کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 3 اپريل 2022
جھلمل جھلمل کرتے سارے سپنے اُس کے نام رہے؛ جگمگ جگمگ تعبیروں کے لمحے اُس کے نام رہے۔ فوٹو : فائل

جھلمل جھلمل کرتے سارے سپنے اُس کے نام رہے؛ جگمگ جگمگ تعبیروں کے لمحے اُس کے نام رہے۔ فوٹو : فائل

غزل
جھلمل جھلمل کرتے سارے سپنے اُس کے نام رہے
جگمگ جگمگ تعبیروں کے لمحے اُس کے نام رہے
ایک وہی تھی جس کے تن پر ہر زیور سج جاتا تھا
کنگن، پائل، ہار، انگوٹھی، جھمکے اُس کے نام رہے
جس کی آنکھیں دیکھ کے میں نے پہلا مصرعہ لکّھا تھا
شعر محبت میں سب ڈوبے ڈوبے اُس کے نام رہے
جنگ سے لوٹ کر آیا میں تو سب کچھ اُس کو سونپ دیا
لعل، زمرّد، سونا، چاندی، ہیرے اُس کے نام رہے
چاند نگر سے مجھ سے ملنے آئی تھی وہ شہزادی
روشن روشن وصل کے سارے لمحے اُس کے نام رہے
نیند کا شکوہ کرتی آنکھوں سے یہ لگتا ہے یاورؔ
تم بھی سوئے سوئے جاگے جاگے، اُس کے نام رہے
(یاور عظیم۔رحیم یار خان)

۔۔۔
غزل
اب اداسی کا سبب اس کے سوا کیا رہ گیا
تو بھی تنہا رہ گیا اور میں بھی تنہا رہ گیا
رات کے پچھلے پہر جب لکڑیاں جل بجھ گئیں
برف پڑنے لگ گئے قصہ ادھورا رہ گیا
چاند شب بھر جھیل کے پانی میں غوطہ زن رہا
دور اک سہما ستارہ جلتا بجھتا رہ گیا
اک پری اتری زمیں پر اور خوشبو لے اڑی
اور اک تتلی کا چہرہ زرد ہوتا رہ گیا
روشنی جی ! کس نگر جا کر ہوئی آباد تُو
میں سیہ غاروں میں تیری راہ تکتا رہ گیا
ایک عرصہ میں نے اپنی روح کو زخمی کیا
اور پھر اک عمر اپنے زخم گنتا رہ گیا
اک ہجومِ پر تجسس تھا طلسم ِ زیر بار
صرف میں وہ کاسنی زینے اترتا رہ گیا
پھول چننے والیاں سب پھول چن کے چل پڑیں
اب فقط کھلیان میں تنہا بجوکا رہ گیا
(ذی شان مرتضیٰ، ڈی آئی خان)

۔۔۔
غزل
میں اپنی روح کا پیکر سمجھ رہی تھی جسے
وہ دشت تھا میں سمندر سمجھ رہی تھی جسے
پھر ایک دن اتر آیا مقابلہ پہ مرے
میں اپنے آپ سے بہتر سمجھ رہی تھی جسے
وہ شخص مجھ سے زیادہ قریب تھا میرے
میں دسترس سے بھی باہر سمجھ رہی تھی جسے
ہزاروں لاکھوں میں اس کی مثال ملتی نہیں
میں اپنے قد کے برابر سمجھ رہی تھی جسے
کھڑا تھا میرے لیے پھول لے کے وہ بلقیس ؔ
میں اپنی راہ کا پتھر سمجھ رہی تھی جسے
(بلقیس خان ۔ میانوالی)

۔۔۔
غزل
آنکھوں سے دردِ دل جو بیاں کر دیا گیا
مدت کا راز پل میں عیاں کر دیا گیا
سالوں کا محنتانہ ملا ایسے روپ میں
جذبہ یہاں پہ سب کا جواں کر دیا گیا
ایسی چلے ہیں چال حریفانِ نا مراد
اک بر گزیدہ خواب دھواں کر دیا گیا
ٹھہرا رہے ہو کس لیے تم مرتکب مجھے
کیونکر مرے یقیں کو گماں کر دیا گیا
منصف کے سامنے وہ گواہی کے طور پر
آیا تو اک بیاں کو زباں کر دیا گیا
تجھ کو خراج دینا تھا آنکھوں سے دوستا
اشکوں کا قافلہ بھی رواں کر دیا گیا
(اسد رضا سحر۔احمد پور سیال)

۔۔۔
غزل
تم جس کو سمجھتے ہو کہ وہ ہم سے بڑا ہے
پنجوں کے مگر بل پہ تو وہ شخص کھڑا ہے
اندر سے بنا دیتا ہے مضبوط اُسے عشق
کمزور بہت گرچہ یہ مٹّی کا گھڑا ہے
ادراک حقیقت کا کسی کو بھی نہیں ہے
ہر کوئی مگر اپنے ہی دعوے پہ اڑا ہے
اوروں کے گریباں پہ ترا ہاتھ پڑے ہے
کیا نفس کے جن بھوتوں سے تو اپنے لڑا ہے
اُس زیست کا پھر بھی ہمیں چسکا نہیں جاتا
ہر ایک قدم پہ ہی جہاں مرنا پڑا ہے
اک تم ہی اکیلے نہیں آفت میں گرفتار
جس کو بھی یہاں دیکھو وہی زندہ گڑا ہے
(مشبر حسین سید۔ اٹک)

۔۔۔
غزل
زیست تو ہم نے گویا کی نہیں کی
یہ بھی کیا کم ہے خود کشی نہیں کی
اب بھی قائم ہوں تو کرم رب کا
لُوٹنے والوں نے کمی نہیں کی
ظرف اتنا تو ہے کہ تیرے بعد
تیرے دشمن سے دوستی نہیں کی
تو نے کاٹی تو ہم نے دل کی بات
ایسی چھوڑی کہ پھر کبھی نہیں کی
زندگی ہم نے تیرے دامن پر
زخم کاڑھے ہیں شاعری نہیں کی
(شہزاد واثق۔ لاہور)

۔۔۔
غزل
نئے ماحول میں یونہی نہیں ڈھل جاتے ہیں
ہم ہواؤں کے تعاقب میں نکل جاتے ہیں
اس لیے عالمِ ارواح میں ہے امن و امان
دم نکلتے ہی سبھی خم بھی نکل جاتے ہیں
میری تعمیر میں مضمر ہے خرابی یہ بھی
میرے معیار بہت جلد بدل جاتے ہیں
حدّتِ لمس بھی درکار نہیں ہوتی انہیں
آپ کو دیکھتے ہی لوگ پگھل جاتے ہیں
موت کے بعد تو ہر جسم بکھر جاتا ہے
کیا ہوا ہاتھ سے جو رشتے پھسل جاتے ہیں
شک کی بہتات مذاہب سے بغاوت تو نہیں
سوچ کے زاویے بس تھوڑا بدل جاتے ہیں
(توحید زیب۔رحیم یار خان)

۔۔۔
غزل
بوقت شام چراغوں کا اہتمام ہوا
جو وقت طے تھا اسی پر ہمارا نام ہوا
اذانِ فجر نے شب کا سکوت توڑ دیا
یوں ایک عہدِ اذیت کا اختتام ہوا
نہ گفتگو کا ہنر ہے نہ خواہش دیدار
یہ کیسے موڑ پہ ملنے کا انتظام ہوا
گزرتے وقت نے میرے نقوش خاک کیے
عمارتوں کی طرح میرا انہدام ہوا
ہزاروں لوگ تھے دل کے قریب تر لیکن
فقط جناب کی خواہش کا احترام ہوا
ہماری چھوڑیے ہم تو ہیں راندہ ٔدرگاہ
بتائیے ہمیں درباریوں کا کام ہوا؟
(سبحان خالد ۔تلہ گنگ)

۔۔۔
غزل
یہ دوست ہونے کے ناطے سے مشورہ ہے مرا
اسے بہلا دے وگرنہ تجھے پتہ ہے مرا
نماز پڑھنے کی ساری خوشی ہی جاتی رہی
کسی نمازی سے جوتا بدل گیا ہے مرا
میں کارِخیر میں اب صرف کرنا چاہتا ہوں
ترے بچھڑنے سے جو وقت بچ گیا ہے مرا
اکٹھارزق لکھا تھا بنانے والے نے
سو تیرے جانے سے بس رزق کم ہوا ہے مرا
کچھ اس لیے میں تجھے وقت دے نہیں پاتا
مجھے گماں ہے برا وقت چل رہا ہے مرا
گئے دنوں میں تو مجھ کو تری ضرورت تھی
پر آج کل کئی لوگوں سے رابطہ ہے مرا
(شاہد نواز۔ جھنگ)

۔۔۔
غزل
کھڑا سٹاپ پہ دیکھے تو مسکراتی ہے
تمہارے شہر کی گاڑی مجھے بلاتی ہے
ہمارے گاؤں میں پکی سڑک ہے مدت سے
مگر وہ اب بھی انہی راستوں سے جاتی ہے
اداس ہوتے ہوئے مسکرانے لگتا ہوں
تمہاری یاد مرے گال گدگداتی ہے
ہمارے آنے سے بدلاؤآ گیا اس میں
وہ اب کسی کو بھی چہرہ نہیں دکھاتی ہے
بھٹکنے دیتی نہیں موسموں کی سازش میں
شدید دھند میں پازیب چھنچھناتی ہے
(محسن ظفر ستی۔کہوٹہ)

۔۔۔
غزل
وہ بے وقوف محبت سزا سمجھتا ہے
کبھی کبھی تو اسے بددعا سمجھتا ہے
وہ نا شناس، نہیں ٹکتا میرے پہلو میں
وہ بے ایمان عبادت، گناہ سمجھتا ہے
وہ مجھ کو چھو کے نوافل میں رہتا ہے مشغول
وہ میرا لمس خدا کی عطا سمجھتا ہے
میں اس کے بال تولطف وعنا میں کھینچتی ہوں
وہ سادہ لڑکا ہے آہ و بکا سمجھتا ہے
خموش ہو جا خدا کے لیے تماشہ نہ کر
کیا ایسے شخص کو کوئی خدا سمجھتا ہے؟
(ماریہ حسن۔ فتح جنگ، اٹک)

۔۔۔
غزل
مت پوچھو کیسی کیسی اذیت میں ہم رہے
اک عمر تک فریبِ محبت میں ہم رہے
اب پاس سے گزرتے ہیں بن بن کے اجنبی
مطلب پرست یاروں کی صحبت میں ہم رہے
ماحول ہی عجب تِرے گلشن کا تھا خدا!
گُل ہو کے بھی چمن کی بغاوت میں ہم رہے
تجھ کو پتہ ہے ؟تیرا بچھڑنا عذاب تھا
تجھ کو خبر ہے ،کتنی مصیبت میں ہم رہے
ہر پل شکستگی کا اسامہ ہمیں ملا
ہر لمحہ زندگی کی جسارت میں ہم رہے
(اسامہ فرید۔ کہوٹہ)

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
عارف عزیز،روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔