افغانستان میں انسانی المیہ

ایڈیٹوریل  ہفتہ 2 اپريل 2022
جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، افغانستان میں بھوک کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، افغانستان میں بھوک کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

چینی صدر شی جن پنگ نے ایک ایسے وقت میں افغانستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے، جب مغربی ممالک نے امدادی رقوم بھی روک دی ہیں۔

چینی صدر کا یہ بیان طالبان حکومت کے لیے کس قدر اہم ثابت ہو سکتا ہے؟ چینی صدر شی جن پنگ نے افغانستان کی حمایت میں یہ بیان ایک علاقائی کانفرنس میں دیا ہے۔ اس کانفرنس میں افغانستان، چین، روس، پاکستان، ایران، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے اعلیٰ حکومتی نمایندے شریک ہوئے۔

جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، افغانستان میں بھوک کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔اطلاعات کے مطابق اس وقت افغانستان کی آدھی آبادی کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے۔

خصوصاً بچوں میں غذائی قلت کے سبب بڑے پیمانے پر اموات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، پاکستانی قیادت اس معاملے کی سنگینی کی جانب عالمی رائے عامہ کی ایک عرصہ سے توجہ مبذول کرا رہی ہے، لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ امریکا سمیت کئی طاقتور ممالک اس طرف بوجوہ توجہ نہیں دے رہے، جس سے یہ خوف بڑھ گیا ہے کہ افغانستان میں خوراک، ادویات کی کمی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہو سکتی ہیں۔

افغانستان میں طالبان نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے۔دنیا نے انھیں توقعات کی طویل فہرست حوالے کرتے ہوئے زور دیا کہ وہ سب سے پہلے انھیں پورا کریں، ان کی حکومت کو تاحال تسلیم کرنے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ہنوز افغانستان کے10بلین ڈالر کے اثاثے منجمد ہیں، جس کے سبب افغان حکومتی امور چلانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

بعض عالمی ادارے یہ دعویٰ توکرتے ہیں کہ2022میں97فیصد افغان سطح غربت سے نیچے ہوں گے،لیکن یہ ادارے یہ تسلیم کرتے ہوئے شرم محسوس کرتے ہیں کہ اس کی وجہ وہ خود بھی ہیں،اگر دنیا یہ سمجھتی ہے کہ وہ افغانستان کو ایک بار پھر تنہا چھوڑ کر محفوظ رہے گی تو اسے ایک بچگانہ سوچ ہی قرار دیا جائے گا،اگر افغانستان میں حالات بے قابو ہوتے ہیں خطے کے ممالک تو متاثر ہوں گے ہی،کئی بڑے بڑے ممالک میں بھی امن کی ضمانت دینا مشکل ہو جائے گی۔اس وقت افغانستان کو شدید غذائی قلت کا سامنا ہے اور آنے والے وقت میں یہ بحران سنگین سے سنگین ہوتا چلا جائے گا۔

ماہرین کے مطابق چینی صدر کے اس بیان سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ امریکا اور نیٹو کے افغانستان سے انخلاکے بعد بیجنگ حکومت اپنے اس ہمسایہ ملک میں قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ گزشتہ ہفتے چینی وزیر خارجہ نے بھی کابل کا ایک اچانک دورہ کیا تھا۔ چین میں ہونے والے اس اجلاس میں قطر اور انڈونیشیا کے وزرائے خارجہ کو بطور مہمان دعوت دی گئی تھی۔ اس میں طالبان کے وزیر خارجہ عامر خان متقی افغانستان کی نمایندگی کر رہے ہیں۔

آج جو حالات افغانستان میں ہیں ان سے صرف وہی لوگ واقف ہیں جو روبرو اسے سہ رہے ہیں، غربت اور رہن سہن کے نامکمل انتظامات اس پر مستزاد یہ کہ کورونا کی وبا نے بھی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اور اشیائے ضروریہ کے نہ ہونے کے ساتھ ساتھ ادویات کی عدم دستیابی نے مسائل گھمبیر بنا دیے ہیں۔

افغانستان کی موجودہ صورتحال کی ذمے داری امریکا اور اس کے اتحادیوں پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے ملک میں 20 سال خانہ جنگی جاری رکھ کر اسے تباہ حال کر دیا۔ اس کے باوجود شکست خوردہ امریکا نے خود افغانستان کے اربوں روپے مالیت کے اثاثے پر قبضہ جما رکھا ہے، اگر آج دنیا نے افغانستان کا ساتھ نہ دیا تو یہاں دہشت گردی کو فروغ ملے گا جس سے امریکا سمیت ترقی یافتہ ممالک بھی محفوظ نہیں رہ پائیں گے۔

افغان امن عمل میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر پاکستان ہی لے کر آیا لیکن بیرونی قوتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اسے مسلسل التواء کا شکار کرتی رہیں۔بھارت اور سابق کابل انتظامیہ نے افغانستان میں امریکا کو الجھا کر اس کی کمزوری کا خوب فائدہ اٹھایا ہے جس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ افغانستان میں تعمیر نو کے مختلف پروگرامزکے لیے مختلف مراحل میں قریباً 134ارب ڈالر کی منظوری دی گئی لیکن ان منصوبوں کا جب جائزہ لیا گیا تو انکشاف ہوا کہ کل بجٹ کے 30 فیصد یعنی63 بلین کے اخراجات میں سے 19بلین ڈالرزکرپشن کی نذر ہو گئے۔

امریکی ادارے کی رپورٹ میں بھی افغانستان کی تعمیر نو کے لیے ملنے والے2.4ارب ڈالرز پر شب خون مارنے کے حوالے سے ہوشربا انکشافات منظر عام پر آئے۔امریکی آشیر باد پر مودی کا ایرانی بندرگاہ ’’چاہ بہار‘‘میں اربوں ڈالرز مالیت کے دیگر منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کا مقصد صرف اور صرف پاکستان کی ترقی وخوشحالی اور خطے میں چین کی بالادستی کو نقصان سے دوچار کرنا تھاکیونکہ بیجنگ جہاں ایک طرف سرمایہ کاری، تجارت اورسفارتکاری کے ذریعے دنیا بھر میں ذرایع آمد و رفت اور اداروں کا ایک ایسا جال بچھا رہا ہے کہ جس سے ہر ایک پالیسی ہر آنے والے منصوبے کو اس طرح تقویت دے کہ پورا خطہ اس کی بانہوں میں سمٹ آئے تو وہیں دوسری طرف وہ افغانستان کو ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘منصوبے میں شامل کرکے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کے امکانات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

بلاشبہ او آئی سی اجلاس افغانستان میں امن و استحکام کی کوششوں کا نقطہ آغاز ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ اسلام آباد اجلاس افغانستان کے مستقبل کے لیے سنگ میل ثابت ہوگا۔

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ افغانستان کی صورتحال انتہائی نازک موڑ پر آن پہنچی ہے اور پاکستان ہر ممکن طور پر افغان بھائیوں کی مدد کے لیے کمربستہ ہے، لیکن یہ بھی واضح رہے کہ ہمیں سب سے پہلے پاکستان کے معاشی و اسٹرٹیجک مفادات کو بھی سامنے رکھنا چاہیے، کیونکہ ہمارے اس وقت داخلی و خارجی مسائل بھی پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں اور ان سے نبرد آزما ہونا حکومت وقت کے لیے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ ہماری حکومت کو چاہیے کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر افغانی المیے پر متوازن پالیسی تشکیل دی جائے جو وقت کی ضرورت بھی ہے۔

افغانستان وسطی اور جنوبی ایشیا کے درمیان پل کا کردار ادا کرسکتا ہے لیکن اس حقیقت سے بھی کوئی انکاری نہیں کہ مزید بدامنی کی صورت میں دنیا کا تقریباً کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہ سکے گا۔افغان جنگ کے دوران پاکستان کے 80 ہزار سے زائد شہری شہید جب کہ معیشت کو اربوں ڈالرز کا نقصان پہنچا لہٰذا حکومت پاکستان نے ماضی کے تلخ تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو دو ٹوک فیصلہ کیا اسے دنیا کے دیگر ممالک بھی قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔

افغانستان اور پاکستان کے درمیان 2611 کلو میٹر طویل سرحد ہے لہٰذا مزید بدامنی یا خانہ جنگی کی صورت میں افغان پناہ گزینوں کاجو دباؤ بڑھے گااس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ایسے میں عالمی برادری کو محض بیانات پر ہی اکتفا نہ کرتے ہوئے انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے بھرپور مدد کرنا ہو گی کیونکہ اگر بروقت اقدامات نہ اٹھائے گئے تو افغانستان کا عدم استحکام صرف پاکستان کے لیے ہی مسائل کا باعث نہیں بنے گا بلکہ اس سے خطے کے تمام ممالک متاثر ہوں گے،کیونکہ افغانستان میں امن و امان کا قیام خطے کے پائیدار امن و استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔

اب یہ دنیا کی ذمے داری ہے کہ افغانیوں کی اس کڑے وقت میں مدد انسانی فریضہ سمجھ کر کرے،کیونکہ افغانستان میں حالات خراب ہونے سے صرف خطے میں امن متاثر نہیں ہو گا۔اس کے اثرات تمام دنیا تک جائیں گے۔

لگتا ہے امریکا نے ماضی سے کچھ سبق نہیں سیکھا۔ماضی میں افغانوں کو تنہا چھوڑنے کی سنگین غلطی کا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑا،اگر امریکا اور یورپ وہی عمل دہراتے ہیں تو پھر افغانستان میں المیہ تو جنم لے گا ہی،اس کے اثرات دہائیوں تک پیچھا نہیں چھوڑیں گے، اب بھی وقت ہے کہ اس خطرے کا ادراک کیا جائے اور فوری عملی اقدامات کیے جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔