاری کر لی تھی لیکن اُس وقت ٹیکنالوجی عصرحاضر کی جدت سے متعارف نہیں ہوئی تھی، جس کے باعث فلم کے بجٹ کا تخمینہ 4 سو ملین ڈالر سے بھی تجاوز کر رہا تھا اور اگر یہ فلم اس وقت بنتی تو یہ تاریخ کی سب سے مہنگی فلم ہوتی، یوں ایڈوانس سی جی آئی (Computer- Generated Imagery) اور موشن کیپچر نہ ہونے کے باعث جیمز نے اس خیال کو ملتوی کر دیا اور ٹیکنالوجی کی جدت اور باسہولت رسائی کا انتظار کرنے لگے۔

2002ء میں جب دی لارڈ آف دی رنگز: دی ٹو ٹاورز ریلیز ہوئی تو اس میں سی جی آئی اور موشن کیپچر سمیت دیگر جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کو دیکھتے ہوئے جیمز کیمرون نے پھر سے ایک بار اوتار کے بارے میں سوچا اور کام مکمل ہوتے ہوتے 2009ء آ گیا۔

فلم کے مرکزی کردار یعنی جیک سلی کے لئے فلم سازوں نے سب سے پہلے امریکی اداکار جیک جیلنھال کو پیش کش کی لیکن انہوں نے فلم The Prince of Persia کی وجہ سے یہ آفر ٹھکرا دی، اس کے علاوہ امریکی اداکار کرش پائین اور میٹ ڈیمن کو بھی مرکزی کردار نبھانے کی آفرز کی گئیں لیکن وہ کسی نہ کسی وجہ سے معذرت کر گئے۔

اس حوالے سے ایک انٹرویو کے دوران میٹ ڈیمن نے بتایا کہ ’’اگر میں نے اوتار میں مرکزی کردار نبھایا ہوتا تو میں اس سے کم از کم 250 ملین ڈالر کمائی کر لیتا کیوں کہ فلم کے معاہدہ کے مطابق مرکزی ہیرو کا اس فلم کی کمائی 10 فیصد حصہ ملنا تھا‘‘ اب یہ ڈیمن کا رشک ہے یا پچھتاوا، یہ وہی بہتر بتا سکتے ہیں۔

دوسری طرف فلم کے مرکزی ہیرو یعنی سیم ورتھینگٹن کی بات کریں تو آسٹریلیا سے آئے اداکار امریکا میں کوئی بھی کام نہ ملنے کے باعث اپنا سب کچھ بیچ کر ایک گاڑی میں رہائش پذیر ہو چکے تھے لیکن تب ان کی قسمت ہی بدل گئی جب جیمز کیمرون نے انہیں جیک سلی کے لئے منتخب کر لیا۔

فلم میں سٹنٹ مین کے بجائے اداکاروں سے ہی زیادہ سے زیادہ ایڈوانچرس سین کروانے کے لئے جیمز کیمرون نے ساری کاسٹ کو امریکی ریاست ہوائی کے جنگلوں کی سیر کروائی جس کا مقصد ایک طرف ان سے سٹنٹ کروانا تھا تو دوسری طرف پینڈورا کے ماحول سے شناسائی تھی کہ اداکار اس ماحول کو سمجھ سکیں اور اس سیر کے فوائد بھی نظر آئے، فلم میں نیٹیری کا کردار ادا کرنے والی زوئی سیلڈانا کا کہنا تھا کہ ہوائی کے جنگلوں کی سیر کے دوران جو تربیت انہیں حاصل ہوئی۔

یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ سٹوڈیو میں اپنے کردار کو بھرپور طریقہ سے نبھا پائی۔ بھلے ہی اس فلم میں بہت ساری چیزوں کو ایجاد کرنا پڑا لیکن اس میں کچھ چیزیں ایسی بھی تھیں جو فلم کی تیاری کے دوران وقت کو بچانے کے لئے کی گئی تھیں، انہیں میں سے ایک اڑنے والی عجیب الخلقت چیز تھی، جن کی آواز سننے والوں کو جراسک پارک کے ڈائنو سارس جیسی محسوس ہوتی ہے لیکن ہم آپ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ یہ آوازیں جراسک پارک کے ڈائینوسارس جیسی ہی نہیں بلکہ وہی ہیں، جن کو اوتار میں بھی استعمال کیا گیا۔ تاہم  اوتار میں باقی جانور جیسے بندر اور لگڑ بھگڑ کی آوازیں حقیقی جانوروں کی آوازوں سے ہی لی گئی تھیں۔

اوتار کی کامیابی کے باعث اسے دیگر میڈیا میں بھی استعمال کیا گیا، جیسے اس پر کبھی ویڈیو گیمز بنیں تو کبھی مزاحیہ خاکے بنائے گئے لیکن ان سب کے علاوہ جو چیز سب سے زیادہ متاثر کن تھی وہ کینیڈا کی معروف انٹرٹینمنٹ کمپنی cirque du soleil کا اوتار کا سٹیج پرفارمنس، جس کا نام ترک، دی فرسٹ فلائٹ ہے۔ اس سٹیج پرفارمنس کو بہت زیادہ پذیرائی ملی  کیوں کہ اس میں اوتار کی تمام عجیب الخلقت چیزوں کو بھی دکھایا گیا۔

اس کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ جیمز کیمرون نے اس سٹیج پرفارمنس کے لئے بطور مشیر فرائض سرانجام دیئے۔ یہ سٹیج پرفارمنس 2019ء میں لندن میں دکھائی گئی اور اب مارکیٹ میں اس کی ڈی وی ڈی بھی دستیاب ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اوتار سی جی آئی ہیوی فلم ہے، جس کا ڈیٹا محفوظ بنانے کے لئے بہت طاقت ور سٹوریج آلات کی ضرورت پڑی، کہا جاتا ہے کہ اس کے لئے 4ہزار کمپیوٹر سرورز کا انتظام کیا گیا۔

اوتار کا ہر سی جی آئی (Computer-Generated Imagery) تقریباً 17 گیگابائیٹس (جی بی) کی جگہ لیتا تھا تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پوری فلم کو محفوظ رکھنے کے لئے کتنی زیادہ میموری کی ضرورت پڑی ہو گی۔ کچھ سینز کو تو محفوظ کرنے کے لئے 48،48 گھنٹے کا وقت لگ جاتا تھا۔ تاہم فلم بنانے میں صرف مصنوعی آلات پر ہی مکمل بھروسہ نہیں کیا گیا بلکہ کچھ چیزیں حقیقی بھی تھیں۔

جیسے کے جیک سلی کی معذور انسانی ٹانگیں سی جی آئی نہیں ہیں بلکہ صرف کیمرے کا ماہرانہ استعمال ہے۔ فلم میں ناوی کے کرداروں کی زبان نہایت منفرد اور مہذبانہ تھی لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس زبان کو بالکل نئے طریقے سے بنایا گیا تھا، اس زبان کو یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا کے پروفیسر ڈاکٹر پال آر فرومر نے تخلیق کیا، جس کے لئے انہوں نے تقریباً ایک ہزار سے 15سو نئے لفظ تخلیق کئے، یہاں پر جیمز نے انہیں درخواست کی تھی وہ ایسی زبان بنائیں جسے اداکار آسانی سے بول سکیں۔

جس کے باعث فلم میں مرکزی کردار نبھانے والے آسٹریلوی اداکار سیم، جن کے لئے امریکن لہجہ ذرا مشکل تھا، نے باآسانی اس زبان پر قابو پا لیا۔ اوتار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کی پہلی تھری ڈی فلم ہے لیکن یہاں ہم آپ کو بتانا چاہ رہے ہیں کہ یہ آدھا سچ ہے کیوں کہ دنیا کی پہلی تھری ڈی فلم 1922ء میں ریلیز ہوئی تھی، جس کا نام تھا Power of Love، تاہم اوتار اس حوالے سے پہلی تھری ڈی فلم کہلاتی ہے کیوں کہ یہ پہلی سی جی آئی ٹیکنالوجی سے بنائی گئی تھری ڈی فلم ہے، جس کے سبب اسے دیکھنے کا الگ ہی مزہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔