- صرف گمراہ عناصر ہی ایسے گھٹیا حملے کرسکتے ہیں، جامعہ الازہر کا پشاور حملے پر اظہار مذمت
- شیخ رشید دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے
- نواز شریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری فواد حسن احتساب عدالت سے بری
- دانیہ شاہ ویڈیو وائرل کیس؛ مدعی مقدمہ عامر لیاقت کی بیٹی کو پیش ہونے کا حکم
- بتایا جائے لاپتا افراد زندہ ہیں مرگئے یا ہوا میں تحلیل ہوگئے؟ عدالت وزارت دفاع پر برہم
- شادی ہال مالک کو ایک لاکھ 80 ہزار روپے کسٹمر کو واپس کرنیکا حکم
- سہیل خان نے کوہلی سے جھگڑے کی وجہ بتادی، ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل
- ممنوعہ فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کی درخواست مسترد، الیکشن کمیشن فیکٹ فائنڈنگ درست قرار
- ایشیاکپ کے مستقبل کیلئے پی سی بی کی دو رکنی ٹیم آج بحرین روانہ ہوگی
- امریکا کی جنگی مشقیں صورتحال کو ریڈ لائن کی انتہا پرلے جا رہی ہیں، شمالی کوریا
- وزیراعظم نے کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ کے تیسرے یونٹ کا افتتاح کردیا
- عمران خان نے آصف زرداری پر جھوٹے اور من گھڑت الزامات لگائے، شرجیل میمن
- پنجاب میں چکی آٹے نے سارے ریکارڈ توڑ دیے، قیمت 165 روپے تک جاپہنچی
- سندھ میں گھریلو صارفین گیس سے کیوں محروم ہیں؟ حکام نے وضاحت پیش کردی
- پی ٹی آئی کے 43 ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج
- مکی آرتھر کی عدم موجودگی میں یاسر عرفات کو جُزوقتی ہیڈکوچ بنانے کا فیصلہ
- ایف بی آر کا عوام کے ٹیکسز سے اپنے افسران کو بھاری مراعات دینے کا فیصلہ
- سودی نظام کو فروغ دے کر اللہ و رسولؐ سے جنگ نہیں لڑسکتے، وزیر خزانہ
- پشاور دھماکا؛ پولیس جوانوں کو احتجاج پر نہ اکسائیں، لاشوں پر سیاست نہ کریں، آئی جی کے پی
- ایران کا حالیہ ڈرون حملوں پر اسرائیل سے بدلہ لینے کا اعلان
گندم خریداری مراکز اور بڑے پیداواری ممالک

پاکستان کے وہ علاقے جہاں گندم کی پیداوار آنا شروع ہوگئی ہے۔ وہاں گندم خریداری مراکز قائم کردیے گئے ہیں، لیکن نجی افراد کی طرف سے بڑے پیمانے پر گندم کی خریداری ہو رہی ہے اور یہ بھی اطلاعات مل رہی ہیں کہ گندم کی اسمگلنگ بھی ہو رہی ہے۔
گندم کے بیوپاری اسے اپنے طور پر ذخیرہ بھی کر رہے ہیں۔ کاشتکاروں سے کم قیمت ادائیگی پرگندم خریدی جا رہی ہے تاکہ وقت آنے پر مہنگے داموں فروخت کی جائے۔ پنجاب میں ابھی تک گندم کی بھرپور خریداری کا عمل شروع نہیں ہوا۔
سرکار لاکھوں ٹن گنا اس لیے خرید لیتی ہے تاکہ اسے ذخیرہ کیا جاسکے اور بتدریج اس کا استعمال عمل میں لایا جائے۔ اس سال ملک بھر کے کسانوں نے گندم کی فصل کے لیے کم کھاد کا استعمال کیا ہے کیونکہ اول کھاد مہنگی مل رہی تھی۔
اس کے علاوہ شدید قلت بھی پیدا ہوئی۔ کھاد درآمد کے فیصلوں میں بھی قدرے تاخیر ہوئی۔ بروقت کھاد دستیاب نہ ہونے اورکم کھاد ملنے کے باعث زمینوں سے کم گندم پیدا ہوئی۔ پاکستان قیام کے وقت سے ہی زرعی مسائل سے دوچار ملک ہے۔ اس کا آخری نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر فصل کی فی ایکڑ پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے۔
پاکستان میں فی ایکڑ گندم ، چاول ، کپاس ، جو ، چنا ، دالیں اور دیگر فصلیں جتنی بھی پیداوار دے رہی ہیں ان سے کئی گنا زیادہ فی ایکڑ پیداوار دنیا کے مختلف ممالک میں حاصل کی جا رہی ہے۔ زراعت کو اکثر و بیشتر غیر معیاری بیج کا مسئلہ درپیش رہا ہے۔ اب تو مضر صحت زرعی ادویات بھی زراعت کے علاوہ لائیو اسٹاک اور کسانوں کو بھی متاثرکر رہی ہیں۔
ان میں بعض زرعی ادویات ایسی ہیں جن پر بیرون ممالک پابندی عائد کردی گئی ہے ، کیونکہ ایسی زرعی ادویات زرعی زمینوں، فصلوں اور مویشیوں سے لے کر کسانوں تک کے لیے مضر صحت ثابت ہو چکی ہیں، لیکن پاکستان میں کھلے عام فروخت ہو رہی ہیں۔
ان کے مضر اثرات کے باعث بہت سے ملکوں نے ایسی زرعی ادویات پر پابندی عائد کر رکھی ہے کیونکہ کہیں مویشی اور کہیں کسان بھی بیمار ہو رہے تھے۔کئی سالوں سے پاکستان مسلسل فوڈ آئٹمزکا امپورٹر بن چکا ہے۔
گزشتہ مالی سال کے دوران ایک ارب ڈالر کے قریب گندم درآمد کرچکے ہیں۔ پہلے بڑی مقدار میں یوکرین سے بھی گندم درآمد کرتے رہے ہیں۔ دنیا میں بڑی مقدار میں گندم پیدا کرنے والے دونوں ممالک ایک ماہ سے زائد عرصہ ہوا برسر پیکار ہیں۔ اس طرح عالمی فوڈ مارکیٹ میں گندم کا بحران جنم لے رہا ہے۔ ایسے میں بھارتی گندم عالمی مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا رہی ہے۔
بھارت کئی سالوں سے گندم کی بمپر فصل اٹھا رہا ہے اور اس کے پاس گندم برآمد کرنے کے لیے اب بڑی مارکیٹ پیدا ہو چکی ہے۔ بہت سے ممالک روس ، یوکرین جنگ کے باعث اب بھارت سے بڑی مقدار میں گندم کی خریداری کے معاہدے کر رہے ہیں۔
سری لنکا، بنگلہ دیش کے علاوہ دیگر کئی ممالک بھارت سے گندم خریداری کے خواہاں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی کھیتوں میں ہر فصل کی فی ایکڑ پیداوار پاکستان سے بہت زیادہ ہے۔ اس کی وجوہات بہت سی ہیں۔ پاکستان میں غیر معیاری بیج ، جعلی ادویات ، کم پانی کا حصول، کھیتوں کے لیے کم کھاد کا دستیاب ہونا کیونکہ ہر سال جب کھاد کی اشد ضرورت ہوتی ہے ایک مضبوط مافیا کھاد غائب بھی کردیتا ہے۔
اس کی قلت بھی پیدا ہو جاتی ہے اور مہنگی ترین کھاد ہونے کے باعث کسان مجبور ہوتے ہیں کہ کھاد کا استعمال کم سے کم کریں۔ اس کی پیداوار پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور کم پیداوار کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس مرتبہ کچھ ایسا ہی ہونے جا رہا ہے کہ گندم کا عالمی بحران سر پر کھڑا ہے۔ اب اس میں عالمی مارکیٹ کا کردار بہت اہم ہوگا کیونکہ عالمی مارکیٹ میں گندم کی قلت اور گندم کی قیمت میں اضافہ یہ دونوں باتیں پاکستان پر اثرانداز ہوں گی اور ملک میں گندم کی دستیابی میں کمی کا خدشہ بھی ہے۔
دیگر اقدامات اٹھانے کا وقت گزر چکا آخری حربہ یہ رہ گیا ہے کہ خریداری مراکز کی خامیوں کو دور کیا جائے، بار دانہ فراہم کیا جائے اور صوبائی حکومتیں ہدف پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں تاکہ کسان کو کم قیمت پر گندم فروخت نہ کرنا پڑے۔ نجی افراد زیادہ مقدار میں گندم خرید کر ذخیرہ کرلیتے ہیں اور ملک میں گندم کی کبھی مصنوعی اور کبھی حقیقی قلت پیدا ہوکر گندم کی قیمت میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور مہنگے داموں گندم درآمد کرنا پڑتی ہے۔
گزشتہ مالی سال 2020-21 کے دوران 36 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی۔ گزشتہ مالی سال کے 8 ماہ کے دوران 33 لاکھ 83 ہزار میٹرک ٹن گندم کی درآمد پر 91 کروڑ59 لاکھ ڈالرزکے اخراجات آئے تھے جب کہ رواں مالی سال کے پہلے 8 ماہ کے دوران 20 لاکھ 94 ہزار میٹرک ٹن گندم کی درآمد پر 75 کروڑ20 لاکھ 54 ہزار ڈالر کے اخراجات آئے ہیں۔
گندم پیداوار کے معاملے میں پاکستان کسی سال خودکفیل رہا اور کسی سال گندم درآمد کرتا ہے۔ اس وقت روس، یوکرین تنازع کے باعث گندم کی عالمی مارکیٹ میں قلت پیدا ہو رہی ہے۔ گندم کے اہم پیداواری ممالک میں روس کا تیسرا نمبر ہے جب کہ بھارت دوسرا بڑا پیداواری ملک ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔